میک اپ

نکی اٹھ جلدی کر۔اماں اماں پیسے دے۔نکی اٹھ جا نا پا چھیدا آگیا ہے اپنی ریڑھی لے کر ابھی اس کی ریڑھی پر رش لگ جانا ہے پھر اسکا نخرہ آسمانوں پہ چڑھ جائے گا۔پچاس والی لپ اسٹک بھی ساٹھ میں دے گا مویا۔اماں دے بھی دے پیسے پورا ایک ہفتہ ہوگیا ہے تجھ سے ایک روپیہ نہیں مانگا۔جھلی ہی ہو گئی ہے تو تو ناں کی رکھ دیتا تیرا تیری پھاپے کٹنی پھوپھی نے سوہنی تو تے ہیروئن ای بن بیٹھی ایں۔ چل دماغ نہ کھا میرا تیرے میکپ لئ اک ٹگا نہیں اے میرے کول۔ اماں اپنی سوہنی کے لیے تیرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ابھی ہیرا اور بالا آئیں گے اپنی روندی صورت اور بہتی ناک دکھائیں گے تجھے تو نے ان کو فوراً پاپڑوں کے لیے پیسے دے دینے ہیں۔اور یہ نکی سالن میں سے وڈی بوٹی مانگے گی نا تو نے فٹ سے دے دینی ہے۔ایک میں ای تجھے چبھتی ہوں۔
کس کو چبھتی ہے میری سوہنی۔ادھر آ میری تی ۔لے آ گیا ہے تیرا حمایتی جا کے رو اپنے پیو کی جان کو۔ابا دیکھ نا اماں مجھے پیسے نہیں دے رہی باہر پا چھیدا آیا ہے اس کے پاس اتنا خوبصورت میک اپ ہے۔اور تیری تی کے پاس ایک روپیہ نہیں ہے۔چل میری تی اپنا منہ سیدھا کر یہ لے پورا سو روپیہ جا جو خریدنا ہے خرید لے ۔ سوہنی دے ابا پورا سو روپیہ نہ دے اے تے جھلی اے تو تے عقل کر ۔رک سوہنی گل سن پجاں روپے لے لے میرے کولوں سو دا نوٹ مینو دے دے ۔اماں اب نہیں میں دیتی۔ جا پوکھییے بلکل اپنے دادکے تے گئ اے ندیدی جئ۔ او رضیہ جان دے میری تی نوں ہن نہ کجھ آکھیں۔
نکی نکی چل جلدی کر ۔چل رہی ہوں آپا دو منٹ ٹھہر جا جوتی تو پہننے دے۔ کنی واری تجھے سمجھایا ہے نکی مجھے آپا نہ کہا کر میں تو سوہنی ہوں تو وی مجھے سوہنی کہا کر یہ آپا سے نہ اپنا آپ کجھ زیادہ ہی وڈا لگنے لگتا ہے ۔ تیرا اور میرا کوئی ایک دو سال کا ہی فرق ہے ۔ توبہ آپا اماں کہتی ہے تیرے پورے پنج سال بعد میں ہوئی تھی ۔ فیر آپا کیڑے پڑیں تیرے منہ میں چل اب مر میرے ساتھ ۔ہاں ہاں چل رہی ہوں ۔
نکی پا چھیدا اب پتا نہیں کون سی گلی میں ہو گا ۔پتا نہیں کتنی کمال کمال چیزیں بک بھی چکی ہوں گی ۔ سوہنی آپا مجھے پتا ہے وہ کہاں ہو گا ۔ ویسے تو ہے بہت ٹیٹھ چل بتا کدھر ہو گا ۔یہ جو چمکتی چھمو ہے نہ اسکی گلی میں ہو گا۔ پچھلی بار بھی اس نے پا چھیدے سے بڑا سامان خریدا تھا۔ اچھا مجھے تو نہیں بتایا اس نے چھمو تو میری پکی سہیلی ہے۔ اسلیے نہیں بتایا ہو گا آپا تجھے کہ تم اس سے کجھ مانگ نہ لو۔