یہ حقیقت ہے کہ ہمارا روحانی نظام بگڑ جانے سے ہمارا سب
کچھ بگڑ گیا۔ مساجد تربیت کے مرکز ہوا کرتی تھیں ،ان کی بنیاد محض نماز کی
گنتی پوری کرنے کیلئے تو نہیں رکھی گئی تھی ،یہ تو معاشرہ کے تمام مسائل کے
حل کا واحد مرکز ہوا کرتی تھیں ،تعلیم و تربیت، علم و ہنر، ملک و ملت کی
سلامتی و بقاء کے تمام فیصلے مساجد میں طے پایا کرتے تھے آ ج ہم نے ان کی
اس حیثیت کو ہر مسلمان سے دور کر دیا ہے، ہم نے اللہ عزوجل کے گھروں سے یہ
عظیم مقام چھین کر فرسودہ عدالتوں کو دے دیا۔ روح کی تربیت نہ ہونے سے جسم
قلاش ہو جاتا ہے ،ہم دین و دنیا سے بے نیاز خود کوبھی بھلابیٹھے ۔آج مساجد
تربیت کے مراکز نہیں رہیں ،ہم وہاں محض نماز کی گنتی پوری کرنے جاتے ہیں
اور پھر خود اپنے ہاتھوں سے دن بھر کیلئے اللہ عزوجل کی رحمت کے دروازے بند
کر دیتے ہیں اور پھر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ ! ہم پر مہربانی
فرما ،ہم پر رحم فرما ،ہماری مدد فرما ۔مگر یہ سب کچھ آئے کہاں سے جبکہ اس
کے آمد کے راستے پر تو تالا لگا ہے ؟
امت کو اس تباہی سے دوچار کرنے میں علماء ، مشائخ ، صوفی اور پیر حضرات کے
ساتھ ساتھ نااہل حکمران طبقہ بھی برابر کا ملوث ہے۔حکمرانوں اور سیاستدانوں
کی تمام تر توجہ اپنی سیاست چمکانے اور عوامی پروجیکٹس پر اپنی بڑھ چڑھ کر
نود و نمائش اور خود نمائی پر مرکوز ہے، انہیں دین و ملت سے کوئی غرض ہی
نہیں۔ وہ دین و ملت کے ساتھ ہونے والی ہر نیکی بدی سے اپنے آپ کو بری الذمہ
اور مستثناء سمجھتے ہیں۔دین کے ساتھ ان کی وابستگی و محبت کا ثبوت نماز کے
اوقات میں مساجد اور گھروں میں بجلی کا نہ ہونا۔ لوگوں کا وضو کیلئے پانی
اور گرمیوں میں نماز کے وقت ہواکو ترسنا اوررمضان المبارک میں سحری و
افطاری کے اوقات بجلی کا بند ہونا عیاں کرتا ہے کہ ان خود غرض و خود نما
حکمرانوں کو اپنے دین سے کوئی لگن اور وابستگی نہیں۔لاچار عوام اور غریب
لوگوں کے ساتھ ان کی رغبت و قربت پانچ سال بعد بڑھتی ہے جب ووٹوں کا لالچ
اور خودغرضی ہوپھر پانچ سال تک لوگوں کے مسائل حل کرنا تو درکنار ، کسی کے
احوال پوچھنا اور رسماً سلام لینا تک بھی گوارا نہیں کرتے۔ملک کے غرباء پر
امراء ، زمینداروں اور بااختیار لوگوں کے غیظ و غضب اور ظلم و زیادتی پر
قوم کے غرباء کا ساتھ دینے کی بجائے ظالم و بااختیار لوگوں کے ساتھ
بیٹھناان کا وطیرہ ہے اس لیے کہ انہیں قوم کے غرباء سے کوئی غرض ہی نہیں ،
پانچ سال بعد انہیں جو غرض پڑتی وہ امراء غرباء کو دبا کر، رعب جما کر، حکم
عدولی کی صورت میں اپنی زمینوں اور جائیدادوں میں قدم نہ رکھنے سے دھمکا کر
پوری کر دیتے ہیں اس لیے انہیں غرباء سے کیا واسطہ بھوکے مریں یا پیاسے؟
حضرت سیدنا امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ دریا کنارے کسی کتے یا
بکری کے بچے کے پیاسے مر جانے پر رب کی بارگاہ میں جوابدہ ہیں مگر یہ بے
گناہ لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور بے دریغ ناحق قتل پر یہ رب کے سامنے
کوئی جوابدہ نہیں۔ بلکہ ہمارے ایک معروف وزیر برائے پانی و بجلی نے بیان
دغا کہ ا گر سخت گرمیوں میں پانی و بجلی نہ ملنے کی صورت میں اگر کوئی حبس
و گٹھن سے مر جائے تو ہم اس کے جواب دہ نہیں۔لگتا ہے یہ انوکھی مخلوق
