صحت اور تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلی کے دعوے تو ہر
کسی نے دیکھے اور سُنے کہ کس قدر کھوکھلے ثابت ہوئے۔دعوؤں کی بھر مار
ہے۔پولیس اصلاحات، ٹریفک وارڈن،انتخابی اصلاحات،بلدیاتی نظام اور خاص کر
صحت اور تعلیم میں یہ دعوے کہ گویا ہم اوج ثریا تک پہنچ گئے ہیں۔کرپشن فری
صوبے کانعرہ لگانے والوں پراپنے اتحادی بھی آوازیں کسنے لگے ہیں۔خیبر بینک
سکینڈل کا معمہ ابھی تک معمہ ہے،مشیراور وزیر سے لے کر چیف منسٹر تک سب کے
سب مبینہ سکینڈلز اور کرپشن ہی کرپشن ہے،خود تو ابھی تک دھاندلی کی آواز
لگاتے ہیں، مگر ان کو یہ نظر نہیں آرہا کہ تعلیمی میدان میں ہم کتنے پیچھے
ہیں،ہر طرف سے ہمارے تعلیمی نظام میں دراڑ پڑی ہے۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ اگست کے مہینے میں تمام تعلیمی بورڈز نے اپنے اپنے
نتائج کا اعلان کر دیا،ان تمام بورڈز میں سے ایک بورڈ ’’بورڈ آف انٹر میڈیٹ
اینڈسیکنڈری ایجوکیشن پشاور‘‘بھی ہے،اگست کے پہلے ہفتے میں’’تقسیم
انعامات‘‘پروگرام ہوگیا اوراس پروگرام میں آرٹس گروپ کی تیسری پوزیشن ’’
جناح کالج فار وومن یونیورسٹی‘‘ کے ایک طالبہ رول نمبر 118122حاصل کردہ
نمبرات 909 کو دی گئی، دوسرے دن صبح 9بجے نتائج کا باقاعدہ اعلان ہوگیا اور
نتائج ویب سائٹ پر آگئے تو’’ عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی پشاور‘‘ کے پرنسپل کے
ساتھ فون پررابطہ ہوگیا، مجھے علم ہواکہ ان کا نتیجہ ابھی تک نیٹ پراپ
لوڈہی نہیں ہوا۔
دل ہی دل میں پشاوربورڈ کے منتظمین کی ناقص کارکردگی پرغصہ آیا،لیکن یہ سوچ
کرٹال دیاکہ ہزاروں لاکھوں طلبہ کانتیجہ ہے،کہیں توکمی بیشی ہوسکتی ہے۔ کئی
دن بعد انکشاف ہوا کہ ’’عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی پشاور‘‘کے نتائج اپ لوڈکردیے
گئے،مگرعجیب بات یہ ہے کہ اس میں ایک طالب علم رفیع اﷲ ولد گل امین رول
نمبر124331نے آرٹس گروپ میں 914نمبرات لیے تھے، جبکہ اسی عثمانیہ چلڈرن
اکیڈمی کے ایک دسرے طالب علم انس زاہد ولد زاہد علی نے 912نمبرات حاصل کیے
ہیں،یادآیاکہ آرٹس گروپ میں تیسری پوزیشن ’’جناح کالج فار وومن یونیورسٹی‘‘
کے ایک طالبہ رول نمبر118122حاصل کردہ نمبرات 909 کودی گئی ہے ،اب تبدیلی
کا یہ نیا مظہر آپ بھی دیکھ لیں اور فیصلہ خود کر لیں کہ یہ جو طالبہ
پانچویں نمبر پر ہے، اس کو تیسری پوزیشن سے نوازا گیاہے اور جو حقدار ہے اس
کا سرے سے کوئی پوزیشن ہے ہی نہیں۔اگر یہ تبدیلی ہے؟تو ایسی تبدیلی ہمیں
نہیں چاہیے۔یہ سب کچھ جو ہوا ہے، ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہوا ہے۔ان
لوگوں کے اِس رویئے کامجھے پہلے سے علم تھااوریہ بات ممکنہ طورپرمیرے ذہن
میں موجودتھی کہ یہ لوگ ایسے اداروں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ 2 سال قبل اسی ’’عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی‘‘کے ایک قابل
طالب علم عبدالباسط جو کہ اس وقت بھی پشاوربورڈ کے پوزیشن ہولڈر تھے،مگر
انہیں پوزیشن نہیں دی گئی تھی،بعد میں جب پرنسپل عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی نے
