عید قربان

حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی میں خلوص نیت تھی۔اپنی عزیز ترین اکلوتی اولاد کو اﷲ کی رضا کے لئے قربان کرنے کا عزم ابراہیمؑ خلیل اﷲ ہی کر سکتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی قربانی قبول و منظور فرمائی۔آج عید الاضحیٰ ایک ایسے موقع پر منائی جا رہی ہے جب مسلمان دنیا بھر میں اسلام دشمنوں کے نشانہ پر ہیں۔کفر اور لادینیت فیشن بن چکی ہے۔ کشمیر سے فلسطین، چیچنیا سے اراکان، افغانستان سے عراق، شام و مصر ، غرض مشرق و مغرب میں ہر جگہ مسلمانوں کا لہوبہانا معمول بن رہا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ شہداء سب کی آنکھیں نمنا ک کر رہے ہیں ۔ معصوم لوگ جارحیت کی زد میں ہیں ۔عالم کفر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو رہا ہے۔ لیکن ہم ملت واحدۃ کا ابھی تک خواب ہی دیکھ رہے ہیں۔غلامی میں زندگی گزارنے والے اپنے بچوں کے لئے کھلونے ، کپڑے، جوتے نہیں خرید سکے۔ کشمیر، فلسطین، برما، شام، عراق میں والدین بچوں کے لئے کفن خرید رہے ہیں۔یہی ان کی عید شاپنگ ہے۔ لا تعداد بچوں کے لئے کفن خریدنے والا بھی کوئی نہیں بچا ہے۔ خاندان کے خاندان اسرائیلی بمباری کے کھنڈرات کے نیچے دب چکے ہیں۔ ہم ساری صورتحال نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ صرف ٹی وی سکرینوں پر ہی دیکھ سکتے ہیں۔

ان حالات میں ہماری عید مثالی نہیں۔ عید اپنے ساتھ خوشیاں لاتی ہے۔ آج کی عید کے موقع پر خوشی منانے کا جواز نظر نہیں آتا۔ہم جگہ جگہ دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ سکولوں میں ، بازاروں میں معصوموں کا خون ناحق بہایا گیا ہے، جواز نہ بھی ہو ، پھر بھی عید کو ہم نے عید کی طرح ہی منانا ہے۔ صرف ہم ایک تہوار کا احترام کر رہے ہیں۔ ہمارے دل زخمی ہیں۔ ہم غم زدہ ہیں۔ دکھ میں ہیں۔ ماتم کناں ہیں۔ لیکن ہم عید کے موقع پر ماتم نہیں کر سکتے ہیں۔ اس موقع پرماتم منع ہے۔ سال بھر میں ہماری دو ہی عیدیں ہوتی ہیں۔ جب ہم پر خوشی منانا ضروری بنتا ہے۔یہ قربانی کرنے والوں کے لئے خاص طور پر خوشیوں کا دن ہے۔ اس لئے ہم عید منائیں ، خوشی کا اظہار کریں ۔لیکن سادگی کے ساتھ۔

پٹاخے سر کرنا،ہوائی فائرنگ، فضول خرچی، ہلہ غلہ کا یہ وقت نہیں۔ ہمارے پڑوس میں لوگ ہیں جن کے گھر ماتم ہوئے ہیں۔ دنیا میں ہمارے بھائی تکلیف میں ہیں۔ ہم لذیز پکوان، برق زرق لباس سے زیادہ محتاجوں، مزدروں،یتیموں، بیواؤں،بے کسوں،غرباء،کفار کے ازیت خانوں میں بند اپنے بھائیوں کو بھی یاد رکھیں۔ راہ حق کے شہداء کا بھی ہم پر حق ہے۔ وہ خون قرض ہے۔ یہ قرض ہم نے ہی چکانا ہے۔ پاکستان و افغانستان میں کفار کی دہشتگردی کے شکار لوگ اور دیگر خطوں کے متاثرین بھی ہماری توجہ اور تعاون چاہتے ہیں۔

آج مسلمانوں کی بے بسی ، یاس بھری نگاہیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ خوش نہیں۔ بازاروں میں وہ رونقیں نہیں۔ وہ چہل پہل بھی نہیں۔اﷲ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہماری خوشیاں لوٹا دے، انہیں دو بالا کردے۔ مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کے بغیر یہ سب ناممکن نظر آتا ہے۔ مسلمان متحد ہوں گے تو خوشیاں بھی واپس آ سکیں گی۔ محب وطن خواہش کرتے ہیں پاکستان کو سب ایک ہو کر ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جائیں۔عید کے موقع پر ہم نے ایک نئی روایت قائم کر دی ہے۔ عید کے دن ہم ان لوگوں کے گھر تعزیت کو جاتے ہیں جہاں سال میں کوئی فوتگی ہوئی ہو۔ یہ سب عید کے تقدس کے منافی ہے۔ عید کے دن کسی کے گھر اظہار تعزیت کے لئے تشریف لے جانا روایت بن رہی ہے۔ خوشی کے دن ماتم کی کیفیت اور فضا قائم کرنا کس روایت کا فروغ ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ فلاح گھر میں سال میں فوتگی ہوئی ہے۔ ان کی پہلی عید ہے۔ اس لئے ماتم کرنے چلیں۔عید کے موقع پر ماتم جیسی روایت کو بعض حلقے جہالت قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری نیت اچھی ہو گی، خلوص بھی ہو گا لیکن خوشی کے موقع پر غمی طاری کرنا ایسا ہی ہے کہ کسی کی شادی ہو رہی ہے اور آپ تعزیت کے لئے چلے جائیں۔

عید کے موقع پر ہم نماز عید ادا کرتے ہیں۔ یہ اجتماعیت کا تصور ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اجتماعی مسائل مل کر حل کرنے کی تحریک ملتی ہے۔عید گاہوں اور کھلی جگہوں پر نماز عید ہوتی ہے۔ جہاں خواتین کے لئے بھی پردے کا انتظام کیا گیا ہوتا ہے۔ ہمیں ہدایت ہے کہ ہم اپنے گھر کی خواتین کو بھی عیدگاہوں میں لے کر جائیں اور انہیں بھی مسلمانوں کی اجتماعی دعا میں شریک کریں۔

ہم خواتین کو بازاروں میں شاپنگ کرانے لے جاتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ لیکن خواتین کو اپنے ساتھ مسجد اور عید گاہ میں لے جانا اپنے مردانگی یا شرم و حیا کے منافی کیوں سمجھتے ہیں۔ جو درست نہیں ہے۔ ہمیں بازاروں میں شرم و بے حیائی کا خیال نہیں رہتا اور جس کی ہمیں ہدایت ہے اس سے پرہیز کرنا ہم اچھا کیوں سمجھتے ہیں۔ حالانکہ نماز عید واجب ہے۔ عید کا خطبہ نماز عید کے بعد ہوتا ہے۔ یہ خطبہ سنت ہے۔ ہم نماز عید ادا کر کے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ نماز کے بعد خطبہ جس میں دعا بھی ہوتی ، اس میں شامل ہونا سنت ہے۔ آج یہی اپیل کی جا رہی ہے کہ عید انتہائی سادگی سے منائی جائے۔خوشی میں دکھی لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 557207 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More