خداوند کریم سے احتساب و پوچھ گچھ کی چھوٹ لے کے آئے ہوئے ہیں دنیا میں ۔
خود غرض، خود نماحکمران بتائیں کہ لوگوں کو نماز، زکوٰۃ کا پابند بنانے
کیلئے کتنی قانون سازی کی ؟ کتنے طور طریقے اپنائے؟ کون سے لائحہ عمل
اختیار کیے؟کتنی میٹنگز اور غور و غوض کیں کہ مسلم معاشرہ نماز زکوٰۃ کا
پابند ہو جائے ؟کیا یہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں؟ کیا
اسلامی شعار کی پاسداری کروانا، اسلامی اقدار و روایات کو فروغ دینا مسلم
حکمرانوں کی ذمہ داری سے باہر ہے؟کیا حکمران اس سے خود کو بری الذمہ سمجھتے
ہیں کہ آخرت میں رب کی عدالت میں ان سے اس مسئلہ پر کوئی پوچھ گچھ نہیں
ہوگی؟حالانکہ اگر حکومت چاہے تو اسلامی شعار اور اصولوں پر سختی اور قانون
سازی سے عمل کروا سکتی ہے۔کوئی بھی اسلامی حکومت معاشرہ میں قرآن و سنت کے
احکامات کے تنفیذ کی نگراں اور ذمہ دار ہوتی ہے۔ لوگ قرآن کو پڑھ کر اتنا
نہیں سدھر سکتے جتنا ایک اسلام پسند اور سیرت طیبہ پر کاربند حکومت لوگوں
کو سدھار اور راہ راست پر لا سکتی اور فسق و فجور سے باز رکھ سکتی ہے۔خلیفہ
ثانی امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ
واللہ ما یزع اللہ بالسلطان اعظم مما یزع بالقرآن۔
’’ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ حکومت کے ذریعے سے برائیوں کا جو سدباب کرتا
ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو قرآن کے ذریعے سے کرتا ہے۔ (کنز العمال)
حکومت سخت قوانین کا نفاذ کر کے لوگوں کو ہر طرح کی گمراہی و ضلالت ، فسق و
فجور اور براہیوں سے باز رکھ سکتی ہے۔ اگر لوگ نماز روزہ کی پابندی نہیں
کرتے تو حکومت سختی سے کروا سکتی ہے۔ لوگ زکوٰۃ و عشر نہیں ادا کرتے تو
حکومت قانون سازی سے لے سکتی ہے اور سود خوری سے باز رکھ سکتی ہے۔ امیر
المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض لوگ حضور ﷺ
کے بعد زکوٰۃ کے انکاری ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ ان سے جنگ کرنے پر اتر
آئے فرمایا
’’ اللہ کی قسم! اگرلوگ مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں جو وہ رسول
اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں زکوۃ کے طور پر دیا کرتے تھے تو میں ان کے خلاف
جنگ کا اعلان کرو ں گا۔‘‘
اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو ٹوکا اور فرمایا ۔’’ آپ
ان لوگوں کے خلاف کیونکر جنگ کریں گے جو کلمہ گو ہیں؟
یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔’’ واللہ! لا قاتلن من فرق بین
الصلوۃ والزکوۃo ’’اللہ کی قسم ! جو لوگ نماز اور زکوۃ میں تفریق کرتے ہیں
میں ان کے خلاف لازماً جنگ کروں گا۔‘‘
کیا وہ اسلامی ریاست کے حکمران نہیں تھے جو اسلامی شعار کی عدم ادائیگی میں
جنگ پر اتر آتے تھے؟ کسی بھی اسلامی معاشرہ کو جانچے کے دو پیمانے ہیں نماز
اور زکوٰۃ۔ اگر کسی معاشرہ میں یہ دونوں پیمانے اپنی پوری روح سے موجود
نہیں۔تو اس پر اسلامی معاشرہ کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔ کیا یہ دونوں
پیمانے ہمارے ملک میں اپنی پوری روح کے ساتھ موجود ہیں؟ کیا کسی نے اس پے
کبھی سوچ و بچار کی اور میٹنگز بلوائیں اور کوئی ضابطہ اور دستور طے کیا؟ان
