روہنگیا بحران، مسلم ممالک اور ہندوستانی مسلمان: ایک محاسبہ

روہنگیا بحران میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ایک کربناک المیہ ہے۔ میانمار میں انسانیت ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا گیا اور معصوم نوجوان اور بزرگوں کو ایک منظم طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔ اس نازک موڑ پر، روہنگیا مہاجرین کو ملک بدر کرنے کے حکومت ہند کے موقف نے بے شمار مسائل کھڑے کر دئے ہیں اور اسے سپریم کورٹ اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے تحقیقاتی سوالات کا سامنا ہے۔ ان کی ملک بدری کے اس منصوبہ نے ہندوستانی مسلم رہنماؤں، دانشوروں اور خاص طور پر ان علماء کے درمیان ایک تناؤ کا ماحول پیدا کر دیا ہے جو روہنگیا مسلمانوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جس ملک نے اپنی ابتداء سے ہی مہاجرین کا استقبال کیا ہے وہ وہ ان 40 ہزار روہنگیا مہاجرین کو کس طرح ملک بدر کر سکتا ہے جو اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ستائی ہوئی اقلیت ہیں!

یقیناً 40 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا حکومت ہند کا منصوبہ ہمارے وطن عزیز کے تاریخی، تہذیبی،تکثیریت پسند اقدار کے خلاف ہوگا۔سری لنکا، افغانستان اور تبت سمیت کئی پڑوسی ممالک سے آنے والے مجروح اور کمزور لوگوں کی مدد کرنے کی ہندوستان کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے پاس ماضی کے واقعات کے پیش نظر جائز سیکورٹی خدشات ہیں اور وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے،لیکن ہم یہ بھی نہیں بھول سکتے کہ ہندوستان میں تہذیب و ثقافت اور جمہوریت کی ایک قدیم روایت رہی ہے اور ہم نے دنیا کی تمام خطّوں سے آنے والی مظلوم اقلیتوں کی ہمیشہ مدد کی ہے اور ان کا خیر مقدم کیا۔ اور یہی بات ہمارے ملک کو خوبصورت بناتی ہے۔ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا ہمارا سنسکار رہا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی مدد مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر کی جانی چاہئے۔ جو لوگ انسانیت کے بجائے مذہب کی بنیاد پر پناہ گزینوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی اپنے اپنے مفادات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس لئے ہندوستان کو اپنے پناہ گزین قانون میں مذہبی معیار کو ترک کر دینا چاہئے۔ حکومت ہند نے شہریت کے عمل کو آسان بنانے کے لئے 1955 کی شہریت کے قانون میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس نئے بل سے صرف عیسائیت، ہندازم، جین ازم، زرتشت ازم اور سکھ ازم کو ہی فائدہ حاصل ہوگا جنہیں اپنے پیدائشی ملکوں میں اقلیتی مذہب سمجھا جاتا ہے۔ اس بل سے بے گھر مسلم افراد کو خارج کردیا گیا ہے۔ لہذا، بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ملک نکالنے کی حکومت کی تازہ ترین تجویز اسی بل کا حصہ ہے۔

اگر چہ ہندوستان نے ایسے کسی بھی معاہدے پر دستخط نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے مہاجرین کو پناہ دینا اس کا فر ض ہو، لیکن اس ملک نے ہمیشہ تنازعات اور آفتوں سے پریشان پناہ گزینوں کو پناہ دیا ہے، خواہ وہ شام کے عیسائی ہوں، مالابار کے یہودی ہوں یا ایران کے پارسی ہوں۔ لہذا، روہنگیا مسلمانوں کو اس ملک سے نکالنا اس کی اس انسانی روایت سے انحراف ہوگا جس پر ہندوستان کئی دہائیوں سے قائم رہا ہے۔
انسانی حقوق ناقابل تقسیم ہیں اسی لئے انسانی حقوق کو کسی ایک یا چند مذاہب و اقوام کے لئے خاص نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، اگر ہندوستان روہنگیا مسلمانوں کو میانمار روانہ کر دیتا ہے تو یہ ایک کربناک تاریخی المیہ ہو گا۔ یہ ایسے ہی ہوگا جس طرح کیوبا اور امریکہ نے ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے 900 سے زائد یہودیوں پر مشتمل سمندری جہاز کو 13 مئی 1939 کو موت کے منھ میں ڈال دیا تھا (جن میں سے کم از کم 250 لوگوں کو نازی جرمنی فوج نیموت کے گھاٹ اتار دیا تھا)۔

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر مسلم ممالک روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے کے لئے کیوں آگے نہیں آ رہے ہیں؟ شام کے پناہ گزینوں کو جرمنی اور دوسرے یوروپین ممالک نے پناہ دی ہے۔ تاہم، بعض مسلم ممالک انہیں مالی مدد تو پہنچا رہے ہیں لیکن پناہ گزین کی حیثیت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ واقعی عالمی مسلم برادری کے لئے ایک' اجتماعی ذلت' کی بات ہے کہ اسلامی ممالک روہنگیا پناہ گزینوں سے اپنا منھ موڑ رہے ہیں۔انہوں نے شام، عراق، لیبیا، صومالیا اور دیگر جنگ زدہ مسلم ممالک کے انتہائی مصیبت زدہ مسلم پناہ گزینوں کو بھی پناہ فراہم نہیں کیا ہے۔‘‘Left Out In The Cold’’کے عنوان سے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل گلف کوآپریشن کونسل کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب، بحرین، کویت، قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے دولت مند ممالک نے بھی سرکاری طور پر ایک بھی شامی پناہ گزین کو نہیں اپنایا ہے۔

