مانا کہ تعلیمی نصاب میں مذہب اسلام اور اسلامی شعائر
واقدار کو فوقیت دی گئی ہے،جس کی وجہ سے بچوں کا ذہن شروع سے ہی اسلامی بن
جاتا ہے۔مانا کہ یہ سب کچھ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں امریکا کے ایما
پر ہوا،جس کا مقصد مذہب کو استعمال کرکے روس جیسی سپر پاور کو تاخت وتاراج
کرنا اور امریکا کو سپر پاور بنانا تھا۔مانا کہ یہ تمام نصابی کتب جنرل
ضیاء کے دور میں وضع کی گئی اسی تعلیمی پالیسی کا تسلسل ہیں،جن میں کہا
گیاتھا:’’اعلیٰ ترین فوقیت کوریکیولم کی اصلاح کو دیا جائے گا، تمام شاملات
کو اسلامی سوچ کے گرد ترتیبِ نو کرنے کے ارادے پر، اور تعلیم کو نظریہ
سازانہ(آئڈیولوجکل)رجحان دینے کے لیے تاکہ اسلامی نظریہ سازی (آئڈیولوجی)نوجوانوں
کے طرزِ خیال میں داخل ہو اور انہیں اسلامی نقطوں کے مطابق سماج کو تجدید
کرنے کے لیے ضروری اعتماد اور قابلیت میں مدد دے۔‘‘مانا کہ نصاب تعلیم
اسلام کو بطور ایمان پیش کرتاہے اوران کتابوں میں مستعمل بیشتر اصطلاحات
اسلامی اقدار پر مبنی ہیں، مثلا تقویٰ، شرافت اور فرماں برداری وغیرہ۔
یہ سب تسلیم اور اس سب کا خلاصہ ایک لفظ میں سوائے اس کے اور کیا ہے،کہ:’’
پاکستانی بچوں میں اسلام کی محبت اور شعور بندار کرنا‘‘،لیکن اس میں قابل
اعتراض کون سی بات ہے؟اگر دو قومی نظریہ اور اسلام کو نکال دیا جائے تو
بتلائیے،اس ملک کی آزادی کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟کیا سرسید احمدخان،علامہ
اقبالؒ،قائداعظمؒ سمیت تمام مسلمان قائدین نے یہ بات نہیں کی تھی کہ مسلمان
ایک علیحدہ قوم ہیں،ہمارا دین،ہماری تاریخ،ہماری تہذیب،ہماری معاشرت،ہماری
نشست وبرخاست ہندوؤں سے الگ ہے،لہٰذا ایک ایسے خطہ ٔ زمین کا ہونا ضروری ہے
جس میں مسلمان اپنے عقائد واعمال کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوں؟کیا
20لاکھ مسلمان صرف اسی جرم میں ذبح نہیں کیے گئے تھے کہ وہ الگ مسلم ملک
چاہتے تھے؟یقیناًایسا ہی تھا،تو اب آپ کو اسلام سے چڑ کیوں ہے؟نصاب کی
اسلامائزیشن دو قومی نظریے کے تقاضوں ہی کی تکمیل ہی توہے!
