حیدرآباد دکن کیا ہے یہ ہم سے پوچھو
اہل دل‘اہل نظر‘اہل قم سے پوچھو(عزیز النسا ء صبا)
17ستمبرریاست دکن کے عوام کے لئے انتہائی تکلیف دہ دن ہے۔اس تاریخ کانام
سنتے ہی یقینا ہر اس غیور دکنی کے آنکھوں میں آنسوآجاتے ہوں گے جواپنی
تاریخ سے واقف ہے اور اس پرفخر کرتا ہے۔ کس طرح ایک امیر ‘ خوشحال اور مسلم
ریاست کو پولیس ایکشن کے نام پرتباہ وبرباد کردیاگیا ‘ ہزاروں عوام کا قتل
عام کیاگیا ‘پردہ نشین اور عزت دار خواتین کی عصمتوں کولوٹاگیا‘لہلہاتے
ہوئے کھیتوں کو تبا ہ وتاراج کردیاگیا‘ صاف وشفاف دکن کی ندیوں میں اس دن
پانی کی جگہ خون بہایاگیا ۔ اتنا سب کرنے کے بعدظالموں کے کلیجے کوسکون
نہیں ملاپھربھائی کوبھائی سے دورکرتے ہوئے مسلمانوں کوتین ریاستوں میں بانٹ
دیاگیا ۔دکن ریاست کاتھوڑا حصہ کرناٹک اورتھوڑا مہاراشٹرا میں ضم کردیاگیا
تاکہ مسلم متحد نہ رہے۔85فیصد غیرمسلم آبادی والی اس موتیوں کی ریاست میں
ایک مسلم بادشاہ کی حکومت تھی اور تمام رعایا خوش تھی اوریہاں کی گنگاجمنی
تہذیب کی مثالیں ساری دنیا میں دی جاتی تھی اور لوگ دکنی ہونے پرفخر کرتے
تھے ۔نظام غیرمسلموں کے دلوں پر راج کرتے تھے پھراچانک ایسا کیا ہوگیاکہ
ہندوستان آزاد ہونے کے ایک سال بعد دکن پرحملہ کردیاگیا اورہندؤں
اورمسلمانوں میں نفرت پیدا کردی گئی جہاں مسلمانوں کے 800سالہ دورحکومت میں
ایک بھی فساد نہیں ہوا تھا‘وہیں آج 70سال کی جمہوریت حکومت میں حیدرآباد
میں ہردن کوئی نہ کوئی فرقہ پرستی کامظاہرہ ہوتا ہے اورفسادات میں ہزاروں
لوگ مارے جاتے ہیں۔ فرقہ پرست عناصر سے میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کون تھا
جس نے چین سے جنگ کے دوران وزیراعظم لال بہادر شاستری کوپانچ ہزار کیلو
سونے کاتعاون دیاتھا۔کون بادشاہ جومندروں کی تعمیر کے لئے عطیہ دیتاتھا۔
حسین ساگر‘نظام ساگر اوردیگر تالابیں بنانے والے کون تھے ۔عثمانیہ ہاسپٹل
‘گاندھی ہاسپٹل اورنیلوفر ہاسپٹل ‘کینسر ہاسپٹل جہاں بلا لحاظ مذہب وملت سب
کوشفا حاصل ہوتی ہے اس کے بنانے والے کون تھے۔نظام شوگر فیکٹری اور ریلوے
اسٹیشنس اورایئرپورٹس تمام ترقیاتی کام کس کے دورمیں مکمل ہوئے تھے۔سترہ
ستمبر کویوم نجات منانے کافرقہ پرستوں کا اعلان یہاں کی گنگاجمنی تہذیب
کوخراب کرنا ہے اور حیدرآباد دکن کے پرامن حالات کوبگاڑتے ہوئے اپنا سیاسی
مقصد حاصل کرنا ہے۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو2014ء میں یہاں سے ان کے
وزیراعظم بنانے کااعلان کیاگیاتھا لیکن اس کے باوجود بھی بی جے پی
کوتلنگانہ میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔بی جے پی کوآج تک متحدآندھرا ہویا
علحدہ ریاست تلنگانہ اس کی سیاسی طاقت یہاں نہ کے برابر ہے۔اس لئے وہ بے
چین نظرآتی ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی چال چلتے ہوئے اور یہاں کے پرامن شہریو ں
کوکسی نہ کسی طرح سے ورغلاتے ہوئے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن
یہ حیدرآباد کی زمین ہے یہاں کے عوام نے کبھی فرقہ پرستوں کا ساتھ نہیں
دیاہے اورآج بھی لوگ نظام حیدرآباد کو اپنابادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کا
احترام کرتے ہیں ۔اگرپرانے زخموں کوکریداجائے گا توکسی کے لئے بھی فائدہ
نہیں ہوگا۔
دلی بہت حسین ہے دلکش ہے لکھنو
لیکن کچھ اور ہی ہے ہمارے دکن کی بات (بانوطاہرسعید) |