وہ مسلم ممالک جن کا شمار امیر ترین اسلامی ملکوں میں ہوتا ہے، وہ مسلم تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو بڑے پیمانے پر مالی امداد اور عطیہ فراہم کرتے ہیں۔ حال ہی میں ترکی نے بھی میانمار میں تشدد سے راہ فرار اختیار کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی امداد کے لئے 10 ہزار ٹن فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن وہ پناہ گزینوں کو اپنے وطن میں پناہ نہیں دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی باضابطہ طور پر مہاجریت کے قانونی تصور کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

بیشتر ہندوستانی مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ تمام روہنگیا مہاجروں کو ملک سے نکالنے کا حکومت کا اقدام ''اخلاقی طور پر انتہائی ناپسندیدہ'' ہے۔ہندوستان نے ہمیشہ پوری دنیا سے بے گھر مہاجرین کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و صدرسید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ حکومت ہند کو ان معصوم مہاجرین کو پناہ فراہم کرنا چاہئے جو اپنی زندگی اور وقار کی حفاظت کے لئے ہندوستان کی طرف امید کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش نے انسانی بنیادوں پر روہنگیا متاثرین کے لیے نئے دروازے کھولے ہیں اسی طرح ہندوستان کو بھی ان مہاجرین کی مدد کے لیے آگے آنا چاہئے۔

جماعت اسلامی ہند کے صدر مولانا سید جلال الدین عمری نے روہنگیا مسلمانوں کی ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ، او آئی سی اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے اپنے ہم وطنوں کو قتل سے روکنے، ان کی شہریت بحال کرنے، ان پر تمام قسم کی پابندیوں کو ہٹانے اور ان کی سماجی اور اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے برمی حکومت پر دباؤ بنائیں۔
اسی طرح، جمعیت علمائے ہند نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے تئیں اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لئے ایک آخری معیاد مقرر کرنے کی خاطر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لئے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے۔ جمعیت علمائے ہند نے ہندوستان میں پناہ کی تلاش کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کے تئیں حکومت ہند کو روایتی انسانی بنیادوں پر اپنے رویہ سے منحرف نہ ہونے پر بھی زور دیا ہے۔ وسیع پیمانے پر ہندوستانی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق جمعیت علمائے ہند نے حکومت ہند سے کہا ہے کہ ''اس سلسلے میں ہندوستان کو یورپی یونین سمیت ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کرنی چاہئے''۔

آل انڈیا علماء مشائخ بورڈ، جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی ہند جیسی ہندوستانی مسلم تنظیموں نے حکومت ہند، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن سے بجا طور پر میانمار کے راکھین کے علاقے میں ظلم و ستم کا شکار روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔ لیکن کیا انہوں نے اس سلسلے میں عالمی 'مسلم برادری' سے بھی موثر اقدامات کرنے کے لئے کوئی اپیل کی ہے؟ کیا انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ روہنگیا پناہ گزین مسلم ممالک اور بالخصوص خلیجی ممالک میں کیوں پناہ نہیں حاصل نہیں کرسکے؟

روہنگیا مہاجرین کا بحران واضح طور پر انسانی حقوق کا ایک مسئلہ ہے۔ لیکن یہ ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ جب نام نہاد اسلامی ممالک کے اندر حکومتوں یا دہشت گرد تنظیموں کی ایماء پر اسی طرح کی یا اس سے زیادہ درد ناک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ہندوستان میں یہ اسلامی تنظیمیں صدائے احتجاج بلند نہیں کرتی ہیں۔ لہذا، یہ سوال اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ کیا انسانی حقوق صرف غیر اسلامی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیتوں کے لئے ہیں؟ کیا علماء اور اسلامی رہنما اس وقت کبھی صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں جب مسلم ممالک میں غیر مسلم اقلیات کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے، ان کی لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے، ''اسلامی ریاست'' کے قیام کے نام پر ان کی منفی ذہن سازی کی جاتی ہے اور نکاح الجہاد کے نام پر ان کا استحصال کیا جاتا ہے؟

ہندوستانی مسلمانوں کو یہ محسوس کرنا ہوگا کہ ہماری انسانی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم مسلم ممالک اور خاص طور پر پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک میں جو کہ اسلامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں غیر مسلم اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کریں۔ ایک انتہائی اہم اور ضروری سوال یہ ہے کہ جب پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملیشیا، سعودی عرب اور مصر جیسے نام نہاد اسلامی ممالک اور مسلم دنیا کے دیگر حصوں میں مذہبی اقلیتوں کے حقوں کو مکمل طور پر پامال کیا جاتا ہے تو ہندوستان کے مسلم رہنما خاموش تماشائی کیوں بنے رہتے ہیں؟

Ghulam Rasool Dehlvi
About the Author: Ghulam Rasool Dehlvi Read More Articles by Ghulam Rasool Dehlvi: 3 Articles with 6185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.