ہم نے تو یہی پڑھ رکھا ہے اور مجھے اُمید ہے آپ نے بھی
کچھ ایسا ہی پڑھا ہو گا کہ صحافت کا مطلب خبر آپ تک پہنچانا ہے چاہے وہ خبر
کیسی بھی ہو خبر کو اپنی اصل حالت میں سننے یا پڑھنے والوں تک پہنچانا میرے
صحافی بھائیوں کی ڈیوٹی ہے مگر شائد ہمارے ملک کے بیشتر صحافی بھائی اس فرض
سے نا آشنا ہیں بلکے آشنا ہونا نہیں چاہتے کیونکہ لوگوں تک سچ پہنچانے سے
کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا اس لیے اُن صاحبان کو خبر کو مرچ مصالے ڈال کر اپنے
آقاؤں کی خوشی کے سامنے رکھتے ہوئے خبر پہنچا کر لوگوں کو بے خبر رکھنا
ہوتا ہے ۔ویسے کیسی آزادی ہے جس میں خبر پہنچا کر لوگوں کو حقیقت سے دور
رکھا جاتا ہے میرے بہت سے میڈیا کے دوستوں کی رائے ہے کہ جب تک خبر کو جھوٹ
کا تڑکا نہ لگایا جائے اور بری خبر کو اتنا بڑا نہ کر دیا جائے کہ عوام کی
نیند اُڑ جائے تب تک ریٹینگ حاصل نہیں ہوتی اور اُن کے نزدیک خوش آئند خبر
سے ریٹینگ میں اضافہ ممکن نہیں کیونکہ اچھی خبر سُن کر لوگ سر نہیں
پکڑتے۔اب انہیں یہ ریٹینگ کون دیتا ہو یہ میں نہیں جانتا مگر میڈیا کی اس
منفی ریس نے سچ میں لوگوں کی مسکراہٹیں چھین لی ہیں پاکستانی عوام ہر وقت
اسی فکر میں لاحق رہتی ہے کہ اگلے پل کیا ہونے جا رہا ہے ۔چند میڈیا کے
لوگوں نے پوری عوام کو اغوا کر رکھا ہے اور تاوان میں سکون کے طلب گا ر ہیں
میرے بہت سے پاکستانی بھائیوں نے تاوان ادا بھی کر دیا ہو مگر ان لوگوں کا
دل نہیں بھرتا اس لیے مسلسل یہ واردات کر رہے ہیں ۔بہت سے تاجر بھائی ملتے
ہیں جو پیسہ انوسٹ کرنے سے گھبرا رہے ہیں کہ نا جانے پاکستان میں حالات
کسیے بدل جا یئں گے ایک لمحے میں خدانخواستہ خون کی بارش ہو جائے گی اور ان
بھایؤں کو ایسا سوچنے پر مجبور خیر سے ہمارا میڈیا کر رہا ہے مجھے سمجھ
نہیں آتی کہ اچھی خبر دیتے ان کے منہ کو بل کیوں پڑنے لگ جاتے ہیں جبکہ
پاکستان میں الحمداﷲ آجکل اچھی خبروں کی بھرمار ہے ہمیں بہت سی کامیابیاں
حاصل ہوئی ہیں خواہ وہ قومی ہوں یا انٹرنشنل ۔انہی میں سے ایک اہم کامیابی
شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بننا ہے یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی
اہم پیش رفت ہے کیونکہ سارک اپنی اہمیت کھو چکی ہے ۔پاکستان اور بھارت ایک
ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن بنے ہیں مگر پاکستان کے لیے اس کی
اہمیت بھارت سے بڑھ کر ہے کیونکہ پاکستان اس پلیٹ فارم سے اپنا موقف کھول
کر بیان کر سکے گا جب بھارت حسب معمول تعصب کا شکار رہے گا جیساکہ سارک کے
گزشتہ اجلاس میں بھارت کرتا آیا ہے ۔بھارت خطے میں کبھی امن کا خواہ نہیں
رہا اس لیے ہمیشہ سے اپنے کمزور ساتھیوں کو ڈرا کر اپنی سمت کھڑا کرنے کی
ناکام کوشش میں لگا رہتا ہے یہ اور بات ہے کہ کبھی بھی بھارت کو اس میں
کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔بھارت کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا
ہو گی ورنہ حالات میں کشدگی برقرار رہے گی۔
آستانہ میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی روس کے صدر کے ساتھ ملاقات
بھی ایک خوش گوار پیش رفت ہے پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دے
رہا ہے جو میرے نزدیک اس وقت پاکستان کے لیے بہت اہم ہے اور میں اسے موجوڈ
حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی کہوں گا کیونکہ چندسال پہلے بھارت نے پاکستان
کو پوری دنیا میں تنہا کرنے کے لیے ناپاک کوشش کی تھیں اور تب کی ہماری
کمزور پالیسی کی وجہ سے انھیں کچھ حد تک اپنا مقصد حاصل ہو رہا تھا مگر
موجودہ پاکستانی پالیسیز نے پاکستان کے پلڑے میں دنیا کے بہت سے طاقت ور
ممالک ڈال دیے ہیں ۔پاکستان معاشی میدان میں ان ممالک سے مل کر اپنے ہدف کو
حاصل کر سکتا ہے ۔اس طرح میاں صاحب سے افغان صدر نے بھی ملاقات کی ۔افغان
حکومت کو اب اس بات کی سمجھ آنا شروع ہو گی ہے کہ افغانستان میں بہتری
پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے
ہے خوب سیاست کا طور ہمارے خطے میں
ہم نعروں کی ورز ش میں لگے رہتے ہیں
کوئی ٹوٹے ہوئے خوابوں کو بنا دے شائد
چند کنبوں کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں
آخر میں پھر اپنے میڈیا کے ایسے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں جو ہر وقت لوگوں
کو ٹنشن میں گھیرے رہتے ہیں خدارا لوگوں کو کچھ اچھی خبریں بھی سُنا دیا
کرو ۔یہ جو خبر میں نے آپ کے ساتھ پچھلی اسطور میں شئیر کی ہے اسے میڈیا کے
بہت سے چینل نے ٹائم دینے کی ذحمت نہیں کی نہ ہی یہ خبر ٹاک شو میں ڈسکس کی
گی کیونکہ شائد میڈیا کے یہ دوست سمجھتے ہیں کہ عوام تب ہی ڑیٹنگ دے گی جب
بری خبر کو مزید ہولناک بنا کر اور اچھی خبر میں سے بھی برے پہلوں کو تلاش
کر کے لوگوں کو حاصل ہونے والی خوشی سے محروم کیا جائے- |