روہنگیا مسلمان ہماری مدد کے منتظر

اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے انسانوں نے انسانوں کے قتل عا م میں کوئی دریغ نہیں کیا۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی فرقہ واریت کے نام پر، کبھی عنان حکومت کو بڑھاوا دینے کیلئے کبھی حقوق کے نام پر اور کبھی طاقت کے زعم میں، کبھی قومیت کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر الغرض اپنی خواہشوں کی تکمیل کیلئے لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کیا گیا بہت سے لوگ اپاہج ہو کر آج بھی سسک سسک کر جی رہے ہیں اور ہماری تاریخ ان انسانیت سوز شرما دینے والے مظالم سے بھری پڑی ہے۔ دنیا میں سب سے ذیادہ قتل عام مذہب کے نام پر اور حقوق حاصل کرنے کیلئے ہوئے۔ جہاں ہم حقوق حاصل کرنے کیلئے انسانوں کوبے رحمی سے قتل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں وہیں ہمیں کنگ مارٹن لوتھر کو نہیں بھولنا چاہئے جو ایک سیاہ فام تھا اور اسنے سیاہ فام لوگوں کے مساوی حقوق اور ووٹ کے حق کیلئے پر امن احتجاج کا سلسلہ منظم کیا اور پر امن ریلیاں نکال کر پوری دنیا پر یہ بات واضح کر دی کہ ہمیں اپنے حقوق کیلئے پر امن جدو جہد کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہئے۔ کنگ مارٹن لوتھر نے پوری دنیا کے ان پسے ہوئے طبقات کو یہ سکھایا کہ ہمیں نسلی امتیاز، جنگ اور غربت کو ختم کرنا ہے ۔ وحشیانہ اور پر تشدد طریقہ اختیار کرنے کی بجائے پر امن طریقہ اختیار کرکے بھی حقوق کی جنگ جیتی جا سکتی ہے ۔ اور مارٹن لوتھر کی یہ جدو دجہد آج بھی تاریخ میں سنہری الفاظ میں مرقوم ہے۔

روہنگیا کے 15لاکھ مسلمان جو میانمار ( برما) کی شمالی ریاست رخانی میں بغیر کسی شناخت کے بے یارو مددگار مقیم ہیں انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سعودی عرب سے ہجرت کرکے آئے تھے اور بارہویں صدی سے بھی پہلے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔تاج برطانیہ کے وقت جو تقریباً صد سالہ دور پر محیط ہے یہاں پر ایک اچھی خاصی تعداد محنت کشوں کی شکل میں ہجرت کرکے آئی تھی جو ہندوستان اور برما کے علاقوں میں محنت مزدوری کرنے کیلئے لائے گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ صدیوں سے یہاں پر آباد ہیں جب یہ علاقہ برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہو ا تو یہ لوگ یہیں کے باسی ہوگئے مگر تا حال انہیں انکی پہچان نہیں ملی کیونکہ برما جسے میانمار بھی کہا جاتا ہے یہاں پر80فیصد بدھ مذہب کے لوگ آباد ہیں۔تا حال یہ روہنگیا مسلمان بغیر کسی شہریت اور شناخت کے رخائن کے علاقے میں آباد ہیں۔ نہ تو انہیں میان مار کی حکومت نے تسلیم کیا ہے نہ ہی انکے پاس کوئی اپنی شناخت کیلئے قطعہ ارض ہے یہ لوگ معاشی طور پر انتہائی بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں کیونکہ نہ توا نہیں ملازمتوں میں حصہ دیا جاتا ہے۔ نہ ہی انکی پیدائش اور اموات کا اندراج ہوتا ہے، یہ لوگ تعلم، صحت، سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیب و ثقافت، شادی بیاہ کے رسم و رواج، ملازمتوں اور عبادات میں آزادانہ طور پر اپنے حقوق کیلئے تا حال جدو جہد میں مصروف ہیں ۔ 1940ء کی پاکستان کی آزادی کی تحریک کے دوران روہنگیا مسلمانوں نے ایک علیحدگی پسند تنظیم کی بنیاد رکھی جسکے مقاصد اپنے بنیادی حقوق کا حاصل کرنا تھا۔ 