جب قوم سالانہ میلہ میں چلی گئی توحضرت ابراہیم علیہ
السلام نے بت خانے میں جاکرتیزکلہاڑے سے تمام بتوں کے ہاتھ پاؤں توڑکرٹکڑے
ٹکڑے کرکے سب سے بڑے بت کے کاندھے پرکلہاڑارکھ کربت خانے سے نکل آئے۔شیطان
لعین نے میلہ میں جاکربت پرستوں کوبتایا کہ تمہارے خداؤں کو توڑ کرانہیں
زیروزبرکردیاگیاہے، یہ سن کروہ اپنی سواریوں کی طرف بھاگے لیکن ان کی
سواریوں کے جانوربھاگ گئے پھروہ بت پرست پیدل ہی چل پڑے۔سب سے پہلے بت خانے
میں آئے وہاں اپنے خداؤں کایہ حال دیکھاتوبہت زیادہ افسوس اورفکرمیں
مبتلاہوکرکہنے لگے ۔وہ ان بتوں کایہ حال کرنے والے سے بدلہ لینے اورحضرت
ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے اورآپ علیہ السلام
کوطلب کرنے کے مشورے کرنے لگے۔نمرودیہ خبرسن کرحیران و پریشان ہوگیااس نے
ایک اے پی سی بلائی اس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ ایک اجلاس عام بلایاجائے جب
تمام لوگ آجائیں تواس نوجوان کوبھی طلب کیاجائے۔اس سے باقاعدہ مکالمہ
کیاجائے تاکہ وہ لاجواب ہوکرہمارے معبودوں کے ساتھ اچھاسلوک کرے۔اجلاس عام
کی تاریخ مقررکرکے اعلان کرادیاگیا۔اجلاس عام میں حضرات ابراہیم علیہ
السلام کوڈرادھمکاکرکہنے لگے یہ کام ہمارے بتوں کے ساتھ تم نے ہی کیاہے۔اے
ابراہیم افسوس تم نے سب کوہی توڑدیاکسی کوبھی ثابت نہیں رکھا۔آخریہ کیابات
تھی۔شرکاء اجلاس کی یہ باتیں سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایامیں
نے توان کونہیں توڑا۔قریب سے آوازآئی میں گواہی دیتا ہوں اے ابراہیم (علیہ
السلام) ایک دن تم نے کہاتھا کہ تمہارے بتوں کی فکرکروں گا۔شایدتم نے ہی
ہمارے معبودوں کوتوڑاہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام پر برابریہ لوگ الزام دے
رہے تھے اورچاہتے تھے وہ خوداپنی زبان سے اپنے جرم کااقرارکرلیں۔اللہ تعالیٰ
کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایایہ چیزمجھ سے کیوں دریافت
کرتے ہوتم اپنے سب سے بڑے معبودسے کیوں نہیں دریافت کرتے اگروہ بول سکتاہے
توتمام ماجراآپ لوگوں کوبتائے گاتاکہ آپ سب اس واقعہ سے مطمئن
ہوجائیں۔شرکاء اجلاس نے شرمندہ ہوکرجواب دیااے ابراہیم (علیہ السلام) بت
بھی کہیں بولتے ہیں؟وہ نہ سنتے ہیں نہ حرکت کرتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔یہ
مایوسی کاجواب سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم سے کہا اے میری قوم
جومعبودبات نہیں کرتے ،نہ دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں پھران کو خدا کیوں کہتے
ہو،ان کی عبادت کیوں کرتے ہو،یہ بات کیسی عقلمندی کے خلاف
ہے،ذراتوغورکرو۔علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی کی لکھی ہوئی کتاب سیرت مصطفی کے
صفحہ تیس پر ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب کی اخلاقی
حالت کچھ یوں لکھی ہوئی ہے کہ عرب کی اخلاقی حالت نہایت ہی ابتربلکہ بدسے
بدترتھی۔جہالت نے ان میں بت پرستی کوجنم دیااوربت پرستی کی لعنت نے ان کے
انسانی دل ودماغ پرقابض ہوکران کوتوہم پرست بنادیاتھا۔ وہ مظاہرفطرت کی ہر
چیز پتھر ، درخت ، چاند،سورج، پہاڑ، دریاوغیرہ کواپنامعبودسمجھنے لگ گئے
تھے۔خودساختہ مٹی اورپتھرکی مورتوں کی عبادت کرتے تھے۔اسی کتاب کے صفحہ ۹۷۲پرلکھا