پر جو رب کے غضب کا کوڑا برسنا ہے اس کا شاید انہیں اندازہ ہی نہیں۔اگر کسی
باشعور ،ذی عقل شخص کو پتہ چل جائے حکمرانوں کا آخرت میں رب کی عدالت میں
حساب کیساہے تو وہ خیرات میں ملی حکمرانی بھی قبول نہ کرے یہ جس کے لیے
مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں رب کے سامنے کھڑے ہونے
کا کوئی ڈر اور خوف ہی نہیں، یا یہ یوم حساب کا یقین ہی نہیں رکھتے۔
یہ نااہل جاہل ، کرپٹ طبقے نماز زکوٰۃ کی پابندی تو کیا کرواتے انہوں نے مل
کر اسلام کے اس اہم اور پورے کے پورے جزو، دین کے ایک اعلیٰ ستون کو بھی
قومی نظامت سے الگ کرکے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا۔ مساجد اسلام کی تربیت
گاہ، اور عدل و انصاف کازینہ ہوا کرتی تھیں ہم نے ان سے وہ نظام چھین کر
سکولوں اور فرسودہ عدالتوں کو دے دیا۔اگر امت کی اصلاح کرنی ہے تو مساجد
کوقومی دھارے میں شامل کر کے ایک اہم قومی ادارے اور فلاحی مرکز کا درجہ دے
کر وہ مقام ، وہ مرتبہ پھرسے دینا ہو گا جو اسلام نے انہیں ابتداء سے ہی
عطا کیا تھا۔
مساجد کو قومی دھارے میں شامل کرکے تمام مساجد کی رجسٹریشن کی جائے، سکول
کی طرح قومی ادارے کا درجہ دیا ہے اور اس میں سند یافتہ اعلیٰ تعلیم، متقی
و پرہیزگار شخصیات کا تقرر کیا جائے جو اپنے علاقہ ، اپنی حددو کے مکینوں
کے لئے جج، عادل، مفتی اور قاضی کے فرائض بھی سر انجام دیں اور لوگوں کو
گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں تاکہ لوگوں کو فرسودہ عدالتوں ، رشوت و
بھتہ خوری کے گڑھ تھانے کچہریوں (جہاں غریبوں کی کوئی شنوائی بھی نہیں)کے
چکر کاٹنے کی بجائے گھر بیٹھے انصاف ملے۔ مساجد کو عوامی فلاحی مرکز بنایا
جائے جو صبح تہجد کے وقت سے لیکر عشاء کے بعد تک لوگوں کے مسائل و تنازعات
کے حل اور تعلیم و تربیت کیلئے کھلے رہیں تاکہ لوگوں کو بغیر کسی خواری اور
خرچ کے گھر بیٹھے انصاف اور تربیت ملے۔
(مساجد سے کام لینے اور حکومت بنانے کا لائحہ عمل میں نے ’’ حقیقی عالمی
اسلامی فلاحی نظام حکومت ‘‘ کے عنوان میں لکھ دیا ہے جسے نافذ کرنے کی پوری
سہی کی جائے گی انشاء اللہ عزوجل اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اس کے بغیر
امت کی اصلاح مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔)
آج بعض معتبر اسلامی تحریکیں اور پیر خانے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کر کے
بیٹھ گئے اور اپنے اوپر لیبل چسپاں کر دیا کہ ہم غیر سیاسی ہیں ، ہمارا
سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ارے بھائی ! دین سیاست سے کب
جدا ہے؟اگر تم دین کو سیاست سے الگ تھلک کر کے بیٹھ جاؤ گے تو وہ ظلم و جبر
، لوٹ گھسوٹ ، ناانصافی، بے اعتدالی کے سوا کچھ نہیں رہے گی ، اور یہ
خونخوار معاشی درندے آزاد اور وحشی ہو جائیں گے اور اپنی من مانیاں کرتے
پھریں گے اور معاشرہ کو گمراہی و ضلالت کی تحریکیوں میں لے ڈوبیں گے جیسا
کہ آج ہے۔اوپر چند سو لوگ ہیں اور نیچے کروڑوں کی عوام ہے ۔ اگر آپ اوپر
چند سو کو قابو کر لو گے تو کروڑوں کو قابو کرنا آسان ہے۔ اگر یہ چند سو
سدھر جائیں اور دینی اصولوں کے مطابق چلیں اور اس کے مطابق قوانین ترتیب
دیں تو معاشرہ کو سدھارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ سیاست سے دور رہ کر علماء ارب
