اے روہنگیائی ’’حواکی بیٹیوں ‘‘ ہم شرمندہ ہے!

 چندبرس قبل کا واقعہ ہے ،کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کے سب سے خوبصورت علاقے سوات میں ایک لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی ، جس میں کچھ لوگجنہوں نے مذہبی لبادہ اوڑ کراور شکل وصورت اختیار کر کے، ایک برقعے میں ’’حواکی بیٹی‘‘ کو ایک بھرے مجمع میں لاتے ہیں ،اور اُس ’’حوا کی بیٹی ‘‘ کو زمین پر لیٹا کر کوڑے مارے جاتے ہیں۔

یہ ایک درد ناک اور غیر شرعی عمل تھا،اس عمل کی تمام علماء کرام نے مذمت کیااور سب نے اس کو غیر انسانی عمل قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا ، پاکستان کے تمام طبقات نے یک زبان ہوکر اس مکروہ فعل کی مذمت کی ،اور یہ ہونا بھی چاہیئے تھا کیونکہ اس عمل سے ملک اور اسلام کی بدنامی مقصود تھی ۔ مگر یہ کیا سب علماء حق اس ویڈیو میں ہونے والے فعل کو غلط بتلا رہے تھے اور عالمی میڈیا اسلام اور پاکستان پر تنقید کر رہا تھا ،یہ معاملہ تو پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا لیکن عالمی سطح پر پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، اقوام متحدہ نے بھی اس پر پاکستان حکومت پر تنقید کی ، جیسے کہ یہ پاکستان کی افواج نے کرا یا ہو، ہر طرف سے انگلیاں اٹھنے لگی ، غیر تو غیر اپنے بھی کوسنے لگے ، ہر طرف ’’حوا کی بیٹی ‘‘ کے حق میں آواز ے آنے لگی ، ملک کے سکولرز و مذہبی جماعتیں بھی اس واقعے کے بعداحتجاج کرنے لگی ، میڈیا میں بھی ایک طوفان برپا ہوگیا ، کئی کئی گھنٹوں میڈیا میں اس ہی موضوع پر پروگرامات نشر ہونے لگے ، لیکن اس کے بعد جب سپریم کورٹ نے اس کی تحقیقات مکمل کی اور اپنا فیصلہ سنایا تو اس میں اس ویڈیو کو جعلی قرار دیا گیا ،جس کے بعد سب موم بتی آنٹیوں کو سانپ سونگ گیا ۔

چلو یہ تو تھی چند برس پرانی بات اب آتے ہے ان واقعات پر جو چند روز قبل رونما ہوئے ، اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہے ، اﷲ کے حبیب ﷺ نے مسلمانوں کو جسم واحد قرار دیا ہے ، لیکن آج ہم مسلمان بھکرچکے ہیں ، گزشتہ کچھ دنوں سے جنوبی ایشیا ء کے ایک ملک جس کو ’’برما‘‘ کے نام سے جاناجاتا ہے وہاں مسلمانوں پر مظالم کے ریکارڈقائم کئے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو تصاویراور ویڈیوز اپ لوڈ ہورہی ہیں اس کو دیکھنے کے لئے بھی بڑی ہمت چاہیے، ایسا ظلم نہ کسی نے پہلے کبھی سنا تھا اور نہ ہی کبھی دیکھا ، ایک ایک تصویر ،ایک ایک ویڈیو دل کودھلادینے والی ہے ، کوئی کمزور دل شخص ان ویڈیو زکو دیکھ نہیں سکتا ، ان تصاویرمیں برما کی لاچارو بے اسرا ’’ حوا کی بیٹیوں ‘‘ کو درندگیااور سفاکیت کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ، ایسے کچھ ویڈیوز بھی ہے جن میں واضح طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ’’ حوا کی بیٹی ‘‘ کو برہنہ کر کے ان کے ساتھ اس قسم کا ظلم کیا جارہا ہے جو میں تحریر ہی نہیں کرسکتا ، کچھ تصویرں میں ’’ حوا کی بیٹی ‘‘ کو زندہ جلا تے دیکھایا جاتا ہے تو کچھ میں گردنیں کھٹی ہوئی نظر آتی ہے ، اس قسم کا ظلم جس کو دیکھ کر پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے ، برما کے روہنگیا مسلمانوں پرمظالم کا آغاز سن 1962 سے ہوا۔ وہاں کی مسلمانوں کی نسل کشی میں وہاں کے عام بدھ مت لوگوں کے ساتھ افواج بھی شانہ بشانہ ہے مرد تو مرد ’’ حواکی بیٹی ‘‘ اور بچے بھی ان مظالم سے محفوظ نہیں ۔