ہے کہ ( فتح مکہ کے موقع پر)رحمت عالم نورمجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
مسجدحرام میں اپنی اونٹنی کوبٹھایاکعبہ کاطواف کیااورحجراسودکوبوسہ دیا۔اس
سے آگے لکھا ہے کہ یہ انقلاب زمانہ کی حیرت انگیزمثال ہے کہ حضرت ابراہیم
خلیل اللہ علیہ السلام جن کالقب بت شکن ہے،ان کی یادگاہ خانہ کعبہ کے
اندرون حصارتین سوساٹھ بتوں کی قطار تھی۔ فاتح مکہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کاحضرت خلیل علیہ السلام کاجانشین جلیل ہونے کی حیثیت سے فرض اولین تھاکہ
یادگارخلیل کوبتوں کی نجس اورگندی آلائشوں سے پاک کریں۔چنانچہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم خودبنفس نفیس چھڑی لے کرکھڑے ہوئے اوران بتوں کوچھڑی کی نوک
سے ٹھونکے مارمارکرگراتے جاتے تھے اورفرماتے جاتے تھے ترجمعہ ’’ حق
آگیاباطل مٹ گیااورباطل مٹنے ہی کی چیزتھی‘‘پھران بتوں کوجوعین کعبہ کے
اندرتھے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیاکہ وہ سب نکالے جائیں
،چنانچہ وہ سب بت نکال باہرکئے گئے۔انہی بتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام
وحضرت اسماعیل علیہ السلام کے مجسمے بھی تھے ۔ جن کے ہاتھوں میں فل کھولنے
کے تیرتھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کودیکھ کرفرمایاکہ اللہ تعالیٰ
ان کافروں کومارڈالے ۔ان کوخوب معلوم ہے کہ ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی
فال نہیں کھولا۔جب تک ایک ایک بت کعبہ سے نہ نکل گیاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے کعبہ کے اندرقدم مبارک نہیں رکھا۔جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہوگیا
توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اسامہ بن زید، حضرت بلال اورحضرت عثمان
بن طلحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کوساتھ لے کرخانہ کعبہ کے اندرتشریف لے
گئے۔اسی کتاب کے صفحہ ۷۸۲ پرلکھا ہے کہ مکہ کے اطراف میں بھی بت پرستی کے
چندمراکزتھے۔چندبڑے بڑے بت مختلف قبائل کے معبودتھے۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لشکروں کوبھیج کران سب
بتوں کوتوڑ پھوڑ کربت پرستی کے سارے طلسم کوتہس نہس کردیا۔اورمکہ اوراس کے
اطراف وجوانب کے تمام بتوں کونیست ونابودکردیا۔اس طرح حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے مشن کورحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکمل
فرمادیااوردرحقیقت فتح مکہ کاسب سے بڑایہی مقصدتھاکہ شرک وبت پرستی کاخاتمہ
اورتوحیدخداوندی کابول بالاہوجائے۔
اس سے بڑی جہالت اورکیاہوسکتی ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں سے بت بنائے
اورپھراس کی پوجاشروع کردے۔جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم یہ
اقرارکرنے پرمجبورہوگئی کہ یہ بت نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں نہ چل
سکتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں سمجھایاکہ جواتنے مجبورہیں وہ
تمہارے معبودکیسے ہوسکتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کواحساس
دلایا کہ یہ بت معبودنہیں ہوسکتے۔ان بتوں کی پوجاچھوڑکرایک اللہ کی عبادت
کرو۔ بت پرستی چھوڑکرایک اللہ پرایمان لے آؤ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
