ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کی فلاسفی پر قائم ہے.
جسکا مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے کلرکس اور غلام پیدا کرنا تھا۔یہ نظام
ایسے جامد اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری مشین کے پرزے تیار کرتا ہے
جو کہ سرمایہ داروں کے سرمایہ میں مسلسل بڑھوتری اور ریاستی مشینری چلانے
کے لئے ناگزیر ہیں۔
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کیوجہ سے پورا معاشرہ طبقات میں تقسیم ہے۔ اس لئے
تعلیمی نظام بھی طبقاتی ہے۔اور ایک حقیقی اور آزاد انسانی شعور پیدا کرنے
سے قاصر ہے۔ یہ نظام سوال اٹھانے والوں کو مجرم گردانتا ہے اور تنقیدی سوچ
کی نفی کرتا ہے۔کیونکہ اس نظام کے آقا ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے غلام
ان پر اور معاشرے میں موجود طبقات پر سوال اٹھاتے ہو ے اس نظام کو چیلنج
کریں اور تبدیلی کا سوچیں۔ اس تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو
حقیقت کو جامداور ناقابل تبدیلی سمجھتے ہوئے قبول کر لیں۔اسطرح وہ طبقات کی
موجودگی اور جبرواستبداد کی اس صورتحال کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول
کرلیں گے۔ تعلیم ہمارے سماج میں ایسی صنعت کے طور پر ابھری ہے جسکا مقصد
محض شرح منافع بڑھانا ہے۔انسانی ترقی اور آزادی اُن کے لیے کوئی معنی نہیں
رکھتی۔ سرمایہ داروں کے بچوں کے لیے عالیشان عمارتوں میں تعلیم کا انتظام
ہے تو دوسری طرف پسا ہوا اور بنیادی ضروریات سے محروم طبقہ غلاظت سے پرُ
اور بنیادی انفراسٹرکچر سے محروم سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم
دلانے پر مجبور ہے ۔ یہاں سرکاری ، نیم سرکاری اور شاندار نجی درسگاہوں سے
لیکرگلی محلوں میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے سکول سب موجود ہیں۔ اور اپنی
اپنی اوقات کے مطابق تاریکیاں اور جہالت بانٹ رہے ہیں۔ ان سب کے اپنے اپنے
نصاب اور پڑھانے کے مختلف طریقہ کار ہیں۔ امتحانی طریقہ کار غیر صحت مند
مقابلے کو فروغ دیتا ہے۔(نتائج کے خوف سے بعض نوجوان توخودکشی تک کر لیتے
ہیں) یہ غیر صحت مند مقابلہ ظلم پرکھڑے اس نظام میں جبر اور تسلط قائم
رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے.ہمارا تعلیمی نظام واضح طور پر طبقات پر
بٹا ہوا ہے اک طرف وہ تعلیمی ادارے ہیں سرمایادار اور جاگیردار کے بچے
پڑھتے ھیں اور ان اداروں میں عام بندہ اپنے بچوں کے داخلے کا سوچ بھی نہیں
سکتا اور یہ طبقہ key پوزیشن پر تعینات ھو جاتا ہے اوراس نظام کے وجود کو
برقرار رکھتا ہے اور سامراج کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے. دوسری طرف وہ
تعلیمی ادارے ھیں جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ھیں اگر کوئی آپنی محنت کے
بل بوتے پر تعلیم حاصل کر بھی لےتو روزگار ملنا مشکل ہے جس کے لیے رشوت اور
سفارش چاھیے جو عام آدمی کے پاس نہیں ہے. الغرض دو قسم کے لوگ تیار ہوتے
ھیں اک کا کام حکمرانی کرنا ہے اور دوسرے کا کام کلرکی کرنا ہے. دینی
تعلیمی اداروں کے پاس بھی دین اور دینا کی تفریق پیدا کی گئی ہے ان کا
زیادہ تر زور مسلکی اختلافات پر ہوتا ہے اس طریقہ سے ان کے اندر شدت پسندی
اور انتہا پسندی پیدا کی جاتی ہے جس کو نظام آسانی کے ساتھ اپنے مفادات کے
لیے استعمال کرتا ہے. جب مختلف اداروں سے مختلف قسم کے ذھن تیار کیے
جائیںگے تو وہاں پر اک قوم کا وجود میں انا ممکن نہیں ہوتا. یہ تعلیمی نظام
مذھبی ، لسانی، علاقائی، اختلافات پیدا کر کے لوگوں کو آپس میں لڑاتا ہے
اور سسٹم کے شعور کے حوالے عاری کر دیتا ہے اور اس طرح انگریز کی پالیسی
لڑاؤ اور حکومت کرو کی تکمیل ہوتی ہے.