1948 ء میں روہنگیا مسلمانوں نے برما کی آزادی سے قبل ہندوستان میں مسلمانوں کے لیڈر محمد علی جناح سے بات چیت کی اور انہیں درخواست کی کہ انہیں مسلمان ہونے کی کی حیثیت سے جغر افیائی لحاظ سے مشرقی پاکستان سے ملحق کر دیا جائے مگ تاکہ وہ بھی اپنی ایک شناخت قائم کر سکیں مگر محمد علی جناح نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا ہے کہ وہ اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ وہ برما کی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کر سکیں۔ روہنگائی مسلمانوں نے محمد علی جناح کے صاف انکار کے بعد 1950ء میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جسکا نام مسلم مجاہدین پارٹی تھا جسکے مقا صد میں روہنگیا مسلمانوں کی شناخت اور اپنے حقوق حا صل کرنا تھااسکا ہیڈ کوارٹرچٹا گانگ (بنگلہ دیش) میں تھا۔ رخائن نامی سٹیٹ جو چٹاگانگ اور برما کے بارڈر پر واقع ہے یہ روہنگا مسلمانوں کا گڑھ تھا جو آج بھی ہے۔ یہ لوگ یہاں سے یو نین آف مایانمار کی آرمی کیخلاف سرکش کارروائیاں عمل میں لا کر انکا جانی و مالی نقصان کرتے تھے۔ انکے پرچم کا رنگ سبز ہے جس پر کلمہ طیبہ کے الفاظ درج ہیں1990 ء کے اوائل میں روہنگیا سر فرو ش RPGراکٹ لانچر، K-47رائفلیں ، دستی بم، بارودی سرنگیں اور دوسرے جدید ہتھیار وں سے لیس تھے اور انہیں برطانیو ی حمایت حاصل تھی۔ روہنگیا مسلمانو ں کی یہ عسکریت تنظیم میانمار کے عسکری یونٹوں پر حملے کرکے انمیں خوف و ہراس پھیلاتے تھے اور اسی طرح سڑکوں پر بم نصب کرکے لوگوں کا قتل عام کرتے۔ روہنگیا مسلمانوں کی ملٹری ونگ کے تخریب کاری اور اور میانمار کی افواج کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں روہنگیا مسلم ملٹری ونگ کے خاتمے کیلئے میانمار کی افواج نے بنگلہ دیش کے بارڈر کو عبور کر کے انکے اڈوں کے خاتمے کیلئے کارروائیاں کیں جسکے نتیجے میں بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہونے لگے۔ اپریل1992ء میں پچاس ہزار سے زیادہ روھنگی مسلما نوں کو ہجرت کرکے جنوبی رخائن جانا پڑا جس کے نتیجے میں میانمار کی افواج کے زریعے بہت بڑا آپریشن عمل میں لایا گیا اس آپریشن کے نتیجے میں سینکڑوں روہنگی مسلمانوں کو مارا گیا ۔ 1994ء میں بہت سے روہنگیا شدت پسند دریا ئے فار کو عبور کرکے میانمار میں گھس گئے جہاں انہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروایاں شروع کیں سڑکوں پر بم نصب کرکے میانمار کے بدھ مت لوگوں کو مارا گیا، انکی عمارات کو نقصان پہنچایا گیا، جانی او ر مالی نقصان کے نتیجے میں میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کی بیخ کنی کی ا ور بہت سے روہنگیا مسلمانوں کاصفایا کیا گیا ۔ `1998ء میں اس تنظیم نے آرمڈ ونگ کی حیثیت اختیار کرلی با قاعد ہ طور پر اپنے ٹریننگ کیمپ بنائے گئے جہاں پر القاعدہ اور طالبان انہیں ٹریننگ دیتے تھے۔ یہ ٹریننگ افغانستان کے کیمپوں میں دی جاتی اور ان لوگوں کو تیارکرکے بنگلہ دیش اور میانمار میں بھیجا جاتا جہاں وہ اپنی دہشت گرد کارروائیاں عمل لاتے تھے ۔ میان مار میں رہنے والے مسلمانوں نے جوق در جوا اس تنظیم میں حصہ لینا شروع کر دیا جہاں پر ا نہیں تیس ہزار بنگلہ دیشی ٹکے ماہانہ دئے جاتے تھے جو عسکریت پسند مارے جاتے تھے انکے خاندان والوں کو ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ بنگلہ دیشی ٹکے دئے جاتے تھے۔( بحوالہ ایشین ٹریبیون) ان دہشت گردوں کو جاپان اور بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملیشیا، انڈونیشیا میں بھی بھیجا جاتا جہاں وہ دہشت گردا نہ کاروائیاں کرتے ۔ حالیہ انٹر نیشنل کرائسس رپورٹ کے مطابق روہنگیا مسلمانوں نے ایک نیا گروپ تشکیل دیا ہے جو طالبان او ر القائدہ کی مدد سے معرض وجود میں لایا گیا ہے جو حرکت الیقین کے نام سے کام کر رہا ہے اسنے آلائن میڈیا اور اخبارات میں بہت سے ویڈیوز بھی شائع کیں ہیں جنکا مقصد اپنے آپکو پوری دنیا میں منوانا ہے اور میانمار کی فوجی حکومت کو یہ احساس دلانا ہے کہ انہیں انکے جائز حقوق دیئے جائیں۔ ان ویڈیو ز میں روہنگیا مسلمانوں کو القائدہ کے کیمپوں میں ٹریننگ حاصل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ان ویڈیوز میں تشدد کے وہ مناظر بھی دکھائے گئے ہیں جو یہ تنظیم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے کرتی ہے۔ میان مار کی حکومت نے ان تنظیموں پر پابندی عائد کر رکھی ہے مگر یہ ایک نئے نام سے ابھر کر سامنے آجا تے ہیں اور اپنے حقوق کی جنگ کیلئے کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ تنظیمیں زیادہ تر رخائن اور بنگلہ دیش کے بارڈر پر پر اپنی کارروائیا ں کرتے ہوئے وہاں پر انکی افواج کو نقصان پہنبچاتے ہیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی افواج نے بر ما میں داخل ہو کر برمیوں اور روہنگی مسلمانوں کا قتل عام کیا عورتوں کا ریپ کیااور ان پر تشدد کیا گیا۔ برطانوی روہنگی مسلمانوں نے جاپانی حملہ آوروں اور برٹش ہندوستان کے درمیان بفر زون کا کام کیا ۔ حریت پسند روہنگی مسلمان مجاہدین آج بھی بنگلہ دیش کے مجاہدین کے شانہ بشانہ انکی حمایت اور مدد سے اپنے حقوق کیلئے میانمار کی افواج کی ساتھ بر سر پیکار ہیں ۔

روہنگیا مسلمانوں کی کارروائیوں سے تنگ آ کر بدھ مت کے پیروکاروں نے بھی اپنے مذہبی پیشوا ویراتھو کے زیر اثر ما باتھا کے نام سے ایک تشدد پسند تنظیم قائم کر لی جس نے 2012ء میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی میں پر تشدد کارروائیاں کرکے انکے گھروں کو مسمار کردیا اور انکے گھروں کو آگ لگا دی گئی اسی طرح مسلمانوں کو زبح کیا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے امن کی بجائے پر تشدد راستہ اختیا کیا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش، ملیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا نے اپنی سرحدوں پر سخت انتظامات کئے اور سمندری راستوں پر نگرانی سخت کر دی جس سے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ اور راستہ نہ ملنے پر روہنگیا مسلمانوں کی امید کی کرن ختم ہوتی جا رہی ہے اور میان مار میں بدھ شدت پسندوں نے روہنگیا مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ موجودہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے اور وہاں پر رہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے انکی املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے، عورتوں کے ساتھ بچوں کو زبح کیا جاررہا ہے ۔ عورتوں کیساتھ پر تشدد ریپ کے واقعات ہو رہے ہیں ۔ مگر مسلمان ریاستوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی یہانتک کہ پاکستان کی ریاست بھی ان بے گھر اور بے یار و مدد گار لوگوں کو اپنے یہاں پناہ دینے پر راضی نہیں ہے اور انہیں اپنی شہریت دینے پر آمادہ نہیں ہے ۔ میان مار کی حکومت نے رخائن کے اس حصے میں جہاں پر روہنگیا شدت پسندوں کے ٹھکانے ہیں اور وہ وہاں سے پر تشدد کارروائیاں کرتے ہیں ایک بہت بڑ ا فوجی آ پریشن شروع کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے روہنگیا شدت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے ۔ روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کے حل میں تین رکاوٹیں سر فہرست ہیں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ آنگ سان سُوچی جو میان مار حکومت میں شامل ہیں ان کے اختیارات بہت کم ہیں اور سب اختیارات افواج کے پاس ہیں جس کی وجہ سے وہ روہنگیا مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتیں اور وہ فوج سے کوئی چپقلس نہیں چاہتیں انہوں نے ترکی کے صدر سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ ہمارے ملک کے مسائل کتنے گھمبیر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ملک میں رہنے والے تمام افراد کے اختیارات ایک جیسے ہوں۔ نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی بنیادوں پر بھی ہمیں سب کو حفاظت اور پناہ دینی ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران مذید کہا کہ روہنگیا مسلمان شدت پسندوں کے مفادات کو ہوا دینے کیلئے پوری دنیا میں غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم دہشت گردوں کی سر گرمیوں کو رخائن تک محدود کرنے کیلئے مصروف عمل ہیں تاکہ وہ پورے ملک میں نہ پھیلنے پائیں۔ان دو ہفتوں کے دوران تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش ہجرت کی ہے جو پچھلے سالوں سے سب سے بڑی ہجرت ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی کوئی زمین نہیں ہے انکے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے انہین میانمار میں صرف بنگلہ دیشی مہاجر ماناجاتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کہ وہ واحد اقلیت ہے جسے اسوقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔یہ لوگ کئی دہائیوں سے راخائین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن بد ھ مت لوگ انہیں بنگالی کہہ کہ دھکتارتے ہیں روہنگیا لوگ جائے پناہ کی تلاش میں ملکوں ملکوں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن انہیں کہیں جائے پناہ نصیب نہیں ہور ہی۔بہت سے روہنگیا مسلمان ہجرت کے دوران کشتیاں ڈوبنے سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 2012ء میں مذہبی تشدد کا شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ڈیڑھ لاکھ روہنگیا مسلمان راخائن کو چھوڑ کر بے یار و مدد گارپڑے ہیں اور بھوک، پیاس اور ننگ سے مر رہے ہیں مگر مسلمان ممالک بے حسی کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا مسلمانوں کی اجتمائی قبریں دریافت ہوئی ہیں جو 2015ء کی ہجرت کے دوراں جب ان پر سختی کی گئی اور یہ لوگ مختلف علاقوں کی طرف گئے تو یہ لوگ سمندر میں پھنسے رہے اور انمیں سے متعدد لوگ مارے گئے۔ روہنگیا مسلمانوں کو اغوا کرکے انکی سمگلنگ کی جا رہی ہے عورتوں اور بچوں کو سمگلنگ کر کے ان سے غیر انسانی کام کروایا جاتا ہے۔وہ روہنگیا مسلمان جو کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہوتے ہیں انہیں بنگلہ دیشی افواج یا تو واپس بھیج دیتی ہے یا پھر بہت سے انکی گولیوں کا نشانہ بن کر مارے جاتے ہیں۔

میانمار می سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹو ں پر ہونے والے حالیہ واقعات میں روہنگیا مسلمان باغی شامل ہیں جنہوں نے انکی افواج پر حملے کرکے انکے فوجیوں کو نشانہ بنا یا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ یہ باغی امن کیلئے خطرہ ہیں۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ 1982ء کا قانون کہتا ہے کہ نسلی گروپ وہی ہیں جو یہ ثابت کر سکیں کہ وہ 1823ء سے قبل یہاں پر مقیم ہیں۔نوبل انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی کو پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر وہ طاقتور فوج کے سامنے بے بس ہیں اور نہیں چاہتی کہ ان سے اختلاف پیدا ہو۔ادھر سیکیورٹی فورسز جو مسلمانوں پر مشتمل روہنگیا سالویشن آرمی کے جنگجو وں اور میانمار کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں اور افواج ان جنگجوؤں کی تلاش میں ہیں کیونکہ گزشتہ دنوں میں میانمار کے فوجیوں پر حملے کی ذمہ دار اسی گروپ نے قبول کی تھی۔ ان جھڑپوں کے دوران اب تک 650لوگ مارے جا چکے ہیں انمیں سے زیادہ تر تعداد شدت پسند مجاہدین کی ہے۔

