انتہائی دکھ کی بات ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے بر
ما کے مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
مسلمانوں پر مختلف بے بنیاد الزامات عائد کرکے ان کا قتل عام کیا جارہا ہے،
ان کے مکانات، مساجد اور مدارس کو مسمارکیا جارہاہے۔ جدید ہتھیاروں سے لیس
جابر وظالم برمی فوج اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بدقماش روہنگیا بچوں کو
ان کے والدین کے سامنے ا ور والدین کو ان کے بچوں کے سامنے دردناک طریقے سے
ذبح کررہے ہیں، خواتین کی کھلے عام عصمت دری معمول کا واقعہ بن چکی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں پر ایک قیامت برپا ہے اور وہ بدھ دہشت گردوں کے آگے سسک
سسک کر زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ سات لاکھ مربع میل کا حامل جنوب مشرقی
ایشیائی ملک، میانمار( جس کا پرانا نام برما ہے) بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ
کے درمیان گھرا ہوا ہے ، جبکہ اسکے ایک جانب کھلا سمندر ہے۔ 1937ء تک یہ
برصغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا، 1937ء کے بعد برطانیہ نے اسے برصغیر سے
الگ کرکے ایک علیحدہ کالونی کا درجہ دے دیا، اور 1948ء تک یہ علاقہ بھی
برطانوی تسلط کے زیر اثر رہا۔ یہاں پر اسلام کی آمد کے آثار 1050ء سے ملتے
ہیں۔ میانمار کی کل آبادی چھ کروڑ کے لگ بھگ ہے ، جن میں تقریباًساڑھے 22
لاکھ مسلمان ہیں۔ جس میں سے 13 لاکھ روہنگیا مسلمان ہیں، واضع رہے روہنگیا
کسی جگہ کا نہیں بلکہ ایک نسل کا نام ہے، اس نسل کی اکثریت مسلمان اور
تھوڑے سے ہندو ہیں۔سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت صوبے اراکان
میں آباد ہے۔ اس سے بڑا انسانی المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ دو صدیاں قبل
1823ء سے میانمارمیں آباد اور اسی طرح بنگلہ دیش، بھارت اور سعودی عرب میں
مقیم مجموعی 20 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو آج تک کسی ریاست کا شہری تسلیم
نہیں کیا گیا ۔ ان کے تمام انسانی حقوق سلب ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے ان
روہنگیا افراد کو میانمار کے بدھوؤں کی جانب سے بدترین مظالم بشمول انکی
نسل کشی اور انہیں زندہ جلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ میانمار کے بدھ پرست ان
روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی باشندے قرار دیتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش بھی انہیں
اپنے شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔
1978 ء میں جب میانمار( برما) کی فوج نے اقتدار سنبھالا تو جنرل نی ون کی
حکومت نے روہنگیا مسلمانوں پر الزام لگایا کہ یہ بنگالی ہیں اور ان کا
میانمار ( برما) کی دھرتی پر کوئی حق نہیں۔ اس کے بعد تو گویا روہنگیا
مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیے گئے، ایسے ایسے مظالم کیے گئے کہ
انسانیت بھی شرما کر رہ گئی۔ فوجی حکمرانوں کے ایماء پر غریب اور نہتے
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کئی بار آپریشن ڈریگن جیسے ظالمانہ اقدامات کیے
گئے جن میں لاتعداد افراد کو شہید کردیا گیا، اور ان کی املاک کو نقصان
پہنچایا گیا ۔ یہ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوکر رہ گئے ہیں، خوشیاں ان سے
ہمیشہ کے لیے روٹھ گئیں ہیں اور غیر ملکی ہونے کا طعنہ دے کر ان کی زمینیں
ہتھیالی گئیں ، تعلیم ، کاروبار، سرکاری ملازمتوں اور دیگر بنیادی سہولیات
ان سے چھین لی گئیں۔ امن کے دعویدار بدھوں نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ
مسلمان آبادی کے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے۔ شرپسند بدھوں کے
ستائے لاکھوں مسلمان بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر مہاجر کیمپوں
میں آج بھی بے یار ومدد گار پڑے ہیں جبکہ تازہ واقعات نے ان کی تعداد میں
کئی گنااضافہ کردیا ہے، بنگلہ دیش انہیں برمی کہہ کر دھتکارتا رہا ہے تو
میانمار ( برما) کے حکمران انہیں بنگالی کا طعنہ دے کر قبول کرنے کو تیار
نہیں ہوئے، جبکہ ان مظلوموں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے امتی ہیں۔ جبکہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ڈھانے
والے بدھ مت کے پیروکار ہیں جن کے مذہب کے بارے میں یہ پرچار کیا جاتا ہے