اچھا چھوڑ جلدی چل اور کم کھایا کر بھینس بنتی جا رہی ہے نکی کی جگہ نکی مج ناں رکھ دینا ہے تیرا۔ ہاۓ میرا پیٹ قسم سے نکی مج ناں تجھ پہ کتنا سوہنا لگے گا۔ آپاں ہنس نہ سامنے دیکھ ۔ہاۓ میں مر گئی یہ چھمو کتنی چیزیں خرید رہی ہے چل چھیتی چل اس کہ تو بال پُٹوں میں مجھے کہہ رہی تھی اماں بیمار ہے اپنی اماں سے دو سو روپے لے دے وہ تو الگ بات ہے اماں مجھے ایک ٹگا نہ دے۔
نی چھمو خالہ نے منجھا چھوڑ دیا ہے ۔ ہاۓ ہاۓ یہ مر جانی کہاں سے آ گئی چھمو کے تو ہوش ہی اڑ گئے تھے اب کیا آکھوں اس کو ۔کیا آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی ہےتیرے سے میں نے کجھ پوچھا ہے۔ سوہنی میں کجھ خرید تھوڑی رہی ہوں ۔یہ لے چھمو تیرا سامان تیرے پورے دو سو روپے بنے ہیں۔ کمبخت پاچھیدے کو بھی ابھی بولنا تھا۔اب میں کیا کہوں اسے چل چھمو تھوڑا جیا جھوٹ بول لے اسے الو بنا اور نکل یہاں سے ۔اپنے بڑے بڑے پیلے دانتوں کے ساتھ چھمو ہنسی تھی۔ سوہنی بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی سوہنی کا ہمیشہ دل کرتا تھا چھمو کے دانت چاچا رگو کی دکان پہ پڑے ریگمال سے صاف کر دے بس دوستی کی وجہ سے ہمیشہ رہ جاتی تھی۔ سوہنی یہ سامان تو آپا وڈی نے منگایا ہے اپنی نکی کڑی کے لیے میرے پاس کہاں اس سب کے لیے پیسے ہیں۔چل میں چلتی ہوں شام میں آؤں گی تیری طرف یہ لے پا چھیدے تیرے پیسے۔ چھمو نے کہتے ہی دوڑ لگا دی تھی۔ کمینی سارے موڈ کا ناس مار کے چلی گئی ہے۔آپا سوہنی وہ دیکھ کتنا پیارا رنگ ہے ناخنوں کے لیئے۔ چل نکی واپس چلیے ۔کیوں آپا یہ ناخن پالش لے لے نا۔ میں آکھیا ہے نا تجھے چل مر یہاں سے مجھے اور تاپ نہ چڑھا۔ اب میں اور پیسے جمع کر کے چھمو کی طرح واوا ساری چیزیں لوں گی۔ اور ہاں میری گل سن جو اماں کو جا کے تو نے بتایا نا کہ میرے پاس ابھی بھی سو روپیہ ہے فیر تجھے پتا اے میرا۔ اچھا اچھا نہیں بتاتی پر آپا جب تو واوا ساری چیزیں لے گی تو مجھے بھی لگائے گی نا۔ نکی کتنی واری تجھے میں نے سمجھایا ہے یہ مسکینوں جیسی بوتھی نہ بنایا کر میرے سامنے تجھے وی دے دوں گی۔ہاۓ آپا تو بڑی سوہنی ہے پھوپھی نے تیرے ناں بلکل ٹھیک رکھا ہے ۔ چل جانے دے اب مسکے نا لگا۔ اب میری گل غور سے سن چاچے کھپتی کے کھیتوں میں سے امبیاں چراتے ہیں ۔بڑا ہی دل کر رہا ہے کھانے کا۔ آپا میں نہیں جاتی چاچے کھپتی کے کھیتوں میں اوس نے وڈا سا ڈنڈا نکال لینا ہے اور توبہ اتنا رولا ڈالے گا ۔
