بڑی عید ہو اور بڑی خوشی نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ عید کے
قریب آتے ہی کئی دن پہلے سے مویشی منڈیوں میں بیوپاریوں سمیت خریداروں کا
بھی بھر پور رش دیکھنے کو ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کا جوش بھی عروج پر
ہوتا ہے۔ عید چھوٹٰی ہو یا بڑی عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے ۔ ان سب میں
قربانی کے جانوروں کا منڈی سے لے کر عید تک کا سفر ایک انتہاہی دلچسپ اور
منفرد ہوتا ہے۔ اس میدان میں بچے تو بچے بڑے بھی پیچے نہیں رہتے۔
اگر پڑوسی کا بکرا آجائے اور اپنا بکرا گھر نا پہنچا ہو تو گھر والوں کی
خیر نہیں ہوتی
خوبصورت ترین جانور خریدنا اور پھر اسکی دیکھ بھال نہایت ہی جوش و جزبے سے
کی جاتی ہے۔ مگر یہاں کچھ باتیں زیرِ غور ہیں۔
قربانی کیونکہ کے ایک اہم فریضہ ہے جوکہ ہمیں سنتِ ابراہیمی کی یاد دلاتا
ہے جس کی وجہ سے ہم اسی سنت پر عمل پیرا ہو کرتاقیامت اس عظیم فریضےکو
سرانجام دیتے رہیں گئے۔ مگر ہم اسی سنت پرعمل کرتے وقت ہم حقوق اللہ اور
حقوق العباد سے بھی اکثر غافل ہی نظرآتے ہیں ۔ قربانی کے جانوروں کی آمد
کے ساتھ ہی گلی محلوں میں اکثرٹینٹ لگا دیے جاتے ہیں تاکہ چند دن کا مہمان
ہماری نظروں کےسامنے ہی رہے اور اس کے ساتھ خوب وقت بھی گزارہ جاسکے۔ ان
ٹینٹس کو مقامی جگہ پر لگانے سے نا صرف راستہ بند اور راہ گیر پریشان ہوتے
ہیں بلکہ اکثر مریضوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑہتا ہے۔ یہاں یہ بات
زرِغور رہئے کے کسی کو تکلیف پہنچانا گناہ بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔ کئی بار تو
گھروالے بھی تکتے رہ جاتے ہیں کے جناب جانور کی خدمت سے فارغ ہو کر گھر
والوں کی بھی خدمت کرلیں۔ بات یہئیں ختم نہیں ہوتی مسجد میں معوذن کی آذان
کی آواز سن کر بھر ہم ٹس سے مس نہیں ہیں ہوتے اور سنت کی خاطر فرض سے
آنکھیں بند کر بیٹھتے ہیں۔ ہماری اس قربانی کا نہ تو خون اللہ کو پہنچتا
ہے نہ گوشت ہی۔ خون مٹی کی نظر جبکہ گوشت ہمارے گھروں کی۔ ہمارا سارا ثواب
کب ضائع ہوا ہمیں معلوم نہیں۔ قربانی کیونکہ ایک اہم فریضہ ہے جس کا مقصد
صرف جانور کا خون بہانا نہیں بلکہ اصل میں اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ کی
خاطرچھوڑنا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کے ہم قربانی کے جانوروں کو کسی خالی میدان
میں باندہیں جہاں وہ کسی راہ گیر، مریض اور اہلِ محلہ کی تکلیف کا باعث ناں
بنے اور حقوق العباد کے ساتھ حقوق اللہ بھی ادا ہوتے رہیں۔۔ تاکہ اللہ اپنی
بارگاہ میں ہماری طرف سے قربانی کو قبول و منظور فرمائے آمین۔ |