کہ یہ امن و عدم تشدد اور صلح وآشتی کا مذہب ہے ۔ لیکن میانمار میں یہ بدھ
مت وحشی درندوں کا روپ اختیار کئے ہوئے ہیں۔بدھ مت کے ماننے والوں نے
میانمار میں ظلم وستم کا ایسا بازار گرم کر رکھا ہے کہ جس کی دنیا بھر میں
کہیں نظیر نہیں ملتی۔ امن کا درس دینے والوں نے سینکڑوں نہتے اور بے گناہ
مسلمانوں کو زندہ جلا ڈالا ہے، مسلمان خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ بھی
جاری ہے، سسکتے بلکتے بچے دریا برد کئے جارہے ہیں۔اور یہ سب جمہوریت کے لئے
جدوجہد کرکے امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی آن سانگ سوچی، جو برما کی
حکمراں ہیں کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والے
افراد کی تعداد 93ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جہاں غذا اور رہائش کی صورتحال
انتہائی ابتر ہے۔جبکہ اس وقت ہزاروں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد عبور
کرنے کے منتظر ہیں، جبکہ بنگلہ دیش میں مہاجر کیمپ پہلے ہی بھر چکے ہیں۔
چین اس وقت 30ہزار روہنگیا مسلمانوں کو اپنے کیمپوں میں پناہ دے چکا ہے،
چین نے میانمار حکومت کو پیش کش بھی کی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملہ
پر بنگلہ دیش کیساتھ انکے معاملات حل کر وا سکتا ہے لیکن میانمار حکومت نے
چینی پیشکش مسترد کر دی ۔ پاکستان میں بھی تقریباً 2 لاکھ سے زائد روہنگیا
مسلمان مقیم ہیں جو مختلف وقتوں میں پاکستان آئے تھے۔
بدقسمتی سے میانمار ( برما) تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ایک انتہائی اہم
سٹریٹیجک لوکیشن پر واقع ہے۔ جہاں چین اور بھارت اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی
تگ و دو کر رہے ہیں اور چین اپنی بے پناہ سرمایہ کاری کی بدولت بھارت پر
حاوی ہے۔ میانمار میں چینی اثر و رسوخ امریکہ کیلئے ناقابل برداشت ہے،
امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر وہ میانمار
میں ڈیرے ڈال لے، یوں نہ صرف وہاں تیل و گیس کے محفوظ ذخائر سے استفادہ کر
سکے گا بلکہ چین کی ناکہ بندی بھی کر سکے گا۔ جبکہ میانمار میں روہنگیا
مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ اور دوسری بڑی
طاقتوں نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے گونگے اور بہرے ہونے کا ثبوت دیا
ہے ، اور صرف زبانی احتجاج ریکارڈ کروایا ہے ، جبکہ ان حالات میں تو ضروری
ہے کہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی جاتیں ۔ آ خر میانمار کے
روہنگیا مسلمان اپنی فریاد کس سے اورکیسے کریں؟ کچھ بچوں نے مل کر میانمار
کے در و دیوار پر لکھا ہے کہ خون مسلم اتنا ارزاں کیوں ؟ ہماری طرف محمد بن
قاسم، طارق بن زیاد، سلطان صلاح ایوبی اور خالد بن ولید کب آئیں گے؟ انہوں
نے اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریروں میں پوچھا ہے کہ کیا زندہ انسانوں میں ایسا
کوئی مسیحا ہے جو ہمارا چارہ گربنے؟ نہایت دکھ اور شرم کا مقام ہے کہ برما
کے مسلمانوں کے گلے کٹ رہے ہیں، زندہ مسلمانوں کو سمندر میں پھینکا جارہا
ہے، غریب مسلمانوں کے گھر اور مساجد جل رہی ہیں، مگر پورے اقوام عالم میں
کوئی بھی تو ایسا نہیں جو ان ظالموں کا ہاتھ روک سکے، ان کے بدترین ظلم سے
روہنگیا مسلمانوں کو امن دلاسکے۔ ہائے افسوس کہاں ہیں حقوق انسانی کے علم
بردار! ، کہا ں ہیں اقوام مسلم کے 58 سے زیادہ ملکوں کے حکمران!، یہ اقوام
متحدہ اور اوآئی سی کہاں ہے!،کیا ان مظلوم مسلمانوں کو دنیا میں پرامن طور
پر جینے کا کوئی حق حاصل نہیں ، آخر کیوں انسانی حقوق کے علم برداروں کو
سانپ سونگھ کیا ہے۔ سب سے زیادہ دکھ اور شرم کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک
کو مظلوم روہنگیا مسلمان بھائیوں کی فلک شگاف چیخیں سنائی نہیں دے رہیں اور
مسلمان حکمران اپنے اقتدار کے نشے میں دھت ہیں۔ اس سلسلے میں صرف ترکی ہی
نے بین الاقوامی سطح پر میانمار کے لئے آواز بلند کی ہے۔ اے اقوام مسلم کے
حکمرانوں خدارا جاگ جاؤ۔ آج ضرورت ہے کہ ان بلوائیوں کے ظلم سے ، ان دہشت
گرد بدھوں کی فرعونیت سے مسلمانوں کو امان دلائی جائے۔ میانمار ( برما) سے
سفارتی تعلقات منقطع کرکے اور اقتصادی پابندیاں لگا کر مسلم کش ظالموں کو
ایسا سبق سکھایا جائے جو رہتی دنیا تک ان کو یاد رہے، تاکہ کوئی بھی قوم
نہتے بے گناہ مسلمانوں پر ظلم و بربریت رواء نہ رکھ سکے۔
٭……٭……٭ |