جیسے پورا کھیت ہی ہم نے چُرا لیا ہو۔ او تو ڈرتی کیوں ہے میں ہوں نا تیرے ساتھ میں اور تو امبیاں چُرا کے نس جائیں گے۔ نا نا آپا تجھ پہ تو میں کبھی یقین نہ کروں پچھلی واری کی گل ابھی مجھے بھولی نہیں ہے۔ تو نے تو دوڑ لگا دی تھی۔اور مجھے چاچے نے اتنی زور کا ڈنڈا مارا تھا نا کہ نانی یاد آگئی تھی میں جا رہیں ہوں گھر تو نے جب آنا ہو گا توں وی آ جائیں۔ جا جا مر جا آجاؤں گی جب میں نے آنا ہو گا۔ ہاں ہاں آپاں جا رہی ہوں۔ نکی اب تو بچ میرے سے یہ جو تو مجھے چڑاتی ہے نا اج نہیں چھڈوں گی تجھے۔
اماں اماں بچا لے۔ہاۓ ہاۓ نکی کی ہو گیا ہے۔پھوپھی پاگاں توں۔پھوپھی تو کب آئی ہے ۔بس ابھی آئی ہوں تو کدھر تھی اور یہ سوہنی کدھر ہے۔ پھوپھی سب باتیں چھوڑ تو ہی مجھے بچا لے۔ یہ جو تیری سوہنی ہے نا پاگل ہو گئی ہے اس نے اج مجھے دوڑا دوڑا کے مار ڈالا ہے۔نی رضیہ چھیتی باہر آ نی آن کے ویکھ اے کڑیاں کی کر رہیاں نیں۔ آ گئ باجی بس چائے بنانے رکھ رہی تھی۔ اماں تیری چائے کونسی پھوپھی کے جانے سے پہلے بن جانی ہے ۔ ہاۓ میں صدقے میں واری میری تی میری سوہنی آئی ہے۔ پھوپھی تو اتنی دیر بعد آئی ہے تجھے پتا ہے یہاں تیرے اور ابا کے علاوہ مجھے کوئی نہیں سمجھتا۔ ہاں میری تی رانی مجھے پتا ہے ۔ رضیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سوہنی کی پھوپھی کی گچی دبا دے ۔پر ہاۓ رے قسمت وہ ایسا کر نہیں سکتی تھی۔ سوہنی پتر اٹھ پھوپھی کے لیے چائے ڈال کے لا اور پاپے بھی لے آئیں۔ اماں وہ بُسے پاپے تو پھوپھی کے آگے رکھے گی۔ رضیہ کے آنکھوں میں خون اتر آیا تھا سوہنی تھی تو اس کی اپنی جمی پر پیڑی قسمت دادکے کی حمایتی تھی۔نا سوہنی رہن دے پاپے نکی پتر اٹھ جمیلے کی دکان سے اپنی پھوپھی کے لیے وڈے والا بسکُٹ لے کے آ اور ہاں وہ چورن والی نمکو بھی لے آئیں تیری پھوپھی کو پسند ہے رضیہ نے فوراً بات کو سنبھالا تھا۔ رضیہ اج تو چائے ڈال دے میری سوہنی کو میرے پاس بیٹھنے دے ۔ہاں آپا کیوں نہیں میں ڈال دیتی ہوں۔ چائے ڈالتے ہوئے جو حول رضیہ کو اٹھ رہے تھے وہ آپا پاگاں کے جانے کے بعد ہی سوہنی پہ نکلنے تھے۔ نی رضیہ یہ پا مجید کدھر ہے ابھی تک گھر نہیں آیا۔ چائے کے ساتھ رکھی ساری چیزیں اڑا لینے کے بعد آپا پاگاں کو اپنے بھائی کا خیال آیا تھا آپا کی اس کمینگی پہ رضیہ نے بڑی مشکل سے اپنا ہاسا روکا تھا۔بس آپا ابھی گڈی لے کے نکا ہے روٹی کھا کے چلا جاتا ہے گڈی کو لے کر ۔تجھے تو پتہ ہے یہ چھ سواریوں والی گڈی چلانا کتنا اوکھا کام ہے۔ ہاں رضیہ یہ تو ہے بس میرے بھائی کی ہمت ہے جو بیچارا لگا ہوا ہے۔ اور یہ ہیرا اور بالا کدھر ہیں ۔آپا مسیت گئے ہیں مولوی صاحب نے بلایا تھا۔ اچھا چل اب میں چلتی ہوں پھر آؤں گی ۔ پھوپھی رک جا نا ابھی تو آئی ہے۔ نا سوہنی پتر اج ضد نہ کر فیر آؤں گی ۔اور ہاں میں تو پُل ای گئی سی یہ میں تیرے لیے میک اپ کا سامان لائی تھی تجھے پسند ہے نا۔ہاۓ پھوپھی تو کتنی چنگی ہے ۔چل اب رکھ لے اور ہاں سنبھال کے رکھیں۔ ٹھیک ہے پھوپھی۔ چل رب راکھا۔
آج تو دل ہی خوش ہو گیا ہے۔ آپا مجھے بھی دیکھا پھوپھی نے جو چیزیں دی ہیں ۔ہٹ میں نہیں دیکھاتی ۔آپا دیکھا دے ۔نکی میں کہہ رہی ہوں نا پیچھے ہو جا ۔ نہیں کیوں پیچھے ہو جائے ادھر دے مجھے یہ چیزیں۔ اماں چھوڑ پھوپھی نے یہ چیزیں مجھے دی ہیں۔ کیوں چھوڑوں وڈی آئی پھوپھی کی سکی چا پانی کی دفع کیسے تیری زبان چل رہی تھی پاپے بُسے ہیں ۔اماں سہی تو کہا تھا چار دن پرانے پاپے تھے تو نے بالے کو دیے تھے اور اس نے بھی پیڑا سا منہ بنا کہ چھوڑ دیے تھے حالانکہ کے وہ چھوڑنے والی بلا نہیں ہے۔ چل اماں دے ادھر میری چیزیں۔ نی سوہنی تیرے تو دیدے ای پھٹ جاتے ہیں اپنی پھوپھی کو ویکھ کے لے پکڑ اپنی چیزیں۔
کتنے ہی دن گزر گئے نہ چھمو آئی ہے نہ پھوپھی نے دوبارہ چکر لگایا ہے ۔ اج گھر وی کوئی نہیں ہے۔چل سوہنی پھوپھی کی دی ہوئی چیزوں سے تیار ہی ہو جاتی ہوں۔ پھوپھی نے کریم سرخی پاڈر سب ہی رکھ دیا ہے ۔ ہاۓ کب میرے پاس اتنا سارا میک اپ ہو گا ہر رنگ کی لپ اسٹک ہو گی لالی ہو گی آنکھوں پہ لگانے والے مختلف رنگ ہوں گے۔ رب سوہنے بھلا تو میری کس میک اپ کی دکان والے سے ہی شادی کروا دے۔ آآآمین۔ ہاۓ چھمو تو کب آئی اور دروازہ کس نے کھولا ہے۔ سوہنی دروازہ کھلا تھا اور یہ تو کیا کر رہی ہے یہ میک اپ کس نے دیا ہے اور یہ دعائیں خیر تے ہے کہیں پا چھیدے نے تو نہیں دیا ویسے بھی گاؤں میں ایک اسی کے میک اپ کی ٹور ہے کہیں اسی کا رشتہ نا آجائے۔ کمینی مرجانی پاچھیدے سے تو کر شادی میں تو کبھی مر کے بھی نا کروں میرا نام سوہنی ہے اور اماں میرے لئی کوئی سوہنا سا ہی منڈا ڈھونڈے گی۔ کتنا سوہنا تیری پھوپھی کے منڈے جیسا۔ نی چھمو تیری بڑی نظر ہے میری پھوپھی کے منڈوں پہ چکر کیا ہے۔ ویسے سوہنی کمینگی کی بھی انتہا ہوتی ہے پر تو تو اس سے بھی دو قدم اگے ہے ۔

