انسان جدیدیت کی رو میں اندھا دھند بھاگتاترقی کی منازل
طے کرتا ہوا چاندکی طرف ایسا عازم سفر ہوا کہ زمین پر رہنا ہی بھول
گیا۔مخفی باتوں کا کھوج لگانے میں ایسا الجھا کہ انتہائی آسان اور سیدھی
باتوں کی طرف توجہ نہ رہی۔مثال کے طور پر ایک واضح سی بات (جسے بلا خوف
تردید سب مانتے ہیں)ہے کہ کوئی شخص اپنے متعلق اگر یہ کہتا پھرے کہ فلاں
ادارے سے اس کا تعلق ہے۔لیکن کسی خاص کوتاہی یا حکم عدولی کے سبب ادارہ صاف
کہہ دے کہ ہمارااب اس شخص سے کوئی تعلق نہیں رہا کیونکہ اس نے ایک واضح
پیغام کو فراموش کر دیاہے اور ایسے شخص کو جو انکار کرے ہم اپنا نہیں
سکتے،تو ایسے شخص کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہو گا کہ اس شخص کا اب
اس ادارے سے نہ تو کوئی تعلق رہا اور نہ اس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ملنے
والی مراعات و آسانیاں اور سہولیات باقی رہیں۔جب یہ بات بغیر کسی تردّد کے
سب کی سمجھ میں آتی ہے تو پھر اس قانون کو ہم کیوں سنجیدگی سے نہیں لیتے (اور
قانون بھی وہ جو کسی دنیا کا بنایا ہوا نہیں بلکہ ساری دنیا بنانے والا کا
ہے) کہ مفہومِ حدیث ہے کہ " مَن غَش فَلیسَ مِنّی"،جس نے ملاوٹ کی وہ ہم
میں سے نہیں ہے۔اب سطور بالا میں تمہیدی طور پر بیان کئے گئے اصول کے تناظر
میں اس حدیث مبارکہ کو پرکھیے کہ جس نے ملاوٹ کی،آقائے نامداؐر فرماتے ہیں
کہ وہ مجھؐ میں سے نہیں ہے یعنی میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں یعنی اب وہ مجھ
سے شفاعت کی بھی امید نہ رکھے،کیونکہ میرے واضح حکم کی نافرمانی کر کے اس
نے مجھ سے اپنا رابطہ ہی منقطع کر لیا ہے۔اب غور کیجیے کہ وہ "جو انؐ سے ہے
گریزاں وہ خدا سے ہے گریزاں" کے مصداق دائرہ اسلام سے ہی جاتا رہا۔اور اب
غور کیجیے کہ ہمارا پورا معاشرہ کس طرح ملاوٹ کی ہرانتہا کو پہنچ چکا
ہے۔برائی بڑھتی ہی اس وقت ہے جب اس کے برا ہونے کا احساس مر جاتا ہے۔ اور
یہی ہوا کہ یہ برائی آج پورے معاشرے میں سر چڑھ کر بول رہی ہے اور اس برائی
کو کرنے والوں کو احساس تک نہیں ہے۔ہر شخص اس برائی کو اپنی ضرورت اورحق
سمجھ کر ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے۔کسی سے اس بابت پوچھ لیجیے،تو یہ توضیح
سننے کو ملے گی کہ اجی !چھوڑیے،سب کر رہے ہیں،کس کس کو منع کریں گے۔اب دو
ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ایک یہ کہ نعوذ باﷲ ہمیں اس حدیث کی صداقت پر کوئی
شبہ ہے اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نعوذ باﷲ ہم نے اس حکم کو انتہائی
غیر سنجیدگی سے لیا ہے اور یہ سوچ کر اہمیت نہیں دے رہے کہ ٹھیک ہے ہمیں
کوئی پرواہ نہیں ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ دونوں صورتیں علامت کفر
ہیں۔ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ "بندہ صبح کافر ہو گا تو شام کو مسلمان،
شام کو مسلمان ہو گا تو صبح کافر"۔یعنی ہم کلمہ گو تو ہیں ،اکثر نیکی کریں
گے بلکہ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل سے ثواب بھی پائیں گے لیکن کبھی کوئی ایسا
فعلِ بد ہم سے سر انجام ہو گا جو ہمیں سیدھا کفر کی دلدل میں دھنسا دے گا،
استغفراﷲ ،لیکن ہمیں ادراک نہیں ہو گا،شعور نہیں ہو گا۔اسی لئے ہی شاید ہر
سانس کے ساتھ کلمہ کے ورد کی کثرت سے کرنے کی تلقین ہے کہ خدانخواستہ کبھی