بورڈ آف پشاور عملہ کے ساتھ رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف
کرتے ہوئے انہیں پوزیشن دے دی اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اب ان پوزیشنوں
کی چکینکگ کے لیے ہم ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائیں گے،مگر اب ہمیں علم نہیں کہ
وہ کمیٹی بنا دی گئی ہے یا نہیں۔اب چونکہ ہمارے ساتھ یہ معاملہ دوسری دفعہ
ہوا۔
جب اس پوزیشن ہولڈر طالب علم عبدالباسط نے پشاوربورڈ کے ایک ذمہ دارآفیسر
سے وقت لے لی اور ان سے کہا کہ میرے ساتھ نمبرات میں نا انصافی ہوئی ہے،میں
درخواست دائر کرتا ہوں کہ میرے پرچہ جات دوبارہ چیک کیے جائیں،اب ایک طرف
ایک طالب علم سفید لباس میں ملبوس اتنے عظیم ادارے کے ذمہ دار شخص کے سامنے
اپنی ناانصافی کا واویلا کرتا ہے،تو دوسری طرف اس ذمہ دار کے عجیب جوابات
سُننے کو ملے کہ آپ بھی کانوں کوہاتھ لگائیں گے،چاہئے تو یہ تھا کہ وہ ذمہ
دار اس طالب کی حوصلہ افزائی کرتے ،لیکن بجائے اس کے اُس آفیسر نے اُس طالب
علم کو نازیبا،ناشائستا،بے تہذیب اور بے مروت الفاظ میں رخصت کیا۔
اب ’’عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی ‘‘کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ یا تو ذمہ دارافراد
اپنی غلطی تسلیم کر کے اس بات کا اعتراف کر لیں کہ ہم سے پوزیشن ہولڈرز کی
تعیین میں سنگین غلطی ہوئی ہے،اوروہ ’’عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی‘‘کے اس طالب
علم رفیع اﷲ ولد گل امین کو بھی اُسی طرح شاندار تقریب( جس میں تمام پوزیشن
ہولڈرز ،اُن کے والدین اورمیڈیاوالے موجود ہوں ) میں انعام سے نوازا جائے
،اگر ایسا ممکن نہ ہوااورہماری بات تسلیم نہیں کی گئی اورہمیں انصاف نہیں
ملا تو پھر ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے،شاید کہ وہی سے ہمیں انصاف
مل جائے اور ہمیں عدالت سے انصاف ملنے کی توقع بھی ہے،کیونکہ یہ تیسری
پوزیشن ہمارا حق ہے۔
مولانا حسین احمدپر نسپل عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارا
یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ ان ذمہ داران کوواقعی سزا نہ
ملے۔یہ تو ایک تعلیمی ادارے کا سکینڈل ہے، پتہ نہیں کہ اب تک انہوں نے کتنے
گمنام طلبہ کی پوزیشنوں پر ڈھاکہ ڈالا ہوگا؟
میں ’’صوبہ خیبر پختونخوا‘‘کے حکمرانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے تو
تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں۔ کیا تبدیلی یہی ہے کہ ایک طالب علم کو
اپنے حق سے محروم کردیا جائے،اور محروم کرنا بھی صرف اس لیے کہ وہ ایک دینی
مدرسے کا طالب علم ہے اور آرٹس گروپ میں پڑھتا ہے،جوجناح کالج فاروومن جیسے
ہائی فائی لوگوں کے ادارے میں نہیں پڑھتا۔اگر تبدیلی یہ ہے تو خدارا ان
معصوموں کی بددعا ؤں سے اپنے آپ کو بچالواور بے جا اس ظلم وجبر کو روک
لو۔اگرحق تلفیوں کایہ سلسلہ جاری رہاتوگمنام اورغریب بچے تعلیم حاصل کرناہی
چھوڑدیں گے۔ انہی مگرمچھوں کے بارے میں اقبال مرحوم نے کیا خوب کہاہے:
گلہ توگھونٹ دیااہل ِمدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا إلہ إلا اﷲ!
|