پچاس سال پہلے کا قرض کس طرح چکائیں؟

قرض میں بے ایمانی اور ٹال مٹول کی وجہ سے آج بہت سے لوگ ایک دوسرے کو قرض دینے سے انکار کرتے ہیں مگر ایماندار وں کی بھی کسی زمانے میں کمی نہیں رہی ہے وہ بے ایمانی اور ٹال مٹول کی پرواہ کئے بغیر ضرورتمندوں کو قرض دیتے رہے ہیں ۔ یہ مومن کی ایک اچھی صفت ہے ۔ہم میں سے جسے بھی اﷲ نے ضرورت سے زائد مال دیا ہے اس سے ضرورتمندوں کی مدد کرے ۔ زکوۃ وخیرا ت تو اپنی جگہ ہے ہی ، سماج میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو فقراء ومساکین میں شمار نہیں ہوتے ، وہ محنت کرکے کھاسکتے ہیں ایسے لوگ اگر تجارت یا ضرورت کے تحت مالداروں سے قرض مانگے تو قرض دینا چاہئے ۔ اگر قرض دینے میں اطمینان قلب چاہئے تو ضمانت کے طور پر کچھ رکھ لے یا کسی بھروسے مندآدمی کو گواہ بنالے ۔ اس مضمون میں آپ کو ایک سائلہ کا جواب بیان کررہاہوں جو پچاس سال پہلے لئے گئے قرض کی واپسی کا طریقہ پوچھ رہی ہیں ۔

سائلہ نے پوچھا ہے کہ" آج سے پچاس سال پہلے ایک فوت شدہ انسان نے کسی سے ساڑھے آٹھ ہزار روپے کی رقم ادھار لی تھی اب اس کے لواحقین اس کا قرض اتارنا چاہتے ہیں اور ان کا سوال یہ ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے اس رقم کی ویلیو یقیناً کم تھی اور آج کے دور میں اس رقم کی ویلیو بڑھ چکی ہے تو کیا قرض اتنا ہی ادا کرنا ہے جتنی رقم تھی یا پھر زمانے کی ویلیو کے مطابق ادا کرنا ہوگا؟"

اس سوال میں کئی پہلو ہیں ان سب کا جواب جاننا یہاں ضروری ہے ۔
(۱)پہلی بات یہ ہے کہ قرض لینے والا جس قدر ہوجلدی سے جلدی قرض واپس کردے ۔ موت کا وقت کسی کومعلوم نہیں ممکن ہے قرض کی واپسی کئے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس کے ذمہ یہ قرض رہ جائے ، اس صورت میں یوم حساب اس میت کی نیکی (قرض کے برابر)لے کر قرض دینے کو دے دی جائے گی اور یہ بھی جالیں کہ جان بوجھ کرقرض میں ٹال مٹول کرنے والا ظالم ہے ،اگر بروقت قرض کی واپسی میں دشواری ہورہی ہوتو قرض دینے والے سے مہلت طلب کرے ۔ قرض دینے والے کو بھی مقروض کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہلت اور عفو سے کام لینا چاہئے۔
(۲)دوسری بات یہ ہے کہ جس کسی نے قرض لیا ہو اس کی وفات پہ سب سے پہلے قرض کی ادائیگی ہونی چاہئے ، نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے سے پہلے پوچھتے کہ کیا اس پہ کوئی قرض ہے ؟ کیا اس نے ترکہ چھوڑا ہے ؟ قرض ہوتا توترکہ سے پہلے قرض کی ادائیگی کا حکم دیتے ، ایک شخص کا جنازہ لایا گیا اس کے ذمہ قرض تھامگر ترکہ میں کچھ نہیں چھوڑا تھا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا جب ایک صحابی نے اپنے ذمہ قرض کی ادائیگی لے لی تو آپ نے جنازہ پڑھایا۔ سلمہ بن اکوع رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ أُتِیَ بِالثَّالِثَۃِ فَقَالُوا صَلِّ عَلَیْہَا قَالَ ہَلْ تَرَکَ شَیْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَہَلْ عَلَیْہِ دَیْنٌ قَالُوا ثَلَاثَۃُ دَنَانِیرَ قَالَ صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ قَالَ أَبُو قَتَادَۃَ صَلِّ عَلَیْہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَعَلَیَّ دَیْنُہُ فَصَلَّی عَلَیْہِ(صحیح البخاری: 2289)
ترجمہ: پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگو ں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگو ں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ رضی اﷲ عنہ بولیاے اﷲ کے رسول ! ان کی نماز پڑھا دیجئے، ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے اس پر نماز پڑھائی۔