اللہ تعالیٰ کے حکم سے حکمت عملی کے ذریعے اپنی قوم کوبت پرستی سے دوررہنے
کی تعلیم دی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس مشن کوہمارے پیارے نبی رحمت
دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکمل کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام سے
رسول دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تک انبیاء علیہم السلام کابت پرستی کے خلاف جہادکرنااس بات کاثبوت ہے کہ
اسلام میں بت پرستی بھی ناپسندیدہ ہے اوربت سازی بھی۔اللہ تعالیٰ کے تمام
انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کوبت پرستی چھوڑ کرایک اللہ
پرایمان لانے کی دعوت دی، بتوں، درختوں، ستاروں، چاند، سورج، آگ کی
پوجاچھوڑکرایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔
اس وقت انتہائی افسوس ہوتاہے جس بت پرستی اوربت سازی کے خلاف اللہ تعالیٰ
کے پیغمبروں نے جہادکیا۔جس بت پرستی اوربت سازی سے اللہ کے انبیاء کرام
علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کودوررہنے کی تعلیم دی۔ اسلام کے نام
پراوردوقومی نظریہ کی بنیادپرحاصل کیے گئے ملک پاکستان میں بازاروں، دکانوں
، چوراہوں اورسڑکوں کے کنارے وہی بت (مجسمے ) رنگ برنگے کپڑے پہن کرکھڑے
ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتوں
کوکعبہ سے اوردوسرے بت خانوں سے نکالا۔رسول دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کاکلمہ پڑھنے والے، رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی، رسول
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق ومحبت کادم بھرنے والے جب دکانوں
پربتوں کوکپڑے پہناکرکھڑاکردیتے ہیں توکیاایسے مسلمانوں کویہ احساس بھی
نہیں ہوتاکہ وہ کیاکررہے ہیں۔پہلے بت مٹی اورپتھروں سے بنائے جاتے تھے اب
پلاسٹک کے بنائے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم مسلمان ہیں ۔
ہماراایمان ہے کہ رزق اللہ دیتاہے۔ہماراکام رزق تلاش کرناہے، رزق عطاء
کرنااللہ تعالیٰ کاکام ہے۔جودکانداربتوں کوکپڑے پہناکردکانوں پرکھڑاکردیتے
ہیں ایساوہ اس لیے نہیں کرتے کہ لوگ ان بتوں کودیکھ کران کی پوجاکریں بلکہ
اس لیے ایساکرتے ہیں کہ لوگ ان بتوں کودیکھ کران کی دکانوں میں آئیں۔یہ بات
ان دکانداروں کے گمان میں بھی نہ ہوگی کہ وہ رزق اللہ سے نہیں بتوں کی
نمائش کرکے ان بتوں سے مانگتے ہیں۔اب توبتوں(مجسموں) کی سپیشل نمائشیں بھی
ہونے لگی ہیں۔امسال کراچی میں یوم آزادی کے سلسلہ میں تحریک پاکستان کی
تاریخی شخصیات کے مجسموں(بتوں) کی نمائش کی گئی۔تاریخی شخصیات کے مجسمے(بت)
راقم الحروف نے لیہ میں بھی دیکھے۔لیہ کے ایک معروف چوک پربھی ایک
جانورکامجسمہ (بت )نصب ہے جودوڑنے کی پوزیشن میں ہے۔ان مجسموں(بتوں) کی
نمائش چاہے کاروباری مقاصدکے لیے ہویاتاریخی شخصیات کاتعارف کرانے کے لیے
ہویہ دوقومی نظریہ سے بھی متصادم ہے۔امسال جشن آزادی کے موقع پرجن تاریخی
شخصیات کے مجسموں(بتوں) کی نمائش کی گئی ان شخصیات نے کبھی نہیں کہا کہ ان
کے مجسمے بنائے جائیں۔انہوں نے تواس بت سازی اوربت پرستی کے خلاف
جہادکیا۔سومنات کے مندرپرسترہ حملے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ بت پرستی