لے بھلا میں کیوں تیری پھوپھی کے منڈوں پہ نظر رکھوں گی۔ چل چھوڑ ساری باتیں مجھے تیار ہونے دے۔میں کروں تجھے تیار۔ چھمو نے اپنے وڈے سے دانت نکال کے کہا تھا۔ پر سوہنی کو یاد تھا چھمو نے جو اسے ایک بار تیار کیا تھا اور ساروں نے جو اس کی مٹی پلیت کی تھی اماں نے تو سب سے پہلے کھسری کہا تھا ۔ ہاۓ نہیں چھمو رہن دے میں اج آپے ہی تیار ہوں گی۔اچھا چل فیر چھیتی سے تیار ہو جا میں تیرے لیے اور اپنے لیے چا بناتی ہوں ۔
شکر ہے چھمو تو گئی باہر اب میں سکون سے تیار ہوتی ہوں۔اج لال سرخی لگاتی ہوں۔ کتنی حسین لگ رہی ہے سوہنی تو قسمے مجھے اپنی ہی نظر نہ لگ جائے باہر چل کے ذرا چھمو کو تو دیکھاؤں ۔نی چھمو ویکھ میں کیسی لگ رہی ہوں ۔ بہت سوہنی لگ رہی ہے مر جانی ۔اماں تو تو کب آئی۔ ہم تب آئے ہیں جب تو اندر میڈم بننے میں مصروف تھی۔ بیڑا تر جاۓ چھمو تیرا تو نے مجھے بتایا بھی نہیں۔ نہیں وہ کیا بتاتی تجھے اسے میں نے ہی روکا تھا۔ اب اندر جا اور وہ جو میں نے تیرے لئی جوڑا سنبھال کے رکھا ہوا ہے وہ پہن آ تیری پھوپھی بھی آ رہی ہے تھوڑی دیر میں ۔جوڑا پہن لوں پھوپھی آ رہی ہے اماں تیرا مطلب کیا ہے۔ اور یہ چھمو نکی بالا ہیرا دانت کیوں نکال رہے ہیں۔ رضیہ میری تی نوں کیوں تنگ کر رہی ایں ۔ ادھر آ میری تی میرے کول ۔آ گئی ابا تو ہی مجھے بتا کہ کیا چل رہا ہے ۔ میری تی اج تیری پھوپھی تیرا رشتہ پکا کرن آ رہی اے ۔ کیا ابا ابا میں نہیں کرنی شادی پھوپھی نے ایسا سوچا وی کیسے کہ اس کی نک بہتے پتر سے میں وہیا کروں گی ۔ نا پتر ہن وڈا ہو گیا اے او شہر جا کے بڑا سوہنا جوان ہو گیا اے ۔ابا ویکھ میں تجھے پہلے ہی کہا تھا میں اس سے وہیا کروں گی جس کی اپنی میک اپ کی دکان ہو گی ۔ او میرا پتر وہ شہر سے بڑا پڑھ کے آیا ہے بڑی اچھی نوکری پہ لگ گیا ہے ۔پر ابا ۔ میری تی میری گل نہیں منے گی جا جا کے تیار ہو جا۔ اچھا ابا جا رہی ہوں۔ جیتی رہ میری تی۔
چھمو ویکھ پھوپھی آگئی ہے میرا گرمی سے برا حشر ہو رہا ہے۔ ہاں آ تو گئے ہیں پر خالہ رضیہ نے باہر آنے سے منع کیا ہے کہہ رہی تھی تجھے آپے ای لینے آئے گی ۔ لے آ گئی اے خالہ ۔ سوہنی اٹھ باہر چل اور ہاں خبردار جو باہر جا کے اج اپنی زبان کھولی تو منڈا شہر سے آیا ہے ۔ ہاں تو شہر سے آیا ہے تو کیا کروں اماں تو تو پھوپھی کے بڑے خلاف تھی اب وہیں میرا رشتہ کر رہی ہے ۔ سوہنی میں لا چھتر لینا اے۔ اماں تم تو مجھے پیار ہی نہیں کرتی۔ ویکھ سوہنی تیری پھوپھی بڑی پھاپے کٹنی ہے لیکن اس کا پتر بڑا سوہنا ہے اور تجھے پتا ہے اس نے گاؤں میں میک اپ کی دکان کھولی ہے تیری پھوپھی نے بتایا وی نہیں اور بھلا کس کے لیے کھولی ہے ۔ کس کے لیے اماں۔ سوہنی ویسے تو اتنی چوچی ہے نہیں ۔ پر اماں شہر سے آنے کے بعد میں نے تو اسے ویکھا وی نہیں نا اس نے مجھے ویکھا ہے۔ یہ تو اب مجھے پتا نہیں ۔اب چل سارے انتظار کر رہے ہیں۔