ہا کوششیں کر لیں وہ معاشرہ کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ اگر تم حکمرانوں پر چڑھ
کے نہیں رہو گے اور ان کی لگام اپنے ہاتھوں میں نہیں لو گے تو معاشرہ کو
برائیوں سے کیسے بچا پاؤ گے؟ جب تک ضلالت و گمراہی کے مراکز ، معاشرتی تباہ
کاریوں اور بد اخلاقیوں پر اوپر اعلیٰ سطح سے پابندی نہ لگے اور سخت قوانین
نہ بنیں ، نیچے سے آپ لاکھ کوششیں کر لیں ان کو نہیں روک پائیں گے۔
مذہبی اصول پر چلنے اور چلانے میں حکومت کو بڑاعمل دخل ہے۔اس کو جزا و سزا
کا قانون نافذ کرنے والی قوت کہا جا سکتا ہے۔جو قرآن و حدیث اور رشد و
ہدایت سے نہ بدلیں، شیطان کی راہ پر ،فساد کی راہ پر چلیں تو ان کو قانون
کا ڈنڈا، قانون کا شکنجہ سیدھا کر دے گا ۔ہمارا معاشرہ جس حد تک پستی میں
جا چکا اب اسے سیدھا کرنے کیلئے صرف ڈنڈا پیر ہی کارگر ثابت ہو سکتا۔
روحانی پیر سب بے وقعت و بے اثر ثابت ہو چکے ہیں، وہ معاشرہ کی اصلاح اور
پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے میں کوئی کردار ادانہیں کر سکے۔ آج
کتنی جماعتیں تبلیغ کر رہی ہیں؟ دعوت اسلامی، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت
اور بے شمار گروہ اور ٹولے معاشرہ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے لیکن کیا
معاشرہ کی اصلاح ہو رہی ہے؟ کیا معاشرہ گمراہی و ضلالت کی پستیوں سے نکل کر
فلاح اور نیکی کی طرف گامزن ہے؟ وہ تو روز بروز گمراہی و ضلالت ، فسق و
فجور کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں میں گرتا جا رہا ہے۔آخر اتنی اصلاحی تحریکیں
ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہے؟ معاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں ہو رہی؟ کیا اتنی
تحریکوں نے مل کر کئی عشروں کی انتھک محنت سے کسی ایک معاشرتی برائی پر
قابو پا یا ہے جو اس وقت معاشرہ میں نہیں پائی جاتی؟ کوئی ایک ثابت کر کے
دیکھائیں کہ یہ برائی ان کی کوششوں سے معاشرہ میں موجود نہیں۔اس کی کیا وجہ
ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکوں ، گروہوں، ٹولوں اور گدی مکینوں نے اپنے
آپ کو سیاست سے الگ کیا ہوا ہے۔ ایسی تحریکیں، ایسے گروہ، ایسے ٹولے ، ایسے
گدی مکین حکیم الامت حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول یاد رکھیں۔
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ شہرہ آفاق شعر بڑا با معنی اور پراثر ہے۔ چنگیزی
سے مراد لا قانونیت ہے ظلم و جبر اور خون خرابہ ہے۔ اگر مسلمان قوم ملک کے
نظم و نسق اور نظام چلانے میں دین سے علیحدگی اختیار کر لیں تو پھر تباہی
شروع ہو جاتی ہے، ظلم و زیادتی ، ناانصافی، بے راہ روی اور خون خرابہ ہی
بڑھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ آج کا ہمارا معاشرہ بے لاگا م و بے مہار ہے اور
ہزار کوششوں کے باوجود نہیں سنبھالا جا رہا۔
اسلام دنیاکا یگانہ مذہب ہے جس نے بنی نوع انسان کی مکمل رہنمائی کی ہے۔
دینی، مذہبی، اخلاقی، سیاسی ، سماجی ،اقتصادی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں
فلاح و کامیابی کا ایک ایسا جامع رہنما اصول دیا ہے جس پر چل کر ہم دین و
دنیا دونوں جہاں میں کامیاب و کامراں ہوسکتے ہیں۔اسلام نے کبھی بھی دین و
