تعلیم ،تملّ ،سیکھنا ،اس پرُ مشقت راستے کا نام ہے جس پہ
چل کر ہی کامیابی اور خوشحالی قدم چومتی ہے ،ہر انسان کے ہاں کامیابی کے جس
طرح مختلف معیار اور پیمانے ہوتے ہیں،ویسے ہی سیکھنے اورعلم حاصل کرنے کے
مختلف میدان اور شعبے ہوتے ہیں ،لیکن تعلیم کے ہر شعبہ میں یکسانیت ناگزیر
ہے ،اگر تعلیم اور تعلیمی اداروں میں طبقاتی تفریق ہو تو وہاں سے پڑھ کر
سماج میں آنے والی نوجوان نسل بھی ایک غیر متوازن اور غیر ہم آہنگ سوچ وفکر
کی حامل ہوگی ،جب کہ متوازن اور یکساں نظام تعلیم کے ذریعے بلند افکار اور
یکسو نوجوان نسل وجود میں آتی ہے جو قوم کی قیادت کی نہ صرف اہل ہوتی ہے
بلکہ اقوام عالم میں قوم و ملت کا سر فخر سے بلند کرنے کا باعث بھی ہوتی
ہے۔بلاشبہ تعلیم اور درسگاہ کی تربیت سماج پر براہ راست اثر اندا زہوتی ہے
،قوموں کی خوشحالی و بدحالی ،عروج وزوال کا درسگاہ ،تعلیم اور معلّم کے
ساتھ براہ راست تعلق ہے ،چینی زبان میں کہاوت ہےکہ ’’خوش حالی کے لیے اگر
ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ،اگر ایک سو سال کی منصوبہ
بندی کرنی ہے تو درخت اگاؤ،اور اگر ایک ہزار سال تک قوموں کے آگے وقار سے
سر اٹھا کر چلنا ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ۔ ‘‘مگر نہایت افسوس کے ساتھ
آزادی کے ستر سال بعد بھی ہم نے طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرکے ایک یکساں
اور قومی و ملی ترجیحات سے ہم آہنگ نظام تعلیم رائج نہیں کر سکے ہیں ،جس کا
نتیجہ آج ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں ،کہ شرح خواندگی 30 فیصد سے کم ہو کر
18 فیصد پر آ پہنچی ہے جب کہ معیاری تعلیم ہمارے نوجوانوں کےلئے ابھی تک
ایک خواب ہے بالخصوص غریب نوجوانوں کو عام تعلیم اور فنی تعلیم کی سہولتیں
ضرورت کے مطابق حاصل نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو بساط وقوت سے بہت دور ،جب کہ
درس گاہ میں طلبہ کوحصول علم کے ساتھ ساتھ بہتر اخلاقی تربیت کی تربیت نا
پید ہو چکی ہے ،مزید یہ کہ تعلیم کمرشل لائیز ہونے کی وجہ سے تربیت اور ذہن
سازی سے عاری صرف چند ضابطوں کا نام رہ گئی ہے ،جس کی وجہ سے آج کی نوجوان
نسل بے راہ روی اور منفی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو تی جارہی ہے جبکہ ہمارے
کالجز اور یونیورسٹیاں اپنے حقیقی مقصد سے کوسوں دور محض ڈگریاں تقسیم کرنے
والے اداروں کیسی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔مستزاد یہ کہ سماج میں پھیلی
افتراق و انتشار ،سیاسی ،گروہی ،لسانی اور مذہبی تفریق نے جلتی پر تیل کا
کام دیتے ہوئے ملک دشمن عناصر کے لیے ،ان کے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لیے
ایندھن کے طور پر، یہ پڑھا لکھا مگر منتشر اورپراگندہ فکر کا نوجوان
استعمال ہونے لگا ،چاہیے وہ صولت مرزا اورنورین لغاری کی صورت میں ہو یا
حسان اسرار،سعد عزیزاور اظفر عشرت کی صورت میں ۔اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ
کوئی تعلیمی ادارہ چاہیے وہ علوم دینیہ واسلامیہ کی جامعہ یا مدرسہ ہو یا
علوم عصریہ و فنیہ کی یونیورسٹی و کالج ،ہر دوسرا ادارہ کسی بھی طرح ان غیر
ریاستی سرگرمیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ،جس کی گواہی ڈی جی رینجرز سندھ
میجر جنرل محمد سعید نے اپنے ایک حالیہ بیان میں دیتے ہوئے کہاکہ طلبہ کو
دہشت گرد بنانے میں تعلیمی اداروں کا کوئی کردار نہیں۔
اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ جہاں سماج ،والدین کی عدم توجہ اور غلط مراسم
غیر شعوری طور پر نوجوان طلبہ کوبے راہ روی اور غیر ریاستی عناصر کا الہ
کار بنا دیتے ہیں وہیں غیر متوازن اورطبقاتی تقسیم در تقسیم کا شکار نظام
تعلیم ،عدم مساوات اور میرٹ شکنی طلبہ میں مایوسی اور احساس محرومی کو جنم
دے کر غلط راستوں پر دھکیل دیتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مقتدر ادارے جنگی
بنیادوں پر تعلیمی اصلاحات اور ریفارمزکے ذریعے پاکستان کے مستقبل کو محفوظ
بنانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں ،اسی میں امن اور استحکام وطن کا را ز
مضمر ہے۔
|