لارڈ میکالے کے کچھ اقتبات:-
لارڈ میکالے لکھتا ہے کہ وہ ہندوستان کے ھر مکتبہ فکر سے ملا، مذھبی طبقات،
علما اور تاجر وغیرہ کوئی شخص جھوٹ نہیں بولتا تھا. کوئی مانگنے والا نہیں
تھا.کوئی بد اخلاق نہیں تھا.سارے آزادی کو ضروری سمجتھے تھے اور غلامی کو
لعنت سمجتھے تھے.اس نے رپورٹ میں لکھا اسی قوم کو زیادہ عرصے تک غلام نہیں
بنایا جا سکتا. اس سے کہا گیا کہ حل کیا ہے.اس نے کہا ایسا نظام تعلیم لایا
جاۓ جو اجتماعیت سے کاٹ کر انفرادیت پیدا کرے.بے حیائی کا تمدن فروغ پائے .
جب انگریز ہندوستان میں آیا تو یہاں پر ٩٥ فی صد تعلیم تھی باقی 5 فی صد
لوگ اعلی اخلاق کے مالک تھے. انگریز جب یہاں سے واپس گیا تو8 فی صد تعلیم
یافتہ طبقہ تھا. . انگریز نے ظالمانہ نظام قائم کیا. ظالمانہ نظام غربت اور
قحط پر مشتمل ہوتا ہے. انگریزوں نے مصنوعی غربت پیدا کی یہاں تک کہ
ہندوستانی 5 روپے ماہوار پرانگریز کے ملازم ہونے پر مجبور ھو گے.
اک اور جگہ لارڈ میکالے لکھتا ہے اپنے تعلیمی نظام کے زریعے اک اسی جماعت
بنانی چا ھیے جو ھم میں اور کروڑوں رعا یہ کے درمیاں مترجم ھو.جو خوں اور
رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ھو مگر مزاج، رائے، الفاظ اور سمھج کے
اعتبار سے انگریز ھو.
اک اور جگہ لارڈ میکالے لکھتا ہے زمانہ سابق میں جس طرح زوردار اور بااثر
لوگوں کو افیون پلا کر کاھل، پست ہمت اور بدعقل بنا دیا جاتا تھا ہمارا
نظام سلطنت بھی اسی طرح اھل ہند کو بیکار بنا دے گا.
(حکومت خوداختیاری ٨٨)
اک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 1000 ٹاپ یونیورسٹیز میں بھارت کی 16 ایران کی 8
یونیورسٹیاں، چین کی 90 اور پاکستان کی 6 یونیورسٹیز شامل ہیں ....پاکستان
میں کل 177 یونیورسٹیز ہیں جن سے سالانہ 450000 طلباء فارغ التحصیل ہوتے
ہیں
پاکستان دنیا کے مقابلے میں پرائمری تعلیم میں 50 برس اور سیکنڈری تعلیم
میں 60 برس پیھچے ہیں۔
نوجوان طبقے کو بے مقصد تعلیم میں الجھا کر اس کی قوت عمل مضمحل کر دی گئی
ہے. اسے فکری انتشار کا شکار کردیا گیا ہے. اس کی صلاحیتیں اجاگر ہونے کی
بجائے ختم ہوکر رہ گئی ہیں. عوام کو معاشی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے. اسے
کسب معاش سے ہی فرصت میسر نہیں آتی، جس کی بنا پر وہ قومی سطح پر کوئی
کردار ادا کرنے سے یکسر قاصر ہے.
|