ناظم شہر وسیم اختر کا شہر قائد کی نظامت سنبھالنے کے
ساتھ ہی صفائی مہم کا آغاز ہوا جو کامیابی و ناکامی کی صورت میں بڑھتا رہا
اور طے شدہ وقت پر اس مہم کا اختتام ہوا۔ شہر کے کچھ حصے صاف اور کچھ بہت
زیادہ صاف نظر آنے لگے جبکہ کچھ گندے اور متعدد حصوںمیں اسی گند کی حکمرانی
رہی۔ نئی گاڑیان نظر آئیں اس کے ساتھ ہی نئے کوڑا کرکٹ کے ڈبے بھی مختلف
رہائشی علاقوں سمیت اپارٹمنٹس میں بھی نظر آئے جو اس وقت موجودہیں۔ نظامت
سنبھالنے کے بعد جو ناظم شہر کے جذبات تھے شہر قائد کی عوام کا یہ کہنا ہے
کہ ناظم شہر کے وہ جذبات اب نہیں رہے ہیں۔ گذرتا ہر پل وہ اپنی پوری ٹیم کے
ساتھ صوبائی حکومت سے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔صوبائی حکومت بھی ناظم شہر سے
زیادہ خوش نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ناظم شہر کی امداد کا حق ادا نہیں
کررہی ہے۔اس صورتحال میں مصائب و مشکلات میں اضافہ عوام کے لئے ہورہا ہے۔
عوام جو صوبائی حکومت کے روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعروں سے قریباَ تنگ آچکے
ہیں لیکن تین حکومتیں مرکزی سطح پر اور صوبائی سطح پر تو اس سے بھی زیادہ
حکومت کرنے کے باوجود آج تلک عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان فراہم کرنا تو
دور کی بات ہوگئی ہے جو بجلی ، پانی اور دیگر نہایت ضروری اشیاءہیں ان تک
پہنچ اور آسان استعمال مشکل ہوتا جارہاہے۔ عوام بے چین ہے پریشان حال ہے
اور اسی حالت کو سہتے ہوئے شہر قائد کی عوام نے عید قربان کی آمد سے پہلے
کی بارشیں دیکھیں اور اس کے بعد قربانیوں کی آلائشیں دیکھ رہے ہیں۔ شہر
قائد میں جابجا مقامات پر موجود آلائشیں اور ان سے اٹھنے والی بدبو سمیت
پھیلنے والی بیماریاں دیکھ رہے ہیں اور برداشت کر رہے ہیں ۔
عید الضحی کے ایام میں شہر قائد کے اندر ہونے والے بارشوں کے سلسلے کے بعد
پیدا ہونے والی صورتحال سے شہری بری طرح متاثر ہوئے۔ بارشوں کے باعث متعدد
شہری جاںبحق ہوئے اور اس کے ساتھ کے الیکٹرک نے بھی عوامی خدمت کی بھرپور
عکاسی ہے اور عوام کو یہ بھلا ہی دیا کہ بجلی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ سیورج
کے نظام کی تمام تر خراب حالت سے شہریوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
نہ شہری حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی صوبائی حکومت نے ۔ دونوں نے مل کر پاک
فوج کی خدمات حاصل کیں جنہوں اپنی بھرپور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ
کرتے ہوئے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی اور انہیں جمع شدہ پانی میں سے
نکال کر دیگر محفوظ مقامات پر پہنچایا اور اس کے ساتھ انہیں غذا بھی فراہم
کیا ۔ بارشوں کے بعد رونما ہونے والے حالات میں مرکزی حکومت کا کردار بیان
بازی کے سوا کچھ بھی نہیں رہا ۔ قائم مقام وزیر اعظم نے شہر قائد کے مکینوں
کیلئے وہ مثبت سرگرمیاں سرانجام نہیں دیں جو کہ انہیں انجام دینی چاہئے
تھیں۔
عید کے تینوں ایام میں سرکاری سطح پر چھٹیوں کے باعث کاموں کی رفتار کم رہی
۔ تاحال شہر قائد میں جابجا مقامات پر قربانی کے جانوروں کے آلائشیں موجود
ہیں جن سے ملیریا و دیگر بیمارویوں کے پھیلنے کے قوی امکانات ہیں ۔ سرکاری
رخصتیں ختم ہونے کے بعد فوری طور پر اگر ان آلائشوں کا اٹھاکر مقررہ مقامات
پر نہ پہنچایا گیا تو بعد ازاں رونما ہونے والی صورتحال کی ذمہ دار شہر اور
صوبائی حکومتیں دونوں ہی ہونگی۔
عوامی سروے میں عوامی خیالات ناقابل بیان ہیں عوام شہر حکومت سمیت صوبائی
حکومت سے سخت نالاں ہیں ۔ انہیں فوج کی خدمات پر فخر ہے اور وہ فوجیوں کو
سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہر محاظ پر عوامی فلاح و بہود کا کام کیا
ہے۔ عوام کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہر قائد کے ناظم نے گاڑیوں پر تو یہ لکھوا
دیا ہے کہ شہر قائد کو صاف رکھیں لیکن ان کا اپنا عمل اس کے منافی ہے۔ بعض
کا کہنا تھا کہ اگر حکومتیں ہم ہی سے ٹیکس لیتی ہیں اور ہمیں بنیادی
سہولتیں تک فراہم نہیں کرتیں جو کہ قابل مذمت ہے۔ دیگر ممالک میں ایسا نہیں
ہوتا وہاں اس عمل کے ردعمل ہوتا ہے وہاں پر حکومتیں عوام کی فلاح و بہود
کیلئے بڑھ بڑھ کر اقدامات کرتی ہیں لیکن وطن عزیز کی حکومتیں اور سیاسی
جماعتیں عوام مفاد میں عملی کام کرنے میں ناکام ہیں ۔ کچھ این جی اووز اپنی
سطح پر اٹھ کر آواز اٹھاتی ہیں لیکن انہیں بھی اک حد تک اس طرح کی آوازیں
اٹھانے اور کچھ عملی کام کرنے کے بعد آگے بڑھنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔
عوام کی فوری طور پر صوبائی اور شہر حکوتوں سے یہ اپیل ہے کہ شہر میں موجود
بارشوں کے پانی کی نکاسی کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اس کے ساتھ
قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اٹھاکر عوام کو سکھ کا سانس لینے دیا جائے۔
اگر اس ضمن میں انہیں ناکامی ہوتی ہے تو پھر عوام ان کاموں کو بھی ازخود
سنبھالنے کیلئے سوچیں گے نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ |