مومنہ اپنے کمرے میں بیٹھی میگزین دیکھ رہی تھی۔ اس کی
امی نے کمرے میں آتے ہی اس سے میگزین لے لیا۔ مومنہ نے انہیں دیکھا ۔ امی
کیا ہوا۔صدیقہ نے مسکراتے ہوئے کہا، تمہارے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔ رشتہ
مومنہ نے بے دلی سے کہا ۔ اچھا۔
صدیقہ نے دھیرے سے کہا۔مومنہ مگر اس کی تین سال کی بیٹی ہے۔ اس کی بہن کو
دُبئی جانا ہے ،وہ جلد سے جلد اپنے بھائی کے لیے ایک اچھی لڑکی چاہ رہی ہے۔
مومنہ نے اپنی امی کی بات ختم ہونے پر کہا۔ اس کی بیوی مر گئی کیا؟صدیقہ
نہیں بھاگ گئی کسی کے ساتھ۔ کیا؟ مومنہ نے حیرت سے کہا۔ امی ممکن ہے کہ وہ
عورت اپنے بھائی کے کیے پر پردہ ڈال رہی ہو۔ کوئی عورت کیسے اپنا گھر اتنی
آسانی سے چھوڑ سکتی ہے۔
مومنہ کی امی نے اطمینان سے کہا۔ صابر اچھی طرح جانتا ہے ،اوصاف کو ۔ اوصاف
کے بارے میں اس کی رائے ہے کہ بہت شریف اور اچھا لڑکا ہے۔ سارا دن کام پر
ہوتا ہے۔ پتہ نہیں اس کے ساتھ یہ سب کیوں ہوا۔ اس کی پہلی بیوی اسے کیوں
چھوڑ گئی ۔ مومنہ نے شک سے بھرے لہجے میں کہا۔ امی کوئی عورت یوں ہی تو
اپنے شوہر کو نہیں چھوڑے گی نا۔
صدیقہ نے مومنہ سے کہا۔ بلانے میں حرج کیا ہے ۔تم دیکھ لو لڑکے کواس کی
بیٹی کو۔ میں تمہارا گھر بستا دیکھنا چاہتی ہوں اور بس ۔ اٹھائیس سال کی ہو
چکی ہو تم ۔ابو تمہارے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے بھی تو کسی اور عورت
کے لیے مجھے چھوڑ دیا ۔توکیا تم اب یہ کہوگی کہ میرا قصور تھا۔ بیٹا یہ
دنیا ہے ۔ یہاں بہت کچھ ہوتا ہے۔ کبھی عورت اچھی نہیں ہوتی، تو کبھی آدمی
اچھا نہیں ہوتا۔ کبھی دونوں اچھے ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے کے لیے نہیں
۔مومنہ نے صدیقہ کے آگے ہتھار ڈالتے ہوئے کہا۔ امی آپ جو چاہیں کریں ۔
آپ نے کرنی اپنی ہے بس کہلوانا میرے منہ سے ہے۔صدیقہ نے مسکراتے ہوئے
،مومنہ کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔ خوش رہو بیٹا۔ ہمیشہ خوش رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوصاف کو ارباب بہت سی لڑکیوں سے شادی کے لیے ملوا چکی تھی ، اوصاف کو کوئی
بھی لڑکی ابھی تک سوہا کی ماں بننے کے لائق نہیں لگی تھی۔ ایک ماہ ہو چکا
تھا، شواف کا کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ اوصاف جب مومنہ سے ملنے آیا
تو سوہااور اربا ب اس کے ساتھ تھے۔ مومنہ جب کمرے میں آئی تو اوصاف نے اسے
ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنی نظریں صدیقہ آنٹی کی طرف گما لیں۔جو انہیں بتا
رہی تھی۔ اوصاف بیٹا میری بیٹی نے ایم اے اکنامکس کیا ہے ۔ ہمارے گھروں کی
بچیاں نوکری تو کرتی نہیں ۔آپ کو آپ کی بہن سے پتہ چل گیا ہو گا۔ میر ا
بیٹا وقاص انگلینڈ میں ہوتا ہے ۔ اس کی شادی ہو جائے گی تو میں اس کے پاس
چلی جاوں گی۔
اوصاف نے نظریں نیچے کرتے ہوئے کہا۔ جی۔
اوصاف نے مومنہ کو دیکھا تو وہ سوہا کو دیکھ رہی تھی جو الماری میں پڑی
گڑیا کو دیکھ رہی تھی۔ مومنہ صوفہ سے اُٹھی اور گڑیا نکال کر سوہا کے ہاتھ
میں دے دی۔سوہا بھاگتی ہوئی اوصاف کی گود میں جا بیٹھی۔ اوصاف نے صدیقہ کی
طرف دیکھ کر کہا۔ آنٹی ،آپ کو پتہ تو ہو گا کہ میری پہلی بیوی شواف اچانک
سے گھر سے چلی گئی ۔ وہ اپنے والدین کے ہاں بھی نہیں ۔ نہ ہی اس کے والدین
کو پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے ۔ میں نے پولیس میں رپورٹ کروائی ہے لیکن انہیں
بھی ابھی تک کچھ پتہ نہیں۔
صدیقہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ بیٹا اگروہ واپس آجائے تو تم کیا کرو
گئے ۔ میرا مطلب ہے ،اگر یہ رشتہ ہو جائے تو۔ اوصاف نےافسردگی سے کہا ۔ میں
اسے طلاق دے دوں گا۔ مومنہ نے اس کے لہجے کی افسردگی کو محسوس کیا۔ کچھ دیر
بعد وہ لوگ جب چلے گئے تو صدیقہ نے مومنہ کی رائے لی۔ کیا وہ اوصاف سے شادی
کرنا چاہے گی۔ مومنہ نے ہاں کہہ دی۔
ارباب کو دُبئی جانا تھا۔ اوصاف نے سادہ انداز میں شادی کی پیشکش کی جسے
مومنہ اور صدیقہ نے باخوش قبول کر لیا۔
مومنہ اپنے نئے گھر میں آ چکی تھی ۔ اوصاف جب کمرے میں داخل ہوا تو بے
اختیار اس کی نظر اوصاف کے چہرے کی طرف گئی ۔اس نے نظریں جھکا لیں۔ اوصاف
نے اس کے پاس بیٹھتے ہی اسلام کرنے کے بعد کہا،مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے
کیا سوچ کر مجھ سے شادی کی ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ آپ کو مجھ سے بہت اچھا
جیون ساتھی مل سکتا تھاجوپہلے سے شادی شدہ نہ ہو۔ مومنہ نے پھر سے اس کے
چہرے پر اداسی اور افسردگی دیکھی۔ اس نے نظریں اُٹھا کر دھیمے لہجے میں
کہا۔ اللہ تعالی نے مجھے آپ کو سونپنا تھا تو کسی اور کا سوال کیسے پیدا
ہو سکتا تھا۔
اوصاف کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے منہ دیکھائی کی رسم پوری کرتے ہوئے
کہا۔ مومنہ میرے والدین حیات نہیں ، ارباب بھی دُبئی جا رہی ہے۔ میرے لیے
سوہا ہی سب کچھ تھی ، میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کو کسی بھی طرح کی کوئی
کمی محسوس نہ ہو۔ میں اکیلے اسے وہ محبت نہیں دے سکتا جس کی وہ حق دار ہے۔
سوہا میری سب کچھ ہے۔ میں چاہوں گا۔
مومنہ نے اوصاف کی بات کاٹ دی۔ میری بھی ۔ اس نے اوصاف کی نظروں
میں۔جھانکتے ہوئے ،اس کے دل میں اُترنے کی کوشش کی ۔ جو کوشش رائیگاں نہیں
گئی تھی۔ اوصاف کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی۔ جسے وہ اپنے اندر اُترتا
محسوس کر رہی تھی۔
مومنہ کے لیے زندگی کی نئی شروعات ہو چکی تھی۔ اس نے سوہا اور اوصاف کو
مکمل طور پر اپنا لیا تھا۔سو ہا مکمل طور پر مومنہ کو اپنی ماں سمجھنے لگی
تھی۔ مومنہ نے دھیرے دھیرے اوصاف کے گھر کے ساتھ اس کے دل میں بھی جگہ بنا
لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومنہ اور اوصاف کی شادی کو چار ماہ ہو چکے تھے۔ اوصاف نے کبھی بھی اس کے
سامنے شواف کا ذکر تک نہ کیا تھا۔ رات کو اوصاف گھر بہت دیر سے آیا مومنہ
انتظار کر رہی تھی۔ اوصاف کا فون بند ہونے کی وجہ سے وہ پریشان لگ رہی تھی۔
اوصاف کے پاس گھر کی چابی ہوتی تھی۔ اس نے مومنہ سے کہا تھاکہ اگر اسے دیر
ہو جایا کرئے تو وہ سو جایا کرئے مگر مومنہ اوصاف کے آنے سے پہلے کبھی بھی
نہیں سوتی تھی۔ اوصاف نے جب کمرے میں قدم رکھا تو مومنہ فون اُٹھائے کمرے
میں کھڑی نظرآئی۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ آپ کا فون کہاں
تھا۔ اوصاف نے فون کی طرف دیکھ کر کہا وہ اس کی بیٹری ۔
مومنہ فوراً کمرے سے چلی گئی۔ اس کے لیے پانی لے کر آئی ۔اوصاف نے پانی
پیتے ہوئے مومنہ کی طرف تشکر کے انداز میں دیکھا۔ اس نے پانی پینے کے بعد
کہا۔ ضرور میں نے کوئی نیکی کی ہو گی کہ تمہارے جیسی بیوی مجھے ملی ہے۔ اگر
شواف اس طرح گھر چھوڑکر نہ جاتی تو تمہارے جیسی بیوی مجھے کیسے ملتی۔ مومنہ
نے اوصاف کے منہ سے شادی کے چار ماہ بعد پہلی دفعہ شواف کا نام سنا تھا۔ وہ
بیڈ پر سستانے کے لیے لیٹ گیا۔مومنہ نے اوصاف کی نظروں میں دیکھتے ہوئے
کہا۔ شواف سے محبت کرتے تھے آپ ۔ اوصاف نے غیر متوقع سوال پر چونکتے ہوئے
کہا۔ ہوں ۔ کیا کہا تم نے؟مومنہ نے اوصاف سے دوبارہ سے سوال کیا ، شواف سے
محبت کرتے تھے آپ ؟ اوصاف نے اپنے موبائل کو گھورتے ہوئے کہا ۔ انسان پہلی
شادی بہت شوق سے کرتا ہے۔ جب میں شواف سے ملا تھا۔ شادی کے سلسلے میں مجھے
وہ بہت اچھی لگی تھی۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی لڑکی کو اس طرح سے نہیں
دیکھا تھا۔ شادی کے بعد ہم دونوں کی سوچوں کے اختلاف نے ہمیں ایک دوسرے سے
بہت دور کر دیا۔ وہ تمہاری طرح میرا انتظار تو کرتی لیکن سو جاتی۔ کچھ عرصے
بعد اس نے میرا انتظار کرنا بھی چھوڑ دیا۔ ہم دونوں میں بیزاری سی پیدا ہو
چکی تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے محسوس کیا۔ ہم دونوں ہی نے ایک دوسرے کے
جذبات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
مومنہ نے پھر کہا۔ کیا آپ شواف سے محبت کرتے ہیں ۔ اوصاف نے دھیمے لہجے
میں کہا۔ محبت تو کرتا تھا۔ اس کا احساس اس کے جانے کے بعد ہوا۔ کاش کہ ۔ہم
دونوں ایک دوسرے کو سمجھ پاتے ۔ مومنہ کی انکھوں میں آنسو آ گئے۔ اوصاف
نے مومنہ کی انکھوں میں دیکھا اور کہا۔ جو ہوتا ہے مگر اچھے کے لیے ہوتا
ہے۔ مومنہ نے اوصاف سے کہا۔ اگر آپ یہ سب نہیں کہتے تو بھی میں جانتی تھی
کہ آپ شواف سے محبت کرتے تھے۔ جب آپ مجھے دیکھنے آئے تھے تو آپ کے چہرے
کی افسردگی بتا رہی تھی کہ آپ کس قدر مشکل سے کسی اور کو اپنی زندگی میں
جگہ دینے جا رہے ہیں ۔ اوصاف آپ کے چہرے کی اداسی نے ہی مجھے آپ سے متاثر
