مطیع بھائی کسی سے دلی لگاؤ الگ بات ہے۔۔ پر حقیقت
کولوگوں سے چھپانا یہ خیانت ہے۔۔یہ کمینٹ تھا بھائی صلاح الدین خان کا۔ اس
پوسٹ کے جواب آیا جو میں نے لکھا تھا کہ ’’خلجی صاحب جب جمعیت کو لوٹ کر
چلے گئے تو اصغر صاحب نے ہی جمعیت کو پھر سے کھڑا کیا۔ خدا کیلئے جمعیت کو
بازارو نہ بنائیں‘‘۔ جس طرح سے میری دلی وابستگی کا اندازہ بھائی صلاح
الدین خان کو میرے اس پوسٹ میں ہوا اسی طرح سے جناب اصغر سلفی سے آپ کے
اظہار ناراضگی کا بھی ہوتا ہے۔ جمعیت میں دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک طبقہ خاص
اس اتر پردیش کا ہے جہاں میرا وطن ہے اور زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ کہا جائے
کہ میرے ضلع کے سبھی لوگ ہیں ۔جنہوں نے بغاوت کرکے ایک نئی جمعیت کی بنیاد
ڈالی۔جو کسی بھی طرح امت کے لوگوں کو برداشت نہیں ہے ۔ اس کا اندازہ بھی
مجھے میرے ایک پوسٹ سے لگا جس میں میں نے دونوں جمعیت کو الگ الگ بہتر کام
کرنے کیلئے امید کا اظہار کیا تھا۔ لیکن میرے پوسٹ سے الگ تمام دنیا بھر
میں پھیلے ہوئے جمعیت اہلحدیث کے ہمدرد بھائیوں نے یہی کہا کہ ’’ہمیں کسی
بھی طریقے پر جمعیت میں تقسیم قبول نہیں ہے‘‘۔
یہاں پر میرے قلم اٹھانے کا مقصد بھائی صلاح الدین خان کے اس کمنٹ پر عمل
کرنا ہے جس میں انہوں نے حقیقت چھپانے سے منع کیا ہے۔ تو میں یہاں بتا دوں
کہ میں بطور خاص جناب مولانا اصغر صاحب سلفی سے بہت قریب رہا ہوں۔ اس وقت
جب وہ جامعہ سلفیہ میں استاذ کی حیثیت سے معمور تھے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ
مولانا اصغر صاحب نے ساری شہرت ، عزت اور ہمدردی پیسے جمعیت میں آکر ہی
کمائی ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ اپنے گاؤں کے سرپنچ رہنے والے خاندان سے تعلق
رکھنے والے مولانا اصغر صاحب ایک زمیندار خاندان سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
میں گواہ ہوں کہ جامعہ سلفیہ میں سب سے زیادہ مصروف اور متحرک رہنے والے
لوگوں میں مولانا اصغر صاحب اول نمبر پر تھے۔ جامعہ سلفیہ کیلئے بیرون
ممالک سفر کی ذمہ داری بھی آپ کے ہی ہاتھوں میں ہوا کرتی تھی۔ جب تک آپ
جامعہ سلفیہ میں تھے۔ ڈاکٹر رضاء اﷲ محمد ادریس صاحب (مرحوم )آپ کے بہت خاص
دوستوں میں سے ایک تھے۔ اصغر صاحب جن بزرگوں کے کہنے پر عمل کرتے تھے ان
میں میرے والد گرامی حضرات مولانا عزیز الرحمن سلفی صاحب بھی ایک ہیں۔ آج
بھی کسی پیچیدہ معاملے میں والد گرامی سے مشورہ آپ کا ایک شیوہ ہے۔
دارالضیافہ میں دوسرے فلور پر ٹھیک میرے نیچے والا فلیٹ مولانا اصغر صاحب
کا تھا اور مولانا کا لڑکا ازہر حفظ میں میرا ہم جماعت اور بعد میں ایک
کلاس جونیئر تھا۔ لہذا خلاصہ کلام یہ کہ میں مولانا اصغر سے کافی قریب رہا
ہوں۔
حقیقت کو چھپانا نہیں چاہئے۔ میرے علم میں جو باتیں ہیں تمام بھائیوں کیلئے
شیئر کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ لوگ جماعت اور جمعیت کے واسطے گالی گلوج والے
مضامین پر اپنی مخالفت کا اظہار کریں گے۔ کسی بھی طبقے میں مخالفت ایک حد