دنیا کی تفریق کو روا نہیں رکھا۔اس کی نظر میں دنیاوی کام بھی اگر شریعت کی
روشنی میں انجام دیئے جائیں تو وہ دین ہے اس پر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے
اجر ملے گا۔چنانچہ اسلام ایک ایسی مضبوط اور لاثانی سیاسی طاقت کا اظہار
کرتا ہے جو انسانوں کے عام فائدے ، عام بہتری اور عام تنظیم کے لئے ہو۔ جس
میں تمام افراد معاشرہ کو یکساں حقوق دئیے گئے ہوں، کسی پر ظلم نہ ہو ، کسی
کا حق نہ دبایا جائے ، کمزوروں کو نہ ستایاجائے ، کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ
ہو،سبھی کے ساتھ مکمل انصاف ہو ، ہر ایک کی عزت و آبرو کا احترام کیاجائے۔
حکومت تمام افراد کی جان و مال ، عزت و آبرو کی محافظ اور نگراں ہو۔اسلام
ایسی ہی سیاست و حکومت کا قائل ہے۔اسلام کا حکومت و قیادت اور سیاست سے وہی
تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو ہوسکتا ہے۔قرآن کریم اور
احادیث مبارکہ کا ایک بڑا حصہ سیاست و حکومت کے تعلق کو ثابت کرتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دین اور سیاست کی تفریق
مٹادی۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف نبی و رسول بھی تھے تو دوسری
طرف عظیم قائد و رہنما بھی۔آپ بشیر بھی تھے اور نذیر بھی ، رات کے عابد و
زاہد بھی اور دن کے سپاہی او رمجاہد بھی ، امام و مفتی بھی اور سیاست و
قیادت کے پیشوا بھی۔بر وقت حاکم بھی تھے اور رعایا بھی۔ حضرت سیدنا عمر
فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیک وقت خلیفۃ المومنین بھی تھے اور فرماں رواں
اور شہنشاہ بھی ، جرنیل و سپہ سالار بھی ، جن کے جاہ و جلال سے قیصر و کسری
کی حکومت بھی کانپتی تھی۔ راتوں کو جاگ کرتنہا گشت کرنا، پہرا دینا اور
لوگوں کے احوال معلوم کرنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔کچھ کم فہم و کم ظرف اور
کم عقل لوگ مذہب اور سیاست کے درمیان تفریق کی دیوار حائل کرکے اسلام کو
سیاست و حکومت سے بے تعلق اور بے واسطہ کرنا چاہتے ہیں۔وہ دراصل مسلم مخالف
عناصر کے شاتم دماغ لوگوں کی سازش کا شکار ہیں جو حقیقی معنی میں خود تو
حکومت کو مذہب سے آزاد نہ کرسکے لیکن مسلمانوں کی سیاسی پرواز کو مضمحل
کرنے کے لئے دین و دنیا کی علیحدگی کا زہر گھول ر ہے ہیں۔دین و مذہب کے
بغیر سیاست و قیادت کا تصور گمراہی اور سرکشی ہے۔جس کا نتیجہ ظلم و
ناانصافی ،بے اطمینانی و بے ضمیری اور حق تلفی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔جب
سیاست کو دین سے الگ کردیاجائے تو صرف ہوس کی امیری اور ہوس کی وزیری رہ
جاتی ہے۔بالفظ دیگر چنگیزی رہ جاتی ہے۔حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے اسی
حقیقت کو یوں بیان کیا ہے۔
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
رہی ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری
دینی اصول و روایات، اخلاقیات ، عدل و انصاف، برابری و مساوات، رواداری،
مشورہ، مکالمہ، تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، جھوٹے پروپیگنڈوں سے
اجتناب، غلط دعوؤں سے احتراز، عوام کو غلط بیانی کے ذریعے گمراہ نہ کرنا،
محنت اور ہر وقت ملک کی بھلائی کے لیے سوچنا جیسی اقدار شامل ہیں۔ اگر ان
