اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور دہشت گردی کی نئی لہر

9فروری 1984ء کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر عائد کی جانیوالی پابندی کیساتھ ہی تعلیمی اداروں میں طلباء کی نشو ونما ، بہبود اور صحت مند مباحثے کا کلچر ختم ہوگیا ۔اس غیر آئینی اقدام کے باعث ہم تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور نوجوانوں کی غیر تدریسی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت سے محرومی کا بحیثیت قوم نقصان اٹھا رہے ہیں ۔ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی جانب سے لگائی جانیوالی پابندی کو جمہوریت کے چیمپیئن حکمرانوں نے وعدوں کے باوجود بھی ختم نہ کیا۔ 1960ء سے 1970ء کی دو دہائیوں میں طلباء یونینز کے پلیٹ فارم سے سیاست ، سائنس ، طب ، انجینئر نگ ، ادب ، صحافت سمیت ہر شعبے میں ملک کو بہترین قیادت اور غیر معمولی لوگ میسر آئے ۔طلبہ یونینز کی تربیت گاہوں سے نکلنے والے ان ہیروں نے دنیا بھر میں اپنی صلا حیتوں کا نہ صرف لوہا منوایا بلکہ ملک کے لئے گراں قدر خدمات بھی سر انجام دیں ۔طلبہ یونینز پر محض سیاست کرنے کا الزام عائد کیا جا تاہے اور ان طلباء کی سیاست میں شمولیت مناسب نہیں سمجھی جاتی لیکن انہی یونینز کے پلیٹ فارم سے اپنے عہد کے سیاسی ، فسلفیانہ اور سائنسی موضوعات اور نظریات پر صحت مندانہ مباحثے ، آرٹ اورکھیلوں کے مقابلہ جات ، ادبی مشاعرے منعقد ہوتے تھے الغرض طلباء اپنے عہد کی دانش سے جڑے رہتے تھے ۔ انہیں ادراک ہوتا تھا کہ عالمی ممالک کے درمیان کیا تضادات اور اختلافات چل رہے ہیں ۔علاقائی اور ملکی سیاست میں کیا صف بند ی ہے ۔اپنے حقوق کے کیلئے کیسے آواز بلند کرنی ہے ۔ان کے درمیان ہر وقت مقابلے کی صلاحیت اور قیادت کرنے کا جوہر مو جود ہوتا تھا۔ وہ اختلافات کو گفتگو کے کلچر سے با آسانی حل کرنے کا ہنر رکھتے تھے لیکن آج تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ کی بڑی تعداد مذکورہ سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں ۔تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات کی فضا میں بے چینی ، انتہاپسندی ، عدم برداشت اور پر تشدد رویوں نے جنم لیا ۔ اب ایک طویل وقت گزرنے کے بعد انتہا پسندی دہشت گردی کی شکل اختیار کر گئی ۔اس سے قبل دہشت گردی کو فروغ دینے میں دینی مدارس پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ دینی مدارس کے غریب طلباء چند رپوں کے عوض سفاکا نہ کارائیوں کیلئے بہترین انتخاب ہیں اور انکی برین واشنگ باآسانی کی جاسکتی ہے لیکن اب یہ فتنہ خوفنا ک طور پر دن بدن تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔ ان سفاکا نہ کارائیوں میں ملوث خونی بھیڑوں نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنا آسان حدف سمجھ لیا ہے ۔ حیران کن طور پر اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد داعش جیسی دہشت گرد تنظیمات میں شامل ہورہی ہے ۔ ان طلباء کو متاثر کرنے کا ذریعہ جدید تعلیم کے ان اداروں میں پڑھایا جانیوالا نصاب نہیں بلکہ سوشل میڈیا ہے ۔ چند روز قبل کراچی میں اہم سیاسی رہنما پر قاتلانہ حملہ کرنیوالے افراد کا تعلق جامعہ کراچی سے نکلا ۔ یہ گروہ انصار الشریعہ نامی نیٹ ورک کے طورپر کام کرتا ہے ۔ابتدائی تحقیقا ت کے مطابق انصا ر الشریعہ کا تعلق داعش سے ہے جنہیں مکمل ٹریننگ افغانستان میں دی جاتی ہے اور جو اپنی تمام تر وارداتیں جدید سو فٹ ویئرز اور گوگل میپ کے ذریعے کرتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈ یا کے ذریعے داعش سے رابطے کے شبہ میں گرفتار حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری ، سانحہ صفورا گوٹھ کا مرکزی ملزم سعدعزیز اور نعیم لغاری کا تعلق بھی ملک کے بڑے تعلیمی اداروں سے ہے اور یہ تمام طلباء سوشل میڈیا کے ذریعے ہی داعش سے متاثر ہوکر دہشتگردی کی ملوث نظر آتے ہیں۔ دہشتگر د انٹرنیٹ کے طوسط سے ان تعلیم یافتہ نوجوانو ں کی برین واشنگ کرکے انہیں اپنے مذموم مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں پڑھی لکھی مڈل کلاس سے دہشتگردوں کا جنم لینا ایک نئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے ۔دہشتگردی کی یہ نئی لہر نہ صرف دیگر شدت پسند اور عسکریت پسند گروپوں کو جنم دی رہی ہے بلکہ اس میں موجود تعلیم یافتہ عسکریت پسند خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ ان تعلیم یافتہ دہشتگردوں کے گروہوں کو گرفتار کرنا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ غیر انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے یہ گروہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے میں آذاد ہوتے ہیں جسکا فائد ہ اٹھاتے ہوئے یہ نت نئی دہشتگردی کے منصوبے بناتے ہیں ۔ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی دہشتگرد ا نہ اور سفا کانہ کارائیوں میں شمولیت کو وفاقی ،صوبائی حکومتوں اور سیکیورٹی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر باریک بینی سے دیکھنا ہوگا وگرنہ یہ فتنہ دن بدن تعلیمی اداروں میں پنجے گاڑھ کر دانش گاہوں کا امن تباہ کرنے کیلئے مصروف عمل ہے ۔طلبہ یونینز کی بحالی اس دہشتگردی کی نئی لہر سے نمر دآزما ہونا کا بہترین نسخہ ہے ۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے تعلیمی اداروں میں مستقبل کی صورتحال کوبھانپتے ہوئے طلباء یونینز کی بحالی کیلئے جو خدمات پیش کی ہیں یقینا وہ لائق تحسین ہیں وہ ایک دہائی سے طلباء حقوق کی جدوجہد کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔ انہوں نے سینیٹ میں قرار داد پاس کروا کر اپنا فریضہ انجام دے دیا ہے اب صو بائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ طلباء یونینز کے ذریعے ہمیں ماضی کی طرح تربیت کے نظام کو بحال کرنا ہوگا اور طلبا ء کے مابین صحت مندانہ مباحثوں کا ایک بار پھر آغاز کرنا ہوگا جس سے طلباء کے مابین برداشت ، تحمل اور گفتگو کے کلچر کو عام کرنے میں مدد ملے گے ۔ طلباء کی غیر تدریسی مثبت سرگرمیوں اور کھیلوں میں شمولیت طلباء میں منفی رجحانات کم کرنے میں معاون ہے ۔ نصاب کا از سر نو جائزہ لیکر سوک ایجو کیشن اور سماجی علوم سے متعلق مضامین شامل کئے جانے چاہئے ۔ امن و رواداری کے حوالے سے مضامین بھی جامعات کے نصاب کا لازمی حصہ ہوں۔ کتاب بینی کی روایت کوزندہ کرنے کیلئے ریاستی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ کتاب میلے ہماری جامعات کا لازمی جزو ہیں۔ نوجوان جتنا زیادہ وقت تعلیم کے بعد مذکورہ غیر نصابی سرگرمیوں میں گزاریں گے یہی سرگرمیاں طلباء کی تعمیری صلا حیتوں کو اجا گر کرنے اور ان میں مثبت سوچ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرینگی وگرنہ ہر طالبعلم تک سیکیورٹی اداروں کی رسائی ہر لمحہ ان میں خوف اور بے چینی کی صورت پیدا رکھی گی ۔ طلباء کو آذادانہ طور پر جامعات میں انکے آئینی حقوق کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے دیں کوئی پاکستانی طالبعلم دہشتگرد نہیں ہے یہ در حقیقت مسلسل متشدد اور انتہا پسند سوچ کا نام دہشتگردی ہے جو جامعات میں امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کے خاتمے کیلئے ہمیں اجتماعی طور پر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

Amir Ismail
About the Author: Amir Ismail Read More Articles by Amir Ismail: 7 Articles with 6990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.