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒنے گیارہ اگست1947 کو آئین ساز
اسمبلی میں کی گئی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا تھا :حکومت کی اولین ذمہ
داری ملک میں امن و امان کا قیام ہے، تاکہ ریاست اپنے باشندوں کی جان و مال
اور مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ دے سکے۔قائد کایہ فرمان سر آنکھوں پر،لیکن
ذرا نشان دہی تو کیجیے،کون سی کتاب میں اقلیتوں کے خلاف مواد پایا جاتا
ہے؟کہاں لکھا ہے کہ اقلیتیں دوسرے درجے کی شہری ہیں؟اگر نصاب ایسا ذہن دیتا
تو جسٹس کارنیلئس اور جسٹس بگھوان داس چیف جسٹس کے اعلیٰ مناصب تک نہ
پہنچتے،حال ہی میں انتقال کرنے والی جذام کے مریضوں کی مسیحا ڈاکٹررتھ فاؤ
کو19توپوں کی سلامی دے کر سرکاری اعزاز واکرام کے ساتھ دفن نہ کیا جاتا،غیر
مسلم لوگوں کا ہر شعبۂ زندگی میں کردار اندھے کو بھی نظر آسکتا ہے۔اقلیت کی
اہمیت سے کس کو انکار ہے،لیکن یہ کہاں کی رواداری ہے کہ اقلیت کو اکثریت پر
حاوی کردیا جائے؟اگر ایسا ہی کرنا تھا تو ملک کو آزاد کرانے کا فائدہ کیا
ہوا؟آخروہاں بھی تو غیر مسلم ہی ہمارے سیاہ وسفید کے مالک تھے۔
لبرل حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی نصاب میں واضح تضاد پایا
جاتا ہے،کچھ درسی کتب میں تعصب اور نفرت پھیلانے والا مواد موجود ہے ،جو
آئین پاکستان کے آرٹیکل 22اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ اس
کنونشن کے بھی منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی پرورش تعصب اور
مذہبی امتیاز سے پاک معاشرے میں کی جانی چاہیے تاکہ وہ ذمہ درانہ زندگی
گزار سکیں۔مگروہ اس مواد کی نشان دہی سے قاصر ہیں ،محض شیشے کے گھر میں
بیٹھ کر سنگ باری سے کیا حاصل ؟
’’قلم برکف دشمن است‘‘کے مصداق ایسی ’’تحقیقی رپورٹس ‘‘گڑھی جاتی ہیں ،جن
میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ درسی کتب میں دیگر مذاہب کے اعتقادات کو غیر
منطقی اور غیر موزوں قرار دیا گیا ہے، جس سے تعصب کا احساس ابھرتا ہے، اور
طلبا اپنے مذہبی اعتقادات پر عمل درآمد کرتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں
۔اورکمال کی بات یہ ہے کہ یہ رپورٹس وہ افراد،ادارے اور این جی اوز تخلیق
کرتی ہیں،جنھوں نے ان کتابوں کو دیکھا تک نہیں ہوتا،کیوں کہ جس نصاب پر
تنقید کی جاتی ہے،ایلیٹ کلاس کے بچے اس نصاب سے ویسے ہی دور ہیں،اے اور او
لیول اور کیمبرج سسٹم میں اس نصاب کا گزر ہی نہیں ہے۔خد ا لگتی کہیے،تو ان
کو اس نصاب سے کوئی سروکار بھی نہیں ہوتا،ان کامقصد صرف نمبر اسکورنگ
ہوتاہے یامخصوص ومذموم مقاصد کا حصول،جس کے لیے اس طرح کے ایشوز تخلیق کیے
اور اچھالے جاتے ہیں۔
پنجاب میں نصاب کا معاملہ 2015سے وقتاًفوقتاًسامنے آتا رہاہے،اس حوالے سے
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور نجی پبلشرز کے تنازعات ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ
تک پہنچ چکے ہیں۔حال ہی میں پنجاب میں پرائمری کے نصاب سے سیرت النبی
ﷺ،جنگی ہیرومیجر عبدالعزیز بھٹی شہید،بابائے قوم قائداعظم سمیت ملکی راہ
نماؤں کے مضامین اوردینی مقدسات کی تصاویرہٹائے جانے اور اس کی جگہ امریکی
