تعلیم
کے معنی ہیں کسی کو کچھ بتانا، پڑھانا، سکھانا، تلقین کرنا یا رہنمائی
کرنایعنی طلبہ کو لکھنا پڑھنا یا حساب وغیرہ سکھانا یا کوئی مضمون اور کتاب
پڑھا دینا۔ عام طور پر تعلیم کو انگریزی کے لفظ ایجوکیشن کے ہم معنی سمجھا
جاتا ہے۔ لفظ ایجوکیشن در اصل لاطینی لفظ ایڈو کو (educo)سے اخذ کیا گیا ہے
جس کا مطلب ہے کسی انسان یا جانور کے بچے کو خصوصی توجہ اور نگہداشت کے
ساتھ پال پوس کر بڑا کرنا۔ اس مناسبت سے ایجوکیشن کا مطلب ہوگا کسی بچے کی
پرورش ، اور اس کی دماغی ، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرنا۔ اس طرح ہم یہ کہہ
سکتے ہیں کہ ایجوکیشن کا مفہوم صرف تعلیم سے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت سے
پورا ہوتا ہے۔تعلیم ہی سے کسی بھی انسان کی صحیح معنوں میں ذہنی اور روحانی
نشونما اور بہتر تربیت ہوسکتی ہے ۔تعلیم کی ہی بدولت انسان صحیح اور غلط کی
تمیز کر سکتا ہے۔قرآن کریم میں ہے :ترجمہ:’’جاہل اور عالم کبھی بھی برابر
نہیں ہو سکتے۔‘‘تعلیم کی موجودگی ہی کسی شخص کو عالم اور سلجھا ہوا ،ایک
مہذب شہری بناتی ہے اور اسی کی غیر موجودگی ہی کسی بھی شخص کے جاہل اور بے
شعور ہونے کی ذمہ دار ہے۔تعلیم کی بدولت ہی انسان ایک مہذب انسان کہلوانے
کا حق دار ہے۔یہ تعلیم کی موجودگی ہی اس کو اپنی زندگی کے بہتر فیصلے کر نے
میں مدد دے سکتی ہے،اچھائی اور برائی کی وضاحت کرتی ہے ،انسان کو اپنی
زندگی گزارنے کا بہتر پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے ، انسان میں تمیز پیدا کرتی
ہے، بزرگوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کرنے کا درس دیتی ہے،لوگوں میں
محبت،خلوص،دوستی اور امن پیدا کرنے کا پیغام دیتی ہے۔تعلیم کے نا ہونے سے
نفرت،طبقاتیت ،خلوص و محبت کی بجائے ناراضگی،نفرت،حسد اور کینہ جیسی
بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔اسی لیے تعلیم کا اصل مقصد صرف حصول تعلیم ہی نہیں
بلکہ بامقصد اور معیاری تعلیم ہے جو نا صرف خود کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے
بھی روزگار کا ذریعہ بنتی ہے اور انہیں درست رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
آج ہم تعلیم کی ضرورت کو تو بہتر طریقے سے سمجھ رہے ہیں مگر اس کے اصل معنی
اور مقصد کوفراموش کر چکے ہیں۔آج ہمارا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول
ہے۔آج ہماری تعلیم کا حقیقی مقصد صرف بہتر روزگار کی تلاش ہے۔ہم آج تعلیم
کو مختلف طبقات میں تقسیم کر چکے ہیں اور ان طبقات کے ساتھ بھی ہم نے
روزگار جوڑ رکھے ہیں۔میٹرک امتحان کے بعد طلبہ کی یہ سوچ بن جاتی ہے کہ وہ
کونسی فیلڈ ہوگی جومیری پوری زندگی کو پیسوں سے بھر کر رکھ دے گی؟ایسی
کونسی تعلیم ہوگی جس سے میں پوری زندگی عیش وعشرت سے گزار سکوں گا؟ایسی
کوئی تعلیم مل جائے جو مجھ کو پوری دنیا سے زیادہ امیر بنا دے۔اسی لیے
تعلیم حاصل کرتے ہوئے اخلاق،اخلاص، صلہ رحمی، مروت، بھائی چارگی ،ہمدردی
اور انسانیت جیسے اوصاف سیکھنے کی بجائے اسٹوڈنٹس کا فوکس صرف اچھے گریڈیا
اچھے نمبروں پر ہوتا ہے۔اس کے قصور وار کچھ حد تک تعلیمی ادارے بھی ہیں،جب
ایک طالب علم اپنے والدین کو دیکھتا ہے کہ ڈونیشن اور فیس کی ادائیگی کی