تک تو جائز ہے لیکن گالیوں اور گندے بھونڈے الزام کسی بھی طبقہ میں جائز
قرار نہیں دئے جا سکتا ۔ مولانا اصغر کیلئے جس طرح الزام لوگوں نے لگائے
ہیں ۔توبہ ایسی ذہنیت والوں پر ۔میں بنارس جامعہ سلفیہ میں جس فلور پر تھا
مولانا مجتبی صاحب بھی اسی فلور پر رہتے تھے۔ مولانا اصغر صاحب او رمولانا
مجتبی صاحب کے یہاں سے خواتین اور بچوں میں بہتر تعلقات تھے۔ مولانا اصغر
صاحب مولانا مجتبی سے ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ لعنت ہے الزام تراشوں
پر جنہوں نے انسانیت کی تمام حدیں پار کردیں۔ گھن آتا ہے ایسے لکھنے پڑھنے
والوں پر ۔اﷲ انہیں ایسے کام سے بچائے۔
جناب مولانا اصغر صاحب بطور استاذ ایک بہتر قابل شخصیت تھے ۔ بچوں سے ان کے
تعلقات دوستانہ تھے۔ ایسی جگہوں پر جہاں بدعت کا رواج زیادہ ہوتا تھا وہاں
سے آئے ہوئے طالبعلموں کو بطور خاص بلانا اور ان سے ان کے گاؤں اور علاقوں
میں ہو رہی بدعت پر خاص بات چیت کرنا اور حوصلہ افزائی کرنا آپ کا خاص
مشغلہ تھا۔بچوں کو ترغیب دیتے کہ اپنے علاقے میں آپ کو بہتر کام کرنا ہے
لہذا محنت کرو اور کوشش کرو کی بدعت کے قلعے کو تم توڑنے میں کامیاب ہو
سکو۔
جس وقت مولانا اصغر صاحب کو جمعیت کی ذمہ داری سونپی گئی اس وقت آپ کافی
فکر مند تھے۔ کیوں کہ چلتی ہوئی زندگی ایک نئے موڑ پر کھڑی تھی۔ بات اس وقت
کی ہے جب ایک مہینے دہلی رہنے کے بعد مولانا اصغر صاحب پھر سے جامعہ سلفیہ
میں آئے۔ اور مولانا ڈاکٹر رضاء اﷲ صاحب (مرحوم ) کے ساتھ والد صاحب کے پاس
تشریف لائے ۔ ڈاکٹر رضا ء اﷲ صاحب نے باتوں کی شروعات کی اور کہا کہ دیکھئے
اصغر سلفی نئی نئی سوچ میں الجھا ہوا ہے۔ آپ ہی سمجھائیے ۔ کیونکہ قوم اور
جماعت کا بڑا نقصان کرنے والے ہیں۔ اصغر صاحب کا کہنا ہے کہ ایک مہینے دہلی
میں رہ کر آیا ہوں ۔بہت بڑی کاٹوں بھری ذمہ داری ہے یہ۔ جو مجھ جیسا فرد کم
از کم برداشت نہیں کر سکتا۔ بہت الجھن ہے ۔ بہت ذمہ داریاں ہیں اور لوگوں
کی الگ الگ نگاہیں ہیں۔ میں جامعہ سلفیہ میں ایک بڑے منصب پر فائز ہوں ۔
تدریس میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اگر میں اس فریضہ سے بچ سکوں تو خوشی ہوگی۔
والد صاحب نے دونوں افراد کی باتوں کو سننے کے بعد کہا ۔ اصغر سلفی صاحب آپ
کو ذمہ داریاں ملیں ہیں تو آپ کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اﷲ کو حاضر
وناظر مانتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو قبول کیجئے اور اس بات سے مت ڈرئے کہ
لوگ آپ کو کیا کہیں گے۔ اپنے رہنے کا بندوبست آج ہی اپنے آبائی وطن کی کسی
زمین کو فروخت کرنے کے بعد کر لیجئے۔ انشا اﷲ اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی ومددگار
ہوگا۔ کچھ دنوں بعد مولانا اصغر صاحب سلفی جامعہ اپنے بچوں کو دہلی لے جانے
کیلئے آئے تو ساری روداد سنائی کہ ایک ٹریکٹر جس سے کھیتی وغیرہ کا کام کیا
جاتا ہے وہ اور ایک بڑی زمین کو فروخت کر دیا ہے جس سے شاہین باغ میں زمین
خریدنے اور گھر بنانے میں مدد ملے گی۔
والد صاحب بزرگوار نے مولانا اصغر صاحب کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ آپ