صورت مسؤلہ میں میت کی تدفین سے قبل ہی قرض کی ادائیگی کا اعلان ہوجانا چاہئے تھا ، اگر اس وقت لواحقین میں سے کسی کو قرض کا علم نہیں تھا تو اﷲ معاف کرنے والا ہے لیکن علم ہوتے ہوئے بھی تاخیر کی گئی تو قرض دینے والے سے میت کے حق میں معافی طلب کرے ۔
(۳)تیسری بات یہ ہے کہ قرض کی صورت میں جتنا پیسہ لیا ہے وہی لوٹا نا چاہئے ، پیسے کی ویلیو زمانہ طویل ہونے سے زیادہ نہیں ہوتی بلکہ کم ہوتی جارہی ہے مثلا پہلے سوروپئے میں ایک گائے خرید لیتے تھے تو اب ایک گائے کے لئے آٹھ دس ہزار روپئے چاہئے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیسے کی ویلیو دن بدن زیادہ نہیں کم ہورہی ہے ۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیسے کی ویلیو کم ہونے سے قرض دار نے جتنی رقم قرض لیا تھا اس میں اپنے زمانے کے حساب سے زیادہ سامان خرید سکتا تھا جبکہ آج پچاس سال بعد وہ پیسہ قرض دینے والے کو لوٹانے سے کم سامان خرید سکتا ہے ۔ اس صورت میں قرض دینے والا کا نقصان ہورہاہے ۔قرض دینے کا احسان اور تاخیر سے قرض لوٹانے پر نقصان کا اجر اﷲ کے پاس ہے ۔ایک مدت کے بعد ہوبہو قرض لوٹانے سے متعلق بخاری شریف میں نبی اسرائیل کا واقعہ مذکور ہے جس کا مفہوم بیان کرتا ہوں ۔
نبی ﷺ بیان کرتے ہیں کہ نبی اسرائیل کے ایک آدمی نے نبی اسرائیل کے دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگا ، اس قرض پہ قرض مانگنے والے نے اﷲ کو گواہ بھی اور ضامن بھی بنایا۔ قرض ایک مدت کے لئے طے کرکے قرض دار دریائی سفر پہ نکل گیا جب ضرورت پوری ہوگئی تودریائی سفر سے واپسی کے لئے کشتی وغیرہ تلاش کیا تاکہ متعین وقت پہ قرض لوٹا سکے مگر سواری کا انتظام نہ سکا ۔ اس نے ایک لکڑی میں سوراخ کرکے ایک ہزار دینار اور ایک خط اس میں ڈال کر دریا کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اے اﷲ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیا تھا۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اﷲ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اﷲ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور تو جانتا ہے کہ میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک مدت مقررہ میں پہنچا سکوں لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں۔
قرض دینے والا دریا کنارے آیا کہ شاید کوئی جہاز آئے اور قرض لینے والا مجھے میرا پیسہ لوٹا دے ۔ اسے کوئی جہاز تو نہیں ملا مگر ایک لکڑی ملی جس میں دینار اور ایک خط تھا۔ ادھر قرض دار برابر اس کوشش میں تھا مجھے کسی طرح شہر جانے کا موقع ملے کہ قرض لوٹا سکوں ، بہت دن بعد اسے شہر لوٹنے کا موقع مل گیا۔ جب اس آدمی سے ملاقات ہوئی تو قرض دینے والے نیپوچھاکہ اچھا یہ تو بتاؤ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اﷲ نے بھی آپ کا وہ قرض ادا کر دیا جسے آپ نے لکڑی میں ڈال کر بھیجا تھا چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔(صحیح البخاری: 2291)
اگر ایسے قرض دار ہوں تو کسی کو قرض دینے میں کوئی حرج محسوس نہ ہو۔
(۴)چوتھی بات یہ ہے کہ قرض وہی آدمی دیتا ہے جس کے پاس ضرورت سے زیادہ مال ہو ایسے آدمی مقروض پر احسان کرتا ہے ،اس کا صلہ اﷲ کے یہاں بہتر سے بہترہے لہذا کچھ دنوں یا کچھ سالوں میں ہوبہوقرض کی واپسی پہ قرض کی ویلیو کم ہوجانے سے مایوس نہیں چاہئے ، قرض دینے کا صلہ اﷲ کے یہاں ملے گا۔ ان شاء اﷲ
نبی ﷺ نے فرمان ہے:دخل رجلٌ الجنَّۃَ ، فرأی مکتوبًا علی بابہا : الصدقۃُ بعشر أمثالِہا ، والقرضُ بثمانیۃَ عشرَ(صحیح الترغیب:900)
ترجمہ: ایک آدمی جنت میں داخل ہوا ، اس نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا بدلہ دس گنا اور قرض کا بدلہ اٹھارہ گنا ہے ۔
