قربانی کے گوشت اور معاشرتی بے حسی پر افسانوی قصے جذبات
کا درد جگا رہے ہیں اور ممکن ہے کہ اس طرح کی کوئی دردناک کہانی آپ کی نظر
سے بھی گذری ہو جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح قربانی کرنے والے کو گوشت
بچانے کی فکر ہے اور حاصل نہ کر سکنے والوں کے گھر میں سوگ کا سماں ہے! یہ
خود ساختہ یا حقیقی قصے کہ جن میں مرکز تحریر "قربانی کا گوشت" ہے دراصل
قربانی کی اصل روح سے توجہ ہٹاتے ہیں اور بجائے خود اس بابرکت عمل پر تنقید
کا باعث بنتے ہیں .
کوئی نہیں روتا گوشت نہ ملنے پر، اور نہ ہی اس کے ضائع ہوجانے پر کوئی خوش
ہوتا ہے.
ہوتا ہے افسوس اور غم یا خوشی اور مسرت تو اس گوشت کے لوتھڑے کی بے حسی یا
دردمندی پر جو سینوں میں دھڑکتا ہے.
نہیں ملتا گوشت قربانی پر تو افسوس کیسا؟
اور محض گوشت کے لیے کی تو قربانی کیسی؟
نہ ملنے پر افسوس زدہ ہو کر بددعا دینے کی بجائے دعا کریں کہ آپ بھی قربانی
بانٹنے اور کھانے کھلانے والے ہو جائیں.
شکر کریں وہ جو قربانی کی توفیق والے ہیں.
خوشدلی سے َاس کے حصہ میں شریک کریں سب اپنوں کو، ان کو جو منتظر ہیں آپ کی
توجہ کے، اور محروموں کو.
اور رشک کریں وہ جو قربانی نہیں کرسکتے کہ قربانی کرنے والے معاشرے کا حصہ
ہیں. خوشدلی سے قبول کریں اس میں سے کوئی جتنا بھی آپ کو شریک کر سکے کہ یہ
ایک متبرک نعمت ہے،رزق طیب ہے جو اگر نصیب میں ہوگا تو ہر صورت آپ تک پہنچے
گا. بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس مقدس عبادت کو بھی دنیاوی لبادہ اوڑھا
دیا جاتا ہے. کہیں کوئی قربانی کا حصّہ بانٹنے والا دنیا داری کرتا ہے تو
کہیں کوئی لینے والا بھی ایسا ہی کررہا ہوتا ہے.
اھل قربانی سے درخواست ہے خداپرستی کی اس عظیم سنت اور عمل کو خالص تر کرنے
کی کوشش کیجئے اور لین دین کے دنیاوی معاملات سے اس کو جدا رکھیں.
نمود و نمائش اور بخل و تنگدلی دونوں ہی اس عمل کی قبولیت کی راہ میں سخت
رکاؤٹ ہیں. خدارا اس میں سے دنیاداری کو نکال دیجئے! |