اپنے کام میں منہمک ہو جائیں اور محنتی تو ہیں ہی۔ اپنی محنت سے جماعت اور
جمعیت کو آگے بلندیوں پر لے جائیں۔ نظامت کے چند سالوں بعد ہی مولانا اصغر
صاحب نے پاکوڑ میں تاریخی اہلحدیث کا دوسرے سب سے بڑے کانفرنس کا انعقاد
کیا۔ جس کو ملک اور دنیا کی میڈیا نے بڑی عزت کی نگاہوں سے دیکھا تھا۔ اس
وقت میڈیا کے ذریعہ پہلی بار جمعیت اہلحدیث کا نام لوگوں نے سنا اور بعد
میں وزیر داخلہ کو ایک کانفرنس میں شرکت کراتے ہوئے دوسرا سب سے بڑا پیغام
دنیا اور ملک کے سامنے پیش کیا۔اب یہاں سے ملک کی میڈیا جمعیت کو عزت کی
نگاہ سے دیکھ رہی تھی ورنہ وہابی کے علاوہ اس جماعت کو کسی اور نام سے لوگ
نہیں جانتے تھے۔
پاکوڑ کا بڑا کانفرنس آپ ہی کے ہاتھوں سے انجام دیا پایا۔ جہاں سے جامعہ
سلفیہ جیسا کوئی اعلان تو نہیں ہوا لیکن اہل جماعت کو یہاں سے مایوسی بھی
نہیں ہوئی۔ میں اس پروگرام میں جامعہ سلفیہ کی جانب سے 20 بچوں سمیت میں
بھی رضاکار تھا۔ اور رضاکارانہ طور پر چوبیس گھنٹے محنت کرنے کا زندگی میں
پہلی لطف اٹھایا۔پاکوڑ کے کانفرنس میں ہی تخریب کاروں نے اپنی اصلیت کا
مظاہرہ کیا تھا۔ مولانا ڈاکٹر نائیک اور مولانا معراج ربانی کے دو بار
تقریر کرنے پر مولانا عبد الشکور بھڑک گئے اور مائیک پر جبرا یہ اعلان کر
دیا کہ ’’جو لوگ ڈالر دیتے ہیں انہیں بارہا تقریر کرنے کا موقعہ دیا جاتا
ہے، میں اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرتا ہوں اور یہاں سے جا رہا ہوں‘‘۔ مولانا
عبد الشکور صاحب کے اس کرتوت پر کئی لاکھ کی تعداد آنا فانا آدھی رہ گئی۔
خیر کانفرنس کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
مجھے کہتے ہوئے تھوڑا بھی تردد نہیں ہو رہا ہے کہ مولانا عبد الشکور صاحب
میرے پڑوسی ضلع بلرام پورکے ہیں ، اور ان ضلعوں کے علماء پر الزام ہے کہ
اگر جامعہ سلفیہ بنارس کی جگہ پر نوگڑھ میں تعمیر کیا جاتا تو جامعہ سلفیہ
کبھی کا کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا ہوتا لیکن اﷲ کے فضل سے وہ بنارس والوں کے
ہاتھ میں گیا جہاں پر ماؤں اور بہنوں نے اپنے پورے گہنے زیورات جامعہ سلفیہ
کو تعمیر کرنے کیلئے پوٹلی بنا کر دے دیا تھا۔ اﷲ جزائے خیر دے۔ اگر اس بات
کی سچائی میں جانا ہو تو سدھارتھنگر اور گونڈہ بستی کے مدارس کا جائزہ لے
لیں ۔ جس گاؤں میں مدرسے ہیں وہاں پر مقدمات زیر التوا ہیں۔ گاؤں کئی کئی
پارٹیوں میں منقسم ہے۔ اور پڑھائی لکھائی کا کام زیرو ہے۔ میں بھی اسی
سرزمین اتر پردیش بستی گونڈہ کا ہوں لیکن مجھے اس سچائی کوبیان کرنے میں
کوئی قباحت محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ مجھے میرے اپنے دوستوں کی پھٹکار بھی
سننی پڑے گی ۔ ان سب سے پیشگی معذرت ہے۔ کیونکہ ’’بعض سچائیوں کا چھپانا
بھی خیانت ہے‘‘۔
جمعیت کا دوسرا دھڑا جسے میں ’’جمعیت فاسد‘‘ یا ’’ جمعیت بدعت‘‘ بھی کہتا
ہوں۔ میرے اپنے ضلع اور ہم ریاست لوگوں کا ہے۔ کئی بار الزام لگایا جاتا ہے
کہ مولانا اصغر صاحب نے کئی ادارے کھلوائے۔ لیکن لوگ یہ بتانا بھول جاتے