روہنگیائی مسلمانوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے انہیں کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے وہ بے یار و مدد گار ہیں انسانوں نے جنگلی بھیڑیوں کا روپ دھار لیا ہے جو انہیں ایک لمحے کیلئے بھی برداشت کر نے کو تیار نہی ہیں۔ مسلمان ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، ملائیشیا اور انڈونیشیا شامل ہیں بے حسی کے تصویر بنے بیٹھیں ہیں۔ بنگلہ دیش نے ساڑھے تین ہزار روہیگیا مسلمانون کو اپنے علاقے سے بندوق کے زور پر نکال باہر کیا جو خدا کے سہارے کشتیوں میں بیٹھ کر رحم طلب نگاہوں سے پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں مگر کوئی نہیں جو انکی مدد کرے اور انکا سہارا بنے وہ سمندر کے تھپیڑوں کے نظر ہو کر مارے جا رہے ہیں بھوک اور پیاس اب انکے لیے جان لیوا بنتی جا رہی ہے۔ کیا انسان اتنا ہی درندہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کو برداشت نہیں کر پا رہا انکی حقوق زنی ہو رہی ہے، انہیں جلا کر مارا جا رہا ہے، انکے بچوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں، کہاں ہیں انسانیت اور مسلمانیت کا دعویٰ کرنے والے جو صبح شام انسانیت کے درد کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ مذہب کی بنیاد پر ہونے والی قتل و غارت گری خواہ عیسائیوں کی اقلیت کی صورت میں پاکستان میں ہو، انکے چرچوں اور بستیوں پر حملہ آور ہو کر انکے گھروں کو نذر آتش کرنا، ہندو برادری کی عورتوں کو زبردستی مسلمان کرنا ہندوستان میں مسلمانوں کا ناطقہ بند کردینا، شیعہ سنی فسادات میں تعزیوں کو آگ لگا دینے کے واقعات اور شیعوں کا قتل عام، کوئٹہ میں ہزارہ مسلمانوں کا قتل عام، عراق میں یزیدی قبیلے کا قتل عام انکی عورتوں سے زبر دستی زناہ کرنا اور انہیں جان سے مار دینا ،یمن میں حوسی قبیلے پر سعودی عرب کی حکومت کی درندگی جنگی جہازوں سے بم برسا کر انہیں موت کی گھاٹ اتار دینا، عراق میں سنی شیعہ فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا آپس میں قتل کر دیا جانا مسلمانوں کو شرما دینے کیلئے کافی ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی اپنی اپنی تعریف ہے ہماری جذباتی تقاریر، جنت کی آرزو میں غیر مسلموں اور مسلمان فرقے کے دوسرے کلمہ گو مسلمانوں کو جان سے ماردینا وہ غیر انسانی فعل ہیں جن سے انسانیت شرماجاتی ہے۔ ہر مذہب خود کو امن و آشتی کا مذہب قرار دیتا ہے مگر ان مذہبی ٹھیکیدار وں کو کبھی بھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں پر ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف آواز بلند کریں کیونکہ مرنے والوں کا عقیدہ یا مذہب ان سے تعلق نہیں ہم انسان نہیں ہیں ہم مسلمان ہیں، ہم بدھ مت ہیں، ہم ہندو ہیں، ہم عیسائی ہیں ، ہم یہودی ہیں، ہم سنی ہیں ہم شیعہ ہیں انسانیت کا پرچار تو کرتے ہیں مگر ہم انسانیت سے بہت دور ہیں۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138896 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.