سوہنی کا دل اتنی زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ امجد پہ نظر پڑتے ہی دل نے اماں ابا کو شاباشی دی تھی۔اماں سہی کہہ رہی تھی امجد بڑا سوہنا ہے اور دکان کا سن کے تو اور وی سوہنا لگ رہا تھا۔ پھوپھی کا مزاج اج کجھ مل نہیں رہا تھا۔ رسم ہو جانے کے بعد ابا کے کہنے پر امجد اور سوہنی کو الگ بات کرنے کا موقع مل گیا تھا۔
آپ آج بڑی اچھی لگ رہی ہیں۔ اور آپ خوش تو ہیں نا۔ امجد کا تو لہجہ ہی بدل گیا تھا اور سوہنی اسے کیسے بتاتی کہ کتنی خوش ہے وہ اج اس کا بس چلتا تو ابھی بھنگڑا ڈال لیتی۔ پر اماں کے چھتروں کا ڈر تو ہلنے بھی نہیں تھا دے رہا۔ جی جو اماں ابا نے فیصلہ کیا ہے میں اس میں خوش ہوں ۔ آپ بہت اچھی ہیں اور آپ کو پتا ہے گاؤں میں آنے کے بعد پہلی دفع میں نے آپکو پا چھیدے کی ریڑھی پہ سامان لیتے دیکھا تھا آپ مجھے بہت اچھی لگی تھیں اور پھر میں مامو مامی سے ملنے آیا تھا۔ مامی کے بتانے پر پتا چلا آپ کو میک اپ بہت پسند ہے ۔ پھر میں نے سوچ لیا میں آپ کے لیے گاؤں میں بڑی سی دکان بناؤں گا میک اپ کی۔ اور میں نے دکان ڈال بھی لی پر اماں راضی نہیں ہو رہی تھیں۔ سوہنی کو تو جیسے ایک کے بعد ایک کرنٹ لگ رہا تھا ۔ پھوپھی کیوں نہیں راضی ہو رہی تھی۔ وہ دراصل چاہتی تھیں میں شہر میں ہی شادی کروں وہاں کی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے پر سچ تو یہ ہے میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ سوہنی کا دل کر رہا تھا اماں کو جا کے گلے لگا لے اماں سہی کہتی تھی پھوپھی پھاپے کٹنی ہے پر جو وی ہے اب امجد تو اسی کا ہے ۔
یہ میں آپ کے لیے کچھ چیزیں لایا ہوں آپ رکھ لیں اور جلد ہی آپ کو یہاں سے اپنے ساتھ لے جاؤں گا ۔ آپ رہنے دیں یہ چیزیں آپ میرے ساتھ ہیں تو سب کجھ ہی میرا ہونا ہے۔ امجد اس کی طرف دیکھ کے مسکرایا تھا اور اس نے شرم سے آنکھیں نیچے کر لی تھیں۔۔۔ سچ تو یہ تھا اب پھوپھی چالاکیاں وکھاۓ یا اماں ڈانٹے سوہنی کو تو بس امجد کے ساتھ رہنا تھا ۔اور واوا سارا میک اپ کر کے سب کو جلانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Sana
About the Author: Sana Read More Articles by Sana: 13 Articles with 24339 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.