ہیرو،آریا،بدھ مت ،موئن جودڑو اور ہڑپہ جیسی مردہ تہذیبوں کی
تصاویروکارٹونزشامل کرنے کا انکشاف ہوا ہے،جس کے خلاف اپوزیشن نے اسمبلی کے
فلور پر قرارداد پیش کی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے نوٹس
لینے کے بعد محکمہ ٔ تعلیم کی دوڑیں لگ گئی ہیں،اس سلسلے میں برٹش کونسل کے
نکولس شااور ایک برطانوی این جی او(DFID)کے عہدے دار مائیکل باربر کا نام
لیا جارہا ہے،یہ دونوں شخصیات نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب کی مقرب ہیں ،بلکہ
آخرالذکر پالیسی میٹنگز میں شریک ہوتے اورباقاعدہ کنسلٹنٹ کی حیثیت سے
وزیراعلیٰ ہاؤس سے تنخواہ بھی وصول کرتے رہے ہیں،کہا جارہا ہے کہ ان دونوں
افراد نے بنگلا دیشی ،ماہرینِ تعلیم کی بھی خدمات حاصل کی ہیں،تاکہ جس طرح
بنگلادیش میں تاریخ کا حلیہ مسخ کرکے مجرموں کو ہیروبناکر پیش کیا گیا
ہے،انہی خطوط پر پاکستان کا نصاب تعلیم بھی مرتب کیا جائے۔
محکمہ تعلیم اور ٹیکسٹ بورڈ کے عہدے داران اس بھیانک اقدام کو تاویلات کے
پردوں میں سند جواز فراہم کرنے میں مصروف ہیں،لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ
ان اقدامات کا مقصدمستقبل کے معماروں کے معصوم اذہان کو سیکولر ایجنڈے کے
مطابق بنانا ہے،تاکہ خاکم بہ دہن آگے چل کر ملک کو سیکولر ریاست بنانے میں
کوئی رکاوٹ نہ رہے۔اپوزیشن لیڈرمحمودالرشید کی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ
حکومت کا اصل مقصد قانون توہین رسالت کا خاتمہ ہے،اور یہ سب اقدامات اسی کا
حصہ ہیں۔
آٹھویں آئینی ترمیم کے بعد نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2009اور نیشنل کریکولم
2006 پر عمل کیا جارہا ہے اورشعبۂ تعلیم ،صوبائی معاملہ قرار پاچکا ہے،تاہم
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صوبے اپنی من مانی میں آزاد ہیں، بایں ہمہ
ٹیکسٹ بک بورڈ ایکٹ 2015 کے مطابق نصاب میں تبدیلی کی منظوری کے بغیر مواد
کو نکالا نہیں جا سکتااور آئین کے آرٹیکل 22اور نیشنل ایکشن پلان 2015کے
مطابق نصاب پر نظرثانی وتبدیلی کے لیے تمام مذاہب کے اسکالرز کو اعتماد میں
لیا جانا ضروری ہے،جبکہ حالیہ تبدیلیوں میں اس قانونی تقاضے کو یک سر
فراموش کیے جانے سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ صوبائی حکومت کس کے ایجنڈے پر
کام کررہی ہے۔
حکمران اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ تبدیلی ہمیشہ نچلے طبقے کے ذریعے آتی
ہے،اس لیے سرکاری تعلیمی نصاب سے ہر اس چیز کو نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے
،جو اس’’ فاقہ کش‘‘ کے اندر ’’روح محمدیﷺ‘‘ پیداکرتی ہے،تاکہ وہ دینی غیرت
وحمیت اور اپنے پرائے کی پہچان سے محروم ہوجائے اور پھر اس کا رخ جس طرف
موڑنا ہو،بآسانی موڑا جاسکے۔شاید یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی
نصاب کی اسلامائزیشن ہی کا کرشمہ ہے کہ اب بھی ملک کی 60فیصدآبادی اسلام کو
ضابطۂ حیات کے طور پر اختیار کرتی اور اس کے مقابل ہر ازم ونظریے کو باطل
قرار دیتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اور پوری کوشش کے باوجود اسلام کو دیس نکالا
دینے میں بری طرح ناکا م ہے اور ہمیشہ رہے گا،ان شاء اﷲ!
|