وائس چانسلر کی تقرری اور پراپیگنڈہ مہم

سندھ کے باقی شہروں کی طرح جامشورو ضلع اپنی وسعت اور تاریخ کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس ضلع کی خاص بات یہ ہے کہ اسے یونیورسٹیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گو کہ اس کی شہری آبادی بہت زیادہ نہیں البتہ بہت سے دیہی علاقوں پرمشتمل ایک وسیع و عریض رقبہ پر محیط ضلع ہے۔اس میں بیک وقت تین جامعات ہیں جن میں سندھ یونیورسٹی سب سے قدیم ادارہ ہے ۔ اس جامعہ کے ساتھ دو جامعات اور بھی ہیں جن میں ایک مہران انجنئیرنگ یونیورسٹی جبکہ دوسری لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہے۔ اس طرح بیک وقت ایک ضلع میں باقی شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ انجینئر اور ڈاکٹر بننے کا اہتمام بھی موجود ہے۔ ان اداروں میں ملک کے طول وعرض سے طلباء و طالبات پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور نا صرف ملکی بلکہ غیر ملکی طلباء بھی ان جامعات میں تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کا قیام 2001؁ء میں ہوا۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ میڈیکل کالج تھا۔بعد ازاں لیاقت میڈیکل کالج کو 2001؁ء میں یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ۔ جس کے بعد پرنسپل کی جگہ وائس چانسلر نے لے لی۔ اس طرح یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کے طور پر ڈاکٹر جان محمد میمن نے عہدہ سنبھال لیا۔ اور خدمت کا یہ سفر تقریباً سات سال تک جاری رہا ۔ جس کے بعد ڈاکٹر مشہود عالم اس نشست پر صرف ایک ہی سال اپنے فرائض منصبی سرانجام دے سکے ۔ تاہم اس کے بعد ڈاکٹر نوشاد احمد شیخ نے ایک لمبی اننگ کھیلی جو کہ پچھلے نو سال سے اس ادارے کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اب چونکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پر امن اقتدار کی منتقلی کا عمل ہونا تھا ۔ جس کے لیے سرچ کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ سرچ کمیٹی کو اکیس امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں جن کی مزید سکروٹنی کرنے کے بعد کمیٹی نے آٹھ ناموں کی ایک فہرست مرتب کی۔یہاں پر ایک بات واضح کرتا چلوں ان اکیس امیدواروں میں تین معتبر نام اسی یونیورسٹی میں سے تھے ۔ جن میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر انیلہ عطاؤالرحمٰن میمن ، پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن میمن اورپروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد عالمانی شامل تھے۔امید واثق تھی کہ حسب روائیت اس دفعہ بھی اقتدار کا انتقال پرامن طریقے سے ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا ۔کیونکہ اسکروٹنی کے عمل سے گزرنے کے بعد جن آٹھ امیدواروں کی فہرست مرتب کی گئی تھی اس فہرست میں ڈاکٹر انیلہ عطاؤالرحمٰن کا نام تو موجود تھا ۔مگردو ساتھی امیدواران ڈاکٹر شفیق الرحمٰن اور ڈاکٹر سہیل احمد عالمانی کا نام فہرست میں شامل نہیں تھا۔جس کے بعد ناکام امیدواروں کی طرف سے ایک نجی ہوٹل میں پریس کانفرنس کی گئی۔ جس میں انہوں نے میرٹ کے حوالے سے کچھ اہم سوالات اٹھائے جو کہ کافی غور طلب اور حل طلب بھی تھے۔اس پریس کانفرنس میں ساتھی پروفیسر ڈاکٹر انیلہ عطاؤ الرحمٰن کو خاص طور پر حدف تنقید بنایا گیا۔ان اساتذہ کی تنظیم کی طرف سے الزام یہ بھی تھا کہ یہ محترمہ تو پروفیسر کے لیے بھی موضوع نہیں ہیں تو ان کا نام وائس چانسلر کے لیے کیسے منتخب کیا جا سکتا ہے۔اور اس کے لیے وہ لوگ قانونی چارہ جوئی بھی کر رہے ہیں مگر ان کی وہاں بھی کوئی خاطر خواہ شنوائی نہیں ہو رہی۔ اسی طرح انہوں نے HECاورPMDCکو بھی لکھا ہے مگر وہاں سے بھی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔اس لئے وہ اب اس معاملے کو میڈیا کے ذرئعیے حل کرنا چاہتے ہیں۔ہم نے جب اپنے ذرائع سے معاملے کی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ اسی PMDC کے وضح کیے گئے اصولوں پر محترمہ پہلے سے ہی نوکری کر رہی ہیں ۔جب ہم نے معلوم کیا تو پتا چلا کہ پروفیسر ڈاکٹر انیلہ عطاؤ الرحمٰن پچھلے تئیس سال سے شعبہ تدریس سے منسلک ہیں اور اس کے علاوہ ڈائیریکٹر،ڈین،پرو وائس چانسلر اور کم و بیش پانچ مرتبہ قائم مقام وائس چانسلر بھی رہ چکی ہیں۔جب یہ سب معاملات سامنے آئے تو سوچا کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ سراپا احتجاج ہیں اور کھل کر اپنی ہی ساتھی کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی سات امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔اس کے لئے جب ہم نے لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی ٹیچرز ایسوسی ایشن سے معلومات لینا چاہیں جو کہ تئیس اگست کو پریس کانفرنس کر رہی تھی تو پتا چلا کہ اس یونیورسٹی میں ایسی کسی یونین یا ایسوسی ایشن کا وجود ہی نہیں ہے۔اور یہ میرے لیے حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ کن بھی تھی۔کہ ایک ایسی یونین جس کا کوئی وجود ہی نہیں وہ اس عمل کو رکوانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان تمام افراد کو سرچ کمیٹی پر کوئی اعتراض نہیں جنہوں نے فہرست مرتب کی ۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ ا بھی ان آٹھ امیدواروں کے اٹھائیس اگست کو انٹرویو ہونا باقی ہیں۔ جس کے بعد وہ کمیٹی کوئی سے بھی تین نام جو معیار پر پورا اترتے ہونگے ان کی سفارشات مرتب کرے گی۔ اور ان مجوزہ تین ناموں میں سے وزیر اعلیٰ سندھ کسی ایک کا بطور وائس چانسلر تقرر کریں گے۔

