اثاثہ

سوشل میڈیا پرپنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا ایک بیان آج نظر سے گزرا۔ فرماتے ہیں کہ اس سال یونیورسٹی کے تمام داخلے میرٹ پر ہونگے۔بہت سے روایتی لوگوں کے واہ واہ طرز کے بیانات بھی تھے۔ اس بات کو کسی نے شاندار اور کسی نے انقلابی قدم قرار دیا۔کیا کیا جائے اس ملک میں صدیوں بدیسی حکمرانوں نے حکومت کی ہے جس کے نتیجے میں ہماری نسلیں غلامی کی عادی ہو گئی ہیں۔ہمیں سچ کہنا نہیں آتا۔ ہمارا سچ وہی ہے جو حکمرانوں کو پسند ہوتا ہے ۔لگتا ہے کہ ہم لوگ خدمت کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں۔

مجھے پنتالیس سال پڑھاتے ہو گئے ہیں۔پچھلے بیس سال میں کوئی بچہ میرٹ سے ہٹ کر داخلہ نہیں لے سکا۔ اس سے پہلے بھی میرٹ پوری طرح قائم تھا ۔مگر وہ ایسا وقت تھا جب کچھ لوگوں کے لئے بہت سی گنجائش رہتی تھی اور یہ گنجائش اگر ضرورت ہو تو ادارے کے سربراہ کی ملی بھگت سے لوئر سٹاف پیدا کرتا تھا۔ اب سختی ہے اور کوئی بھی رسک نہیں لیتا۔ عزت اور نوکری دونوں خطرے میں ہوتی ہیں۔ماضی کے حوالے سے میرٹ کی خلاف ورزی کے بہت سے واقعات یاد آتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔

80 کی دہائی میں ایک کالج میں داخلہ شروع تھا۔ میرٹ لسٹ جس میں ہیرا پھیری کی عام طور پر گنجائش نہیں ہوتی لگ چکی تھی۔ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں داخلے کے انٹریو جاری تھے۔ان سرگرمیوں کے لئے شاید پندرہ فیصد کوٹہ ہوتا تھا۔ پہلا غلط کام یہ کیا جاتا تھا کہ وہ تمام بچے جو کسی وجہ سے فیس جمع نہیں کراتے تھے ان کی خالی سیٹیں بھی ہم نصابی اور غیر نصابی کے کوٹے میں شامل کر دی جاتی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سفارشی جگہ پائیں۔ہیرا پھیری کا سارا زور انہی سیٹوں پر خرچ ہوتا ہے۔ یوں یہ کوٹہ بیس سے پچیس فیصد تک پہنچ جاتااورکالج کے ہر بااثر استاد کے لئے دو تین بچے داخل کرانے کی گنجائش ہوتی۔

فٹ بال کے کھلاڑیوں کے لئے ایک چار رکنی کمیٹی ،جس کے سربراہ ایک پروفیسر اور ممبران ایک اسسٹنٹ پروفیسر اور دو لیکچرر تھے، انٹریو کر رہی تھی۔ کسی کام کے لئے پرنسپل نے پروفیسر صاحب کو بلایاتو وہ ساتھیوں کو انٹریو جاری رکھنے کا کہہ کر چلے گئے۔ دو تین انٹریوز کے بعد ایک معذور لڑکا جس کی دونوں ٹانگیں کام نہیں کر رہی تھیں گھسٹا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ اسسٹنٹ پروفیسر جو وقتی طور پر انچارج تھے، بولے ، بیٹا فٹ بال کے لئے انٹریو دینے آئے ہو۔ بچے نے بڑے اعتماد سے کہا جی ہاں۔ پاگل ہو ، تم فٹ بال کھیل سکتے ہو۔ بچہ بولا،سر میں آپ کے محلے کے امام مسجد فلاں مولوی صاحب کا بیٹا ہوں، آپ ہی نے تو ابا جی کو فٹ بال میں اپلائی کرنے کا کہا تھا۔ وہ ناراض ہو گئے ، میرا نام مت لو اور چلو بھاگو یہاں سے، پاگل کہیں کے۔ پھر ایک ساتھی لیکچرار کو کہا کہ جاؤ اسے کالج سے باہر نکال کر آؤ۔ فٹ بال کی بنیاد پر داخلہ لینے آیا ہے۔ اس کے ساتھ جو ہے دونوں کوجب تک کالج سے باہر نہ نکال لو واپس نہیں آنا ۔لیکچرر صاحب اسے نکالنے چلے گئے اور اس دوران وہ کمرے کے دروازے پر بڑے جلالی انداز میں انتظار میں کھڑے بچوں اور ان کے والدین کو اس کے احمق پن کی داستان سناتے رہے۔

