وطن عزیز میں یوم دفاع منایا جا رہا ہے۔ مرکزی تقریب جی
ایچ کیو میں منعقد ہوئی جس کی خاص بات کشمیر پر نوحہ خوانی تھی۔ حسب عادت
انسانی حقوق کی تنظیموں اور جانوروں کے حقوق پر آواز بلند کرنے والوں کو
کوسنے دیئے گئے۔ کشمیر ،فلسطین اور اب برما میں مسلمانوں پر جاری مظالم پر
بھی وطن پاک میں مغرب کو ہی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کا
چمپئین مغرب مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر آواز نہیں اٹھاتا ہے۔ روہنگیا
مسلمانوں کی نسل کشی کیخلاف پاکستان میں مذہبی ، نیم سیاسی اور سماجی
تنظیموں کی جانب سے جاری احتجاجی مظاہروں میں تقریروں کے عنوانات مغرب کو
کوسنا ہی ہیں۔ مغرب کو روہنگیا مسلمانوں پر مظالم نظر کیوں نہیں آتے ہیں
وغیرہ وغیرہ ۔ یہ روش دیوانیگی ہے۔ فیشن ہے۔ بے عقلی ہے ۔ لاعلمی ہے یا
تجاہل ہے۔ کیوں کہ دنیا بھر میں مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر
ہمیشہ توانا آواز مغرب سے اٹھائی گئی ہے۔ انسانی حقوق کی بڑی بڑی تنظیمیں
بھی مغرب میں ہی قائم ہیں ۔ (معاف کرنا ۔ مغرب کی اچھائی بیان کرنا یا
وکالت کرنا ہرگز نہیں ہے۔ میرا مقصود اپنے گریبان میں جھانک کر خود سے سوال
کرنا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کہا ں کھڑے ہیں۔)
اس کے برعکس مسلم ممالک نے ہمیشہ مجرمانہ خاموشی سے کام لیا ہے۔ شام کے
مہاجرین کی مثال تازہ ترین ہے۔ مسلم ممالک کا اس انسانی مسلے پر کیا ردعمل
تھا سب کو معلوم ہے۔ کیا ہم (مسلمان) اپنے گریبان میں نہیں جھانک سکتے ہیں۔
کشمیر پر ہماری ریاستی پالیسی کیا ہے۔ اس پر ہماری سفارتکاری کیا رہی ہے۔
ہم نے کشمیر کی آزادی کیلئے اقوام عالم میں کیا کمپئین چلائی ہے۔ یہی بات
روہنگیا مسلمانوں کے مسلہ پر کہی جا سکتی ہے کہ ہم مسلمانوں نے کتنے جاندار
مظاہرے کیے ہیں۔ کہاں کہاں ہم نے اپنے وفود بھیجے ہیں ۔ کون سی ہم نے عالمی
کانفرنس کال کی ہے ۔ جس میں مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں مدعو کرنے کے
باوجود شریک نہیں ہوئیں ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کہاں ہے۔ عرب
ممالک خاموش کیوں ہیں ۔ ہمسایہ مسلم ملک بنگلہ دیش کی روش بھی مناسب نہیں
ہے۔فراخدلی سے بنگلہ دیش روہنگیا مسلمانوں قبول کرنے سے تاحال گریزاں
ہے۔راحیل شریف کی سربراہی میں قائم ہونیوالی مسلم نیٹو فورس کا کیا مقصد ہے۔
ابھی تک کسی بھی مسلم ملک نے روہنگیا مسلمانوں کے مسلہ پر مشترکہ آواز
اٹھانے کیلئے اسلامی ممالک کا اجلاس بلانے کیلئے پہل کیوں نہیں کی ہے۔ امت
واحدہ کا تصور کدھر گیا ۔ اسلامی بھائی چارہ اور دنیا کے تمام مسلمان بھائی
بھائی کی گردان کرنے والے کہاں ہیں۔یہ مجرمانہ خاموشی کیوں ہے ۔ کیا یہ کام
بھی مغرب نے ہی کرنا ہے۔ کیا صرف مغرب کی تنظیمیں ہی آواز اٹھائینگی ۔ کیا
مسلمان گونگے اور بہرے ہیں ۔ دوسری جانب افسوس ناک امر ہے کہ کچھ نادان
مسلمان شوشل میڈیا پر میانمر کے حوالے سے جعلی تصاویر شائع کرکے کیس کو
بگاڑ رہے ہیں۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ ان کی یہ احمقانہ حرکتیں روہنگیا
مسلمانوں کو فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بن رہی ہیں ۔ ہمیں بطور مسلمان
دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے اپنے رویے پر غور کرنے اور عالم اسلام کو
جگانے کی ضرورت ہے۔ برما میں زخم خوردہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔ سب سے
پہلے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم توانا آواز بلند کریں۔ مسلمانوں کی بڑی بڑی
تنظیمیں ہیں جنہیں فوری بنگلہ دیش میں جا کر روہنگیا پناہ گزینوں کی مدد
کرنی چاہیے ۔ عالم اسلام کے مسلم ممالک فوری سربراہی اجلاس بلاکر بھرپور
احتجاج کرتے ہوئے برما سے سفارتی ، تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کریں۔
|