1962 سے لیکر اب تک تقریبا دولاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا جاچکاہے،جبکہ ہزاروں خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی ہے، سینکڑوں معصوم بچوں کو زندہ نذرآتش کیا گیا ہے،اخباری رپورٹ کے مطابق گزشتہ 25 اگست کو ایک مرتبہ پھر روہنگیا مسلمانوں کے تقریباََ 30 دیہات میں برماکی سرکاری ا فواج اور رکھینے بڈھست گروپ نے دہشت گردی مچائی اور حملہ کرکے تقریباََآٹھ سو کے قریب مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا،مانگ ڈاؤن،بوٹھیڈوگ اور راتھی ڈوگ کے اضلاع میں تقریباََتیس دیہات کو ٹارگٹ کرکیوہاں کے مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیااور خواتین کی عصمت دری کی گئی۔برما سے تعلق رکھنے والے محمد فیصل اراکانی نے اپنے فیس بک پوسٹ پر لکھاہے کہ 25اگست کو تیس سے زائد دیہات پر حملہ کیا گیااور کئی دیہات کو جلادیاگیا،ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی،بچوں کو نذر آتش کردیاگیا انہوں نے لکھاہے کہ اس دہشت گردانہ حملے میں ہونے والی اموات بے شمار ہے،انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ ہمارے ساتھ ہونے والے مظالم پر اسلامی ممالک خاموش ہے، یہاں ہم پر ظلم کی انتہاء ہوچکی ہے۔ اس کے ساتھ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ایک رپورٹ کے مطابق پانچ دنوں میں سو کلومٹر کے اندر اکیس سو دیہات جلادئے گئے ، دس ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا گیا پندرہ سو سے زائد ’’ حوا کی بیٹیوں ‘‘ کو عصمت دری کا نشانہ بنانے کیلئے فوج کے حوالے کیا گیا ، کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار مسلمانوں کو زخمی کردیا گیا ہیں ۔

ان تمام واقعات پر سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسلسل برما کی سرکار ی فوج اور دہشت گردگروپ کی جانب سے قتل عام ہونے کا باوجود عالمی طاقتیں او راقوام متحدہ اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہیں اور ناہی اسلامی ممالک ان مظالم پر لب کشائی کرر ہے ہیں ، برما میں ’’ حواکی بیٹی‘‘ کے ساتھ ہونے والے مظالم پر پوری دنیا کی موم بتی آنٹیاں بھی خاموش ہے اور بیکاؤ میڈیابھی۔

اگر اتنا ظلم کسی مسلمان ملک میں کسی غیر مسلم کے ساتھ ہوتا؟ اور ان کی عورتوں کو باندی بنایا جاتا ؟تو امریکا سمیت تمام یورپی ممالک کی چیخے نکل جاتی ، پاکستان میں ایک آسیہ نامی ملعون لڑکی جس نے رسول خدا ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اوراس کا تعلق ایک کرسچن گھرانے سے ہے ، اس کو بچانے کے لئے امریکا ، سمیت تمامعیسائی ممالک پاکستان کی حکومت پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں ۔

آج روہنگیا کی مسلمان مظلوم’’ حوا کی بیٹیاں ‘‘ کسی محمد بن قاسم ؒ کے منتظر ہے کہ کب کوئی آئیگا اور ہم کو ان دردناک مظالم سے نجات دیلائیگا، آج مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے بھی زیادہ ہے مسلمان ملکوں کی تعداد پانچ درجن کے قریب ہیں لیکن سب کے سب خاموش ہے کسی کو روہنگیا کی مسلمان مظلوم’’ حوا کی بیٹیاں ‘‘نظر نہیں آرہی ہے ، ایک دور تھا کہ ہم مسلمانوں کا، جب ہم تعداد میں کم تھے ، لیکن دنیا کے کسی بھی کھونے میں کسی بھی مسلمان کے ساتھ ظلم کی خبر آتی تو کوئی نہ کوئی اسلامی سلطنت اس جگہ یا اس ملک پر فوراََ چھڑ دوڑ تا اور اپنے مظلوم مسلمان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا حساب لیتا تب کسی اور کی ہمت نہیں ہوا کرتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کرتھے ۔ محمد بن قاسم ؒکی سندھ آمد کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں پر ایک ظالم حکمران نے ایک مظلوم مسلمان ’’ حوا کی بیٹی‘‘ کے سر سے برے بازار میں دوپٹہ اتار کر مسلمانوں کو للکارا تھا ۔ مگر افسوس صد افسوس آج ہم میں ایسے بہادر حکمران نہیں رہے جو اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ ہونے والے مظالم پر کوئی رد عمل ظاہرکر سکے ۔

خیر ایک بات اور اگر وہاں پر موجود مسلمان اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے رد عمل کے طور پر برمی فوج یا وہ دہشتگرد جنہوں نے قتل عام کیا مسلمانوں کا، ان میں کسی کو قتل کردے یا کوئی تحریک شروع کر دیں تو فوراََ امریکا ان کو دہشتگرد قرار دیگا ، اس کا اکزیمپل ہم نے کشمیر کے مجاہدین پر دہشتگردی کا لیبل لگتے دیکھا ہے ۔

آخر میں یہی کہونگا کہ ائے مظلوم روہنگیا ئی’’حواکی بیٹیوں ‘‘ ہم شرمندہ ہے بس تمہارے اوپر ہونے والے مظالم پر قلم کو ہی کش دے سکتے ہیں۔ اﷲ تمام مسلمانوں پر رحم فرمائے (امین)
 

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 85285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.