فراغت نماز کے بعد جب ان کا نام دریافت کیا تو جواب دیا
کہ عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا اصلی
نام بتائیے۔ آپ نے جواب دیا کہ اویس ہے۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ اپنا ہاتھ دیکھائیے۔ انہوں نے جب ہاتھ دیکھایا تو حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ نشانی کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےدست
بوسی کی۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس مبارک پیش کرتے ہوئے
سلام پہنچا کر امت محمدی کے حق میں دعا کرنے کا پیغام بھی دیا۔ یہ سن کر
حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ آپ اچھی طرح خوب دیکھ فرما
لیں شائد وہ وئی دوسرا فرد ہو جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
نشاندہی فرمائی ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نشانی کی نشان دہی
فرمائی ہے وہ آپ میں موجود ہے۔ یہ سن کر حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے
عرض کیا کہ اے عمر تمہاری دعا مجھ سے ذیادہ کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ نے
فرمایا میں تو دعا کرتا ہی رہتا ہوں۔ البتہ آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی وصیت پوری کرنی چاہیے۔ چنانچہ حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس مبارک کچھ فاصلے پر لے جا کر اللہ
تعالی سے دعا کی کہ یا رب جب تک تو میری سفارش پر امت محمدی کی مغفرت نہ کر
دے گا میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس ہرگز نہیں پہنوں گا۔
کیوں کہ تیرے نبی نے اپنی امت کو میرے حوالے کیا ہے۔ چنانچہ غیب کی آواز
آئی کہ تیری سفارش پر کچھ افراد کی مغفرت کر دی گئ۔ اسی طرح آپ مشغول دعا
تھے۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے پاس پہنچ
گےاور جب آپ نے سوال کیا کہ آپ دونوں حضرات کیوں آ گئے۔ ؟ میں تو جب تک
پوری امت کی مغفرت نہ کروا لیتا اس وقت تک یہ لباس نہ پہنتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو ایسے کمبل کے لباس میں دیکھا جس کے نیچے
تونگری کے ہزاروں عالم پوشیدہ تھے یہ دیکھ کر آپ کے قلب میں خلافت سے
دستبرداری کی خواہش پیدا ہوئی۔ اور فرمایا کہ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو روٹی
کے ٹکڑے کے بدلے میں مجھ سے خلافت خرید لےیہ سن کر حضرت اویس قرنی رحمتہ
اللہ علیہ نےکہا کہ کوئی بیوقوف شخص ہی خرید سکتا ہے۔ آپ کو تو فروخت کرنے
کی بجائے اٹھا کر پھینک دینا چاہیے پھر جس کا جی چاہے گا اٹھا لے کا۔ یہ
کہہ کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس پہن لیا اور فرمایاکہ
میری سفارش پر بنوربیعہ اور بنو مضر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر اللہ
تعالی نے لوگوں کی مغفرت فرما دی اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہ کرنے کے متعلق سوال کیا تو
آپ نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ دیدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے
ہیں تو بتائیے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابرو کشادہ تھے یا
گھنے؟ لیکن دونوں صحابہ جواب سے معذور رہے۔
حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نےکہا کہ اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
دوستوں میں سے ہیں تو یہ بتائیے کہ جنگ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
کون سا دانت مبارک شہید ہوا تھا اور آپ نے اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
میں اپنے تمام دانت کیوں نہ توڑ ڈالے؟ یہ کہہ کر اپنے تمام ٹوٹے ہوئے دانت
دیکھا کر کہا کہ جب دانت مبارک شہید ہوا تو میں نے اپنا ایک دانت توڑ ڈالا
پھر خیال آیا کہ شائد کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو اسی طرح ایک ایک کر کے
جب تمام دانت توڑ ڈالے اس وقت مجھے سکون نصیب ہوا۔ یہ دیکھ کر دونوں صحابہ
پر رقت طاری ہو گئی اور یہ اندازہ ہو گیا کہ پاس ادب کا حق یہی ہوتا ہے گو
حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ دیدارنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف نہ ہو
سکے لیکن اتباع رسالت کا مکمل حق ادا کر کے دنیا کو درس ادب دیتے ہوئے رخصت
ہو گئے۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے اپنے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے
کہا کہ نماز میں التحیات کے بعد یہ دعا کیا کرتا ہوں۔ اللہم اغفرللمومنین
والمومنات اے اللہ تمام مومن مردوں عورتوں کو بخش دے اور اگر ایمان کے ساتھ
تم دنیا سے رخصت ہوئے تو تمہں سرخروئی حاصل ہو گی۔ ورنہ میری دعا بے فائدہ
ہو کر رہ جائے گی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے وصیت کرنے کے لئے فرمایا تو آپ نے کہا اے
عمر اگر تم خدا شناس ہو تو اس سے زیادہ افضل اور کوئی وصیت نہیں کہ تم خدا
کے سوا کسی دوسرے کو نہ پہچانو پھر پوچھا کہ اے عمر کیا اللہ تعالی تم کو
پہچانتا ہے آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ بس
خدا کے علاوہ تمہیں کوئی نہ پہچانے یہی تمہارے لیے افضل ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواہش کی کہ آپ کچھ دیر اسی جگہ قیام فرمائیں میں
آپ کے لیے کچھ لے کر آتا ہوں تو آپ نے سے دو درہم نکال کر دکھاتے ہوئے کہا
کے یہ اونٹ چرانے کا معاوضہ ہے اور اگر آپ یہ ضمانت دیں کہ یہ درہم خرچ
ہونے سے پہلے میری موت نہیں آئے گی تو یقینا آپ کا جو جی چاہے عنایت فرما
دیں ورنہ یہ دو درہم میرے لیے بہت کافی ہیں۔ پھر فرمایا یہاں تک پہنچنے میں
آپ حضرات کو جو تکلیف ہوئی اس کے لئے میں معافی چاہتا ہوں اور اب آپ دونوں
واپس ہو جائیں کیوں کہ قیامت کا دن قریب ہے اور میں زاد آخرت کی فکر میں
لگا ہوا ہوں۔ پھر ان دونوں صحابہ کی واپسی کے بعد جب لوگوں کے قلوب میں اں۔
حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کی عظمت جاگزیں ہوئی اور مجمع لگنے لگا تو
آپ گبھرا کر کوفہ میں سکونت پزیر ہو گئے اور وہاں پہنچنے کے بعد بھی حرم بن
حبان کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے نہیں دیکھا کیوں کہ جب سے حرم بن حبان نے
آپ کی شفاعت کا واقعہ سنا تھا اشتیاق زیارت میں تلاش کرتے ہوئے کوفہ پہنچے۔
اللہ پاک ہمیں حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق
عطافرمائے۔ آمین۔
|