خاطر کس طرح اس کے والدین گھر بار،زیورات اورجائیداد فروخت کرکے اس کا
ایڈمیشن کروارہے ہیں تو کہی نہ کہی اس کے دل میں یہ بات موجود رہتی ہے کہ
یہ تمام چیزیں فراغت کے بعد میں گھر والوں کو سود سمیت واپس کروں گا اور
یہی منفی سوچ معاشرے کے لیے مضر ثابت ہوتی ہے ۔
والدین اپنے بچوں کو اسی لیے تعلیم دلاتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر کمانے کھانے
کے قابل ہو جائیں۔ بلا شبہہ کھاناکمانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ والدین
کو اس بات کی فکر ہونی بھی چاہیے کہ بچہ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا
ہوسکے۔ مگر کیا صرف پیٹ بھرنا اور زندگی کی دوسری ضرورتوں کو پوری کرنا ہی
تعلیم کا بنیادی مقصد قرار دینا مناسب ہے ؟ ایسا کرنے سے بچہ معاشی حیوان
تو بن سکتا ہے ، اچھا انسان ہر گز نہیں بن سکتا۔ اچھا انسان بنانے کے لیے
حق اور نا حق ، جائز اور ناجائز میں تمیز سکھانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کرانا بھی ضروری
ہے۔ اس پہلو کو نظر انداز کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمیں اکثر ایسے افراد سے
سابقہ پڑتا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا ماہر فن ہونے کے باوجود اخلاق
وکردار کے اعتبار سے بہت پست ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ سماج کے لیے مفید ہونے کے
بجائے مضر ثابت ہوتے ہیں۔
آج کے دور کے انسان کی مادی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اس نے چاند اور مریخ تک
جانے کا خواب پورا کر لیا۔ مگر اس کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ جنسی
آزادی اور ہم جنس پرستی کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اس گھناؤنے فعل
کو قانون کا تحفظ فراہم کر دیا۔عالمی بھائی چارہ تو دور کی بات ہے ، خون
اور خاندان کے رشتے منتشر ہو رہے ہیں۔ بھائی ،بھائی کے خون کا پیاسا
ہے۔ہمارے موجودہ تعلیمی نظام نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر
دیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی اس دنیا کو خطرے سے بچا سکتا ہے
تو وہ یہی بچے ہیں جو ہماری تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر ہم
چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں دنیا کو تباہی سے بچائیں تو ہم سبھی
کوبالخصوص ٹیچرس،والدین اور اسکول انتظامیہ کا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کی
تعلیم کی عمارت کی بنیاد خدا شناسی پر رکھیں۔ بہت چھوٹی عمر میں جب ہم
انہیں حروف شناسی کراتے ہیں تبھی ہم انہیں خدا شناسی بھی کرائیں۔ بڑھتی
ہوئی عمر کے ساتھ تدریجی انداز میں خالق اور مخلوق کی حیثیت اور ان کے
درمیان کے رشتوں کے بارے میں بچوں کے جذبہ تجسس کو ہوا دیں تاکہ وہ بچے
پختہ عمر تک پہنچتے ہی ہماری رہنمائی میں اپنے خالق کو خود دریافت کرلیں۔
اس طرح خالق کی پوری کائنات اس کے تصرف میں آجائے گی۔ اب اس کی منزل چاند
ستاروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری کائنات کی تسخیر اس کا ہدف ہوگا،
مگر مقصد بدل چکا ہوگا۔ اب اس کی تلاش و جستجو حاکمیت اور ملوکیت کے لئے
نہیں بلکہ انسانی فلاح اور خالق کی خوشنودی کے لیے ہوگی۔ |