جہاں تک میں اس سارے معاملے کو سمجھا ہوں اس میں دو تین چیزیں بہت اہم ہیں۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم محنت نہیں کرتے مگر حسد ضرور کرتے ہیں۔ اور یہی سب کچھ یہاں بھی دکھائی دے رہا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر وہ میرٹ پر پورا نہیں اتریں گی تو کمیٹی انہیں فارغ کر دے گی۔ مگر شائد ان دوستوں کو اپنی دوست کی قابلیت پر پورا یقین ہے کہ وہ منتخب ہو جائیں گی اس لئے انہوں نے قبل از وقت ہی شور مچانا شروع کر دیا ہے۔اس سارے معاملے پر اس پروپیگنڈہ مہم کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی ہے۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ چند مفاد پرست عناصر یونیورسٹی کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس پر یونیورسٹی کے اساتذہ کی کثیر تعداد نے وائس چانسلر نوشاد شیخ صاحب سے ملاقات بھی کی ہے جس میں انہوں نے ایسے عناصر کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

میرا یہ ماننا ہے کہ اقتدار کی اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان یونیورسٹی کی ساکھ کو ہو گا ۔کیونکہ پاکستان تعلیم کے میدان میں پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار ہے اس لیے اس طرح کی مہم جوئی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کر سکتا۔اور ان حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذات سے بڑھ کر ملک و قوم کے بارے میں سوچیں۔اور جو بھی نیا وائس چانسلر بنے اس کو کھلے دل سے تسلیم کریں اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اس کے ہاتھ مضبوط کریں۔ اور اگر ان کی ساتھی پروفیسر صاحبہ منتخب ہو جائیں تو ان کو بھی چاہیے کہ اگر ان کے کچھ ذاتی معاملات ہیں بھی تو ان کو بالائے طاق رکھ کر یونیورسٹی کے وسیع تر مفاد میں تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں۔کیونکہ بطور ایک مہذب شہری ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اپنی ذات سے بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت کریں۔اور جب بات استاد کی آتی ہے تو روحانیت کا رشتہ پھر سے زندہ ہو جاتا ہے کیونکہ استاد معمار قوم ہوتا ہے ۔ اور اگر ہمارے اساتذہ یونہی دست و گریباں ہوتے رہے تو قوم کی تعمیر کیسے ممکن ہو سکے گی۔اﷲ تعالیٰ ملک و قوم کا حامی و نا صر ہو۔آمین

Muhammad Zulfiqar
About the Author: Muhammad Zulfiqar Read More Articles by Muhammad Zulfiqar: 20 Articles with 17211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.