ایسے کسی فعل بد کے مرتکب ہو بھی گئے ہوئے تو فوراً دائرہ اسلام میں واپس آ
جائیں اور خدانخواستہ حالت کفر میں کہیں موت نہ آ جائے۔ ہمارا پورا معاشرہ
اس گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔حکم ہے کہ کم نہ تولو،جو مال خریدار کو
دکھاؤ،تول کر بھی وہی دو۔قسم کھانے سے مال تو بک جاتا ہے لیکن برکت جاتی
رہتی ہے۔ کتب سیرتؐ ایسے احکامات سے بھری پڑی ہیں۔اور یہاں حال یہ ہے کہ
انسانی جانیں بچانے کے لئے بطورِ وسیلہ استعمال کی جانے والی ادوویات سے لے
کر انسانی حیات کی بقا و نمو کی غرض سے کھائی جانے والی تمام اشیائے خوردو
نوش تک سب ملاوٹ زدہ ہیں۔دینے والے کو بھی پتہ ہے کہ میں کیا دے رہا ہوں
اور لینے والے کے لئے بھی پتہ ہونے کے باوجود کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ انسان
کو جس عقل و شعور اور علم و حکمت کی وجہ سے اشرف المخلوقات بنایا اور مسجود
ملائک ٹھہرایا،انسان اسی فہم و فراست کو آج ابلیس کی خوشنودی کے لئے بروئے
کار لا رہا ہے۔مثبت اور تعمیری ایجادات و اختراعات ترک کر کے منفی و تخریبی
معاملات کو جنم دے رہا ہے۔ مختلف اشیاء میں ان کی ہیئت،رنگ اور صورت کے
مطابق ملاوٹ کے ایسے ایسے طریقے دریافت کرتا ہے کہ عقلِ سلیم ماتم کرتی ہے
کہ کاش یہ صلاحیتیں نیکی کے کاموں میں صَرف ہوتیں ۔یہ ملاوٹ چونکہ اب ہمارے
معاشرے میں باعثِ ننگ و عار بھی نہیں رہی تو اب اس صفت ِرذیلہ نے ہمارے
قلوب و اذہان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔اب یہ معاشرے کا وہ
ناسور ہے کہ انسانی کردار و مزاج کا حصہ بن گئی ہے،لہذا بات اشیاء میں
ملاوٹ سے بہت دور نکل کر خلوص کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے رشتوں اور ناطوں
کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے تک جا پہنچی ہے۔کوئی اپنے مفادات کے بغیر کسی سے
خلوص سے ملنے کا روادار نہیں رہا۔جنازے تک مقامِ عبرت نہ رہے بس رسمی
ادائیگی کا زریعہ بن گئے۔ پورے کا پورا معاشرہ بے حسی و بے توقیری کی علامت
بنا بیٹھا ہے اور ہم سب اس غلاظت و ذلالت کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔دراصل اس
ملاوٹ کا اصل سبب لالچ ہے اور مقام دل و نگاہ اور خیالات ہیں۔پہلے انسان کی
سوچ ملاوٹ ذدہ ہوئی پھر اس ملاوٹ کا نحوست ذدہ سایہ اس کے ہر کام پر پڑتا
گیا۔ اور وہ اپنے تئیں یہ سمجھا کہ اس ملاوٹ کے بنا تو منفعت کا سوچا بھی
نہیں جا سکتا۔لہذاٰ اس ملاوٹ سے نہ رشتے بچ سکے نہ تجارت،نہ فرائض بچ سکے
اور نہ ہی عبادات۔جب سوچ غلیظ ہوئی تو اس سوچ کے تابع کیا جانے والا ہر کام
ہی طمع و ہوس سے بھرپور ہو گیا۔نتیجتاً سارا معاشرہ صداقت و امانت داری کی
مثال بننے کی بجائے کاذب اور خائن بن گیا۔ اگر احساس ہو جائے تو سنبھلنے
میں دیر نہیں لگتی۔اب بھی وقت ہے کہ ان تباہ کار روّیوں سے چھٹکارا پا لیں
جس کے باعث ماندگی و اِدبار اور نحوست نے ہماری زندگیوں میں ڈیرے ڈال رکھے
ہیں۔ پروردگار سے توبہ کریں اور آئندہ کے لئے پاکیزہ زندگی گذارنے کا جتن
کریں۔کیونکہ " یہ دنیا کچھ نہیں سوائے دھوکے کا سامان" ۔ ۔ ۔ یا د رکھیے "سب
ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا،جب لاد چلے گا بنجارا"
ملاوٹ کدہ ہے جہاں اور ہرفرد ہے کفیل
یہی نکتہ توکار فرما کار زارِ دہر میں ہے۔(بقلم خود) |