(۵)پانچویں بات یہ ہے کہ اگر قرض لینے والے نے قرض کا مال تجارت میں لگایا اور اس سے نفع کمایا تو مناسب ہے کہ اس نفع سے کچھ نہ کچھ قرض دینے والے کو بھی دے جبکہ قرض کی واپسی میں کافی تاخیر بھی ہوئی اور قرض خواہ نے تنگ نہیں کیا ہو۔ یہ قرض پہ تھوڑا زائد دینا بلامشروط اور غیرضروری ہے ،نہیں دینا چاہے تو کوئی جبر نہیں ۔اس کے لئے میں تین دلائل پیش کرتا ہوں ۔
پہلی دلیل : قرض دینے والے کو بلامشروط(پہلے سے زیادہ دینے کی شرط نہ لگی ہو) قرض سے کچھ زیادہ مال لوٹاسکتے ہیں، یہ کچھ زیادہ دیناضروری نہیں ہے تاہم جائز ہے اس کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے ۔جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
أتَیتُ النبیَّ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّم وہو فی المسجدِ ، قال مِسعَرٌ : أُراہ قال : ضُحًی ، فقال : صلِّ رکعتَینِ . وکان لی علیہ دَینٌ ، فقَضانی وزادَنی .( صحیح البخاری:443)
ترجمہ: میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا, آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مسعر نے کہا میرا خیال ہے کہ محارب نے چاشت کا وقت بتایا تھا۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( پہلے ) دو رکعت نماز پڑھ اور میرا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا جسے آپ نے ادا کیا اورکچھ زیادہ دیا۔
دوسری دلیل : تین غار والوں کا واقعہ ہے جس میں تیسرا شخص ایک آدمی کی مزدوری واپس نہیں کرپاتا اور وہ اس مزدوری سے کاروبار کرتا ہے جب کچھ دنوں بعد مزدور واپس آکر اپنی اجرت کا مطالبہ کرتا ہے تواس نے اجرت سے منافع شدہ تمام مال لوٹادیا۔ بخاری شریف کی اس لمبی حدیث کا یہ ٹکڑا دیکھیں :
وقال الثالثُ : اﷲمَّ إنی استأجَرتُ أُجَراء َ فأعطیتُہم أجرَہم غیرَ رجلٍ واحدٍ ترَک الذی لہ وذہَب ، فثمَّرتُ أجرَہ حتی کثُرَتْ منہ الأموالُ ، فجاء نی بعد حینٍ ، فقال : یا عبدَ اﷲِ أَدِّ إلیَّ أجری ، فقلتُ لہ : کلُّ ما تَری من أجرِک ، منَ الإبلِ والبقرِ والغنمِ والرقیقِ ، فقال : یا عبدَ اﷲِ لا تَستَہزِءْ بی ، فقلتُ : إنی لا أستَہزِءُ بک ، فأخَذہ کلَّہ فاستاقَہ فلم یترُکْ منہ شیئًا (صحیح البخاری:2272)
ترجمہ: اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اﷲ ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پا س آیا اور کہنے لگا اﷲ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دے دے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اﷲ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔
یہ مال قرض کا نہیں تھابلکہ اجرت بطور امانت تھی اس امانت سے جو منافع ہوا سب مال والا لے گیا ، یہ بھلائی کا بڑا معیار ہے ۔ اس واقعہ سے مال والے کو زیادہ دینے کا پہلونکلتا ہے ۔
تیسری دلیل : قرض دینا ایک احسان ہے اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے اور قرض خواہ تنگ نہ کرے تو یہ بڑا احسان ہے اس احسان کا بدلہ دینا چاہئے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنِ استعاذَ باللَّہِ فأعیذوہُ ومن سألَ باللَّہِ فأعطوہُ ومَن دَعاکم فأجیبوہُ ومن صنعَ إلیکُم معروفًا فَکافؤہُ فإن لم تجِدوا ما تُکافؤنَہ فادعوا لَہ حتَّی تَروا أنَّکُم قد کافأتُموہُ(صحیح أبی داود:1672)
ترجمہ: جو شخص اﷲ کے واسطے سے پناہ مانگے اس کو امان دو اور جو شخص اﷲ کے نام سے سوال کرے اس کو دو اور جو تمہاری دعوت کرے اس کی دعوت قبول کرو اور جو تمہارے ساتھ احسان کرے اس کا بدلہ دو ۔ اگر بدلہ دینے کے لیے کوئی چیز نہ پاؤ تو اس کے حق میں دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ اس ( کے احسان ) کا بدلہ دے دیا ہے ۔
اﷲ تعالی ہم سب کو حقوق العباد ادا کرنے اور حقداروں کو زائد مال میں سے خرچ کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 311479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.