لیکچرر صاحب بچے کو کالج سے باہر نکال کر واپس آئے۔ اب پروفیسر صاحب کے جلالی انداز میں یکدم تبدیلی آئی۔ کہنے لگے ، بڑے شریف اور غریب لوگ ہیں۔ کمبخت نے وقت پر صحیح بتایا ہی نہیں ورنہ معذوروں کے کوٹہ میں آ جاتا۔ اب وہاں اس نے اپلائی ہی نہیں کیا۔ مگر میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو اور کسی سے ذکر بھی نہ کریں تو سمجھیں یہ بڑا نیکی کا کام ہے۔ دونوں لیکچررز نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں اور وہ کسی سے ذکر بھی نہیں کرینگے۔ انہوں نے لڑکے کے داخلہ فارم پر لکھا، انتہائی اچھا کھلاڑی، امید ہے اگلے سالوں میں کالج کا بہترین اثاثہ ثابت ہو گا۔ دو دن بعد کھلاڑیوں کی لسٹ میں اس اثاثے کا نام تھا ۔

90 کی دہائی میں حکومت نے سختی کر دی۔انٹرویو کی بجائے میدان میں کھلاڑیوں کو چیک کیا گیا۔حکم تھا کہ ہر کھیل کی لسٹ علیحدہ لگائی جائے اور اسی وقت میدان ہی میں لوگوں کو منتخب بچوں کا بتا دیا جائے ۔ایک سلیکشن کے دوران کمیٹی کے ارکان میں سے ایک کا بہت قریبی عزیز بھی کھیل رہا تھا۔ اس عزیزنے بہت کوشش کی کہ کسی طرح گیند اس کی ٹانگوں کوبھی چھوکر گزر جائے اس نے بہت اچھل کود کی مگر گیند بالکل نہیں مانا۔ پندرہ بیس منٹ بعد لسٹ لگی تو اس کا نام موجود تھا۔ لوگ شور مچانے لگے کہ یہ لڑکا جس کی شکل بھی گیند نے نہیں دیکھی کیسے شامل ہے۔ کمیٹی کے ممبران موقع سے غائب ہو گئے۔عزیز داری کے سبب جس نے نام ڈالا تھا اکیلالوگوں مطمن کرنے لگا۔ لوگوں پھٹ پڑے ، اس کے کپڑے پھاڑ دئیے، مارا پیٹا۔ بڑی مشکل سے اس کی جان چھڑائی گئی اورنئی لسٹ لگا کر لوگوں کو مطمئن کیا گیا۔

اس سختی کے دور میں بھی فنکار لوگ اپنا کام کرتے رہے۔ میری بیٹی نے میٹرک کیا۔ میں لاہور کے ایک گرلز کالج میں اسے داخلہ دلوانا چاہتا تھا۔ میرٹ شاید 740 تھا اور اس کے نمبر چار یا پانچ کم تھے ۔ کوشش کے باوجود کچھ نہ ہوا۔پرنسپل صاحبہ بضد تھیں کہ وہ میرٹ سے ہٹ کر کوئی داخلہ نہ کرتی ہیں اور نہ کر سکتیں ہیں۔ پندرہ دن بعد پتہ چلا کہ میری بچی کی ایک کلاس فیلو جس کے نمبر چار سو سے کچھ زیادہ تھے داخل ہو گئی ہے۔ میں نے شور مچایا مگر کوئی ماننے کو تیار نہ تھا۔ میرے انکوائری کرنے کے بعد پتہ چلا کہ بیس کے قریب بچوں سے چار اور پانچ لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد ان کا نام حاصل کردہ نمبر تبدیل کرکے میرٹ لسٹ میں شامل کئے گئے تھے۔ یہ ایک انتہائی بد دیانتی کا کیس تھا۔داخلہ دینے والے اور داخلہ لینے والے بہت با اثر تھے۔ میں نے ثبوتوں کے ساتھ سب جگہ دوڑ دھوپ کی گئی مگر اس ملک کے با اثر لوگوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

مجھے فخر ہے کہ اصلی میرٹ اگر کہیں ہے تو فقط تعلیم کے شعبے میں ۔ دوسرے شعبوں میں میرٹ کا بس اﷲ ہی حافظ ہے ۔ ا سکی تازہ ترین مثال جناب مشتاق سکھیرا ہیں۔ کہتے ہیں ٹیکس محتسب کے لئے حکومت نے اپنے کچھ پیاروں کے نام شارٹ لسٹ کئے اور پھر ان سب کا باقاعدہ انٹرویو کیا گیا۔سکھیرا صاحب واحد آدمی تھے جنہوں نے زندگی میں دو چار دفعہ اپنی ٹیکس ریٹرن خود بھری تھی اور انہیں ٹیکس کا بارے کچھ پتہ بھی تھا ۔باقی سب نے شارٹ لسٹ لوگوں نے ٹیکس فارم کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی، ٹیکس دینا تو بہت دور کی بات ہے۔اندھوں میں ہمیشہ کانا ہی میرٹ پر آتا ہے۔ یہ حکمرانوں کاخوبصورت میرٹ ہے اور حکمرانی کا میرٹ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔یہ محکمہ تعلیم تو نہیں کہ میرٹ اپنے اخلاقی معیار پر بھی پورا اترتا ہو۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500557 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More