کیا۔ میں نے سوچا جو آدمی اپنی پہلی بیوی سے محبت کرتا ہے ۔جو اسے چھوڑ کر
چلی گئی ہے ۔ اس کے دل میں جگہ بنانا اور اس سے محبت پانا بہت آسان ہو گا۔
میں بہت خوش قسمت ہوں کہ آپ مجھے ملے۔
اوصاف نے مسکراتے ہوئے کہا۔عورت کو اللہ تعالی نے مرد سے بہت مختلف بنایا
ہے ۔ عورت چاہے تو آدمی کو اپنے پیارسے بدل سکتی ہے۔ میں کبھی شواف سے اس
طرح باتیں نہیں کرتا تھا۔ تم نے مجھے عادت ڈال دی ہے ۔ جب سے تم سے شادی
ہوئی ہے ،تم کوئی نہ کوئی بات نکال کر مجھ سے بات کیے بغیر کبھی نہ سوتی ہو
نہ سونے دیتی ہو۔ یہاں تک کہ آج میں نے تم سے اپنے دل کی وہ بات بھی کہہ
دی جو میں تم سے نہیں کہنا چاہتا تھا۔ مومنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ کو
اپنے دل میں کوئی بات رکھنی بھی نہیں چاہیے۔ مجھے شواف سے متعلق بھی باتیں
سننے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ اس نے انجانے میں اپنا
سب کچھ مجھے سونپ دیا۔ مجھے اس قدر اچھا شوہر کیسے ملتا اگر وہ گھر چھوڑ کر
نہ جاتی۔
اوصاف نے اداسی سے کہا ۔ مجھے اس کے ماں ، باپ کے لیے بہت افسوس ہوتا ہے۔ان
کی اکلوتی بیٹی تھی وہ ۔ پتہ نہیں کہاں اور کس حال میں ہو گی۔اس کی ماں نے
تو پولیس کو کہا کہ میں نے ان کی بیٹی کو غائب کیا ہے ۔ وہ تو کالونی کے
چوکیدار نے پولیس کو بتایا کہ اس نے شواف کو رات کو اکیلے جاتے ہوئے دیکھا
تھا۔ مومنہ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔ میں آپ
کے لیے کھانا لگاتی ہوں۔ اوصاف نے ایک نظر مومنہ کو دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومنہ پرانی چیزوں کو نکال کر پھینک رہی تھی صفائی کے دوران اسے شواف کی
بہت سی تصاویر ملیں ۔وہ مومنہ سے کئی ذیادہ پرکشش اور خوبصورت تھی۔ مومنہ
نے تصاویر کو ایک شاپر میں ڈال کر الماری کے سب سے اوپر والے حصے میں رکھ
دیا۔ ایسا کرنے کے لیے جب وہ سٹول لے کر چڑھی تو اسے وہاں ایک ڈائری ملی ۔
جو شواف کی تھی۔ اس نے شواف کی ڈائری پر سے دھول مٹی صاف کی اور آ کر اپنے
بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے ڈائری کو کھول کر پڑھنے کا
فیصلہ کیا۔
شواف کی لکھائی بھی اس کی تصاویر کی طرح بہت پیاری تھی۔ یہ ڈائری اس کی
شادی سے پہلے کی تھی ۔ کالج لائف کی تصاویر۔ کچھ شعر ۔ کچھ مرجھائے ہوئے
پھول۔
مومنہ کو جس چیز میں دلچسپی تھی وہ اسے ان شروع کے صفحات سے دور لے گئی اس
نے ڈائری کو آگے آگے کرنا شروع کیا ۔ اس کی نظر اس کی شادی کی تاریخ پر
جا رُکی ۔ جہاں پر اوصاف اور اس کی چھوٹی چھوٹی سی تصاویر لگی تھی ۔ وہ
کافی دیر بنا پلک جھپکائے تصاویر کو دیکھ رہی تھی ۔اوصاف اور شواف کی جوڑی
،میری اور اوصاف کی جوڑی سے کہیں ذیادہ خوبصورت لگ رہی ہے ۔اس نے دل ہی دل
میں سوچا۔اس نے مذید ورق پلٹ کر دیکھنے شروع کیے ۔ اوصاف کا نام لکھا دیکھ
کر وہ رُک کر پڑھنے لگی۔
جاری ہے۔
|