جس طرح دورنبوت میں ناپسندیدہ آج بھی بت پرستی وبت سازی اسی طرح اسلام میں
ناپسندیدہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں مجسموں(بتوں)کی نمائش کی جاتی ہے ان
کی عبادت نہیں کی جاتی۔اس لیے پاکستانیوں پرشرک کافتویٰ نہیں
لگایاجاسکتا۔راقم الحروف نے لیہ کے علماء کرام سے رابطہ کرکے اسلامی
تعلیمات کے مطابق ان مجسموں بارے پوچھاتوتمام علماء کرام نے یہی جواب دیا
کہ بت سازی اوربتوں کی نمائش اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ہم اس
تحریرمیں حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانوں اورجانوروں کے
مجسموں کی تیاری اورنمائش پرفوری پابندی لگائی جائے۔اسلام اوردوقومی نظریہ
کے نام پرحاصل کیے گئے ملک میں مجسموں کی تیاری اورنمائش غیراسلامی
اورغیراخلاقی کام ہے۔اس کام کی ہمارے مذہب اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسلام میں توتصویربنانابھی حرام ہے۔ علماء کرام نے انتہائی مجبوری کے وقت
تصویریں بنوانے کی اجازت دے رکھی ہے۔کاروباری حضرات ازخودہی ان بتوں
کاکاروباری استعمال بندکردیں۔
ایک بت وہ ہوتے ہیں جوبے جان ہوتے ہیں ایک بت وہ ہوتے ہیں جوجاندارہوتے
ہیں۔ایک بت وہ ہوتے ہیں جونہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں
ایک بت وہ ہوتے ہیں جوسن بھی سکتے ہیں بول بھی سکتے ہیں اورچل پھربھی سکتے
ہیں۔یہ بت قارئین کواپنے اردگردضروردکھائی دیتے ہوں گے۔ان کی دکانوں،
مارکیٹوں، دفتروں ، گھروں ،اداروں اورمحکموں میں ایسے بت ضرورہوں گے۔قارئین
ہماری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ ایسے جانداراورسننے، بولنے اورچلنے پھرنے
کی صلاحیتوں سے بھرپوربت ہماری پارلیمنٹ میں بھی موجودہیں۔سننے، بولنے
اورچلنے پھرنے کی طاقت رکھنے والے جانداربت رسوک اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
سلم کی ظاہری حیات مبارکہ کے دورمیں بھی موجودتھے۔ان پرکوئی نصیحت، کوئی
تعلیم، کوئی تبلیغ اثرنہیں کرتی تھی۔ ایسے جانداربت آج بھی موجودہیں کہ ان
پربھی کوئی نصیحت کوئی بات اثرنہیں کرتی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے کہ
’’ہم نے ان کے دلوں پر، ان کے کانوں پراوران کی آنکھوں پرمہرلگادی ہے‘‘
اس لیے یہ حق بات نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اورنہ دل سے تسلیم
کرسکتے ہیں۔اس لیے ٹرمپ کودکھائی نہیں دے رہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں کیاکرداراداکیاہے۔ اس نے کتنی جانوں کی قربانی دی ہے ، اس
کاکتنامعاشی نقصان ہواہے،اس نے اس جنگ کی کتنی بڑی قیمت اداکی ہے،ٹرمپ کواس
لیے دکھائی نہیں دے رہا کہ پاکستان افغانستان بارڈرمنیجمنٹ سے دہشت گردوں
کی آمدورفت رک جانے سے دہشت گردی میں نمایاں کمی آجائے گی۔پاکستان نے
ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی اورپاکستان میں مداخلت کے کتنے ثبوت امریکہ
اوراقوام متحدہ کوپیش کیے ،اس لیے امریکہ کویہ سب کچھ دکھائی نہیں دے
رہا۔اس لیے پاکستان پردہشت گردوں کوپناہ دینے کاالزام دہرایاہے۔اس لیے
امریکہ کواسرآئیل کی فلسطین میں اوربھارت کی کشمیرمیں دہشت گردی دکھائی
نہیں دے رہی ہے۔ اس لیے اس کوبرماکے مسلمانوں پرمظالم نظرنہیں آتے۔ اس لیے
اس پرہماری قراردادوں اوراحتجاج کاکوئی اثرنہیں ہوتا۔ |