ہیں کہ جناب صلاح الدین مقبول صاحب نے اپنے بلڈر بیٹے کو کتنی کنٹرکشن
کیلئے زمینیں خریدوائیں؟ بڑے بڑے بلڈروں کی ایک بلڈنگ کی تعمیر میں پسینے
چھوٹ جاتے ہیں ۔ آنجناب کے بیٹے کی کئی کئی بلڈنگیں بیک وقت تعمیر ہوتی ہیں
ساتھ ہی ساتھ بڑی بڑی زمینوں کی پلاٹنگ پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ ایک طرف
بلڈنگ کی تعمیر ہے دوسری طرف ادارہ جات اور ہوسپٹل کی تعمیر ۔قوم کے کام
کون سی جائیداد آنے والی ہے۔ سب جانتے ہیں۔ ذاتی جائیداد کون بنا رہا ہے۔
میں نے یا آپ نے دس سالوں میں ایک فلیٹ دو زمینوں کے پلاٹ خریدنے میں
کامیابی حاصل کی۔ اگر مولانا اصغر سلفی نے پندرہ سالوں میں اپنے بچوں کے
نام سے ایک پلاٹ خرید لیا تو اس کی وجہ سے ان کو گالی گلوج کا سامنا کرنا
پڑے گا، جمعیت جماعت بزرگوں کی قیادت کا نام ہے۔ اس درمیان میں تخریب کاری
کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔بچپن میں ہمیں شرارت کرنے میں مزہ آتا تھا۔آج
بھی ہم اسی کام کو کریں گے تو تخریب کاری اور بد دیانتی کہلائے گی۔ غیر
دانشمندانہ اقدام سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے۔ ہمیں جماعت کے کسی بھی معاملے
کو ایک پلیٹ فارم تک ہی اچھالنے کیلئے محدود رہنا چاہئے۔ ان بھائیوں کے
کہنے کا کسی پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا جنہوں نے چیخ چیخ کر سوشل میڈیا
پر گہار لگائی کی بھائیوں خدا کیلئے ایک حدمیں رہ کر اپنی ناراضگی کا اظہار
اور قلم کا استعمال کریں۔
ملک میں سیلاب زدہ افراد کی مدد، تین طلاق پر اپنی رائے۔ وہابی تحریک کی
بدنامی جیسے ہزاروں ایشوز جماعت پر داغ ہیں۔ اس پر کسی نے اپنی تحریر جاری
کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ لیکن جمعیت کا الیکشن کیا قریب آیا کویت اور
ریاض والے بھی بول پڑے۔ لعنت ہے ایسے لکھنے والوں پر جو کرسی کیلئے تو لکھ
سکتے ہیں بول سکتے ہیں لیکن قوم کی بہبود کیلئے کسی کی قلم کبھی جنبش نہیں
کرتی۔
میری خواہش تھی کی جمعیت کے دونوں ایوانوں سے بات کرکے ان تمام باتوں کی
حقانیت پوچھی جائے کی آخر اتنے گندے بھونڈے مضامین کس کے کہنے پر منظر عام
پر آ رہے ہیں۔ کیا ساری شرم وحیا آپ لوگوں نے دھو کر پی لی ہے۔ چندے اور
قوم کے پیسوں کے تم لوگ اس قدر لالچی ہو گئے ہو کہ کروڑوں جماعت کے افراد
کا سر جھکنے کا تمہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔ بزدل قوم میں سے
ہندستان جمعیت اہلحدیث ہند کے اراکین بھی ہیں ۔ جن کی بزدلی اتنی ہے کہ وہ
ایک ٹی وی ڈبیٹ میں اپنے موقف اور سنت کی تشہیر کیلئے آج تک ایک نمائندہ
پیدا نہ کر سکے۔ دنیا تمہارے رابطے نمبر تلاش کر کر کے تھک چکی ہے۔ جمعیت
باطل بتائے کہ کیا ایک بزرگ استاذ کی بے عزتی پر آواز اٹھانے کے بجائے احیا
ء التراث میں درخواست ڈال کر اصغر مدنی سے دوستی ہے اس لئے اس کی تنخواہ
بند کرادی جائے ۔ ایسی ہی خدمت کروگے آپ لوگ۔ سنبھل جاؤ حضرت ۔ورنہ کہیں
ایسا نہ ہو کہ سونیا وہار کی گلیوں میں تمہیں دوڑا دیا جائے ۔جب تم کباڑیوں
کے مورچوں کی تلاش میں آتے ہو۔ |