مسلمہ اخلاقیات سے ہٹ کر سیاست کی گئی اور امورِ مملکت انجام دیے گئے تو اس
کا نتیجہ ملک وقوم کے لیے تباہی اور بدترین ڈکٹیٹر شپ کی صورت میں نکلتا
ہے۔ جواس بات کاثبوت ہے کہ سیاست کواگرمذہب سے الگ کردیاجائے تو سیاست کاوہ
حال ہوتاہے جو آج کل ہماری سیاست کاہے۔ حکومتی امور چلاتے اور سیاست کرتے
وقت مسلمہ دینی اصولوں اور عالمگیر اخلاقیات کاخاص خیال رکھا جاتا ہے ۔
اخلاقیات کسی بھی حکومت کا سب سے اہم جزو ہوتا ہے۔ اخلاقیات اسلامی تعلیمات
میں تو شامل ہیں ہی، دنیا کے سب اہم مذاہب میں بھی اخلاقیات درس ملتا ہے۔
گویا اخلاقیات ایک عالمگیر فعل ہیں جن پر عمل ہر قوم اور ملک کے لیے ضروری
ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے اسلامی ملک میں اخلاقیات ہماری اسمبلیوں میں
دیکھنے کو نہیں ملتیں باقی معاشرہ میں کہاں سے آنی ہیں؟
دین و مذہب سے بیزار ،قوم و ملت کے نفع و ضرر سے بے نیاز ،ضمیر فروش و مفاد
پرست جن کادل و ذہن اور دماغ غلام ہے ، مغرب کے متقلد، جو دوسروں کی فکر سے
سوچتے اور دوسروں کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ علماء اور دین دار افراد کی
سیاست میں شمولیت یا حصہ داری کو دین و اسلام سے خارج مانتے ہیں۔ان کا خیال
ہے کہ علماء اور دین دار لوگوں کو سیاست و قیادت سے کیا واسطہ۔ ان کو تو
سیاست سے الگ تھلک رہنا چاہئے۔ان کا کام تو صرف نماز پڑھنا ،عبادت کرنا اور
دوسرے مذہبی امور کو انجام دینا ہے۔لیکن شاید وہ ایسا کہتے وقت اسلامی
تعلیمات کو بھول جاتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی ان
کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔وہ صحابہ کرام کے کردار کو فراموش کردیتے
ہیں۔ اسلاف کی زندگی ان کی نظروں سے غائب ہوجاتی ہے۔ان کے ذہن میں یہ بات
نہیں آتی کہ سب سے پہلے اسلام نے ہی مضبوط جمہوری سیاست کی بنیاد ڈالی
تھی۔جس میں تمام افراد معاشرہ کے حقوق کی یکساں رعایت کی گئی ہے۔محکمہ
وزارت ،سول سوسائٹی کا قیام ، تھانے اور پولیس چوکی کا انتظام ،رات کا پہرہ
اور گشت، وائے سرائے اور اسٹیشن کا بندوبست ،انصاف کے ساتھ ترقی اور سماجی
برابری کا حق سب سے پہلے اسلام نے ہی عطا کیا ہے۔اسلام ایک ایسے نظام حکومت
کا امین اور علمبردار ہے جو بہتر نظام ، پاکیزہ سماج ، صاحب اخلاق و کردار
اور صحت مند معاشرہ کا ضامن ہو۔جس میں ہر فرد کو آزادی اور برابری کے ساتھ
جینے کا حق حاصل ہو۔جس میں امیری اور غریبی کا فرق مٹ جائے۔سب انسان بھائی
بھائی بن کر رہیں۔اس لئے ایک اچھی حکومت کی تشکیل کے لئے علمائے کرام ،دین
دار اور ایماندار لوگوں کا سیاست میں قدم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اگر ہمیں
معاشرہ کی اصلاح کرنے ہے اور قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ہے تو دین اور
سیاست میں تفریق ختم کرنا ہو گی۔
تمام مکاتب فکر کے علماء، صوفیوں، پیرو مشائخ سے انتہائی معذرت کے ساتھ آج
جب کہ ہر طرف افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اس وقت دین و ملت جس
مذہبی ، مسلکی منافرت و ا نتشار کا شکار ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں
ملتی، حالات اور وقت اتحاد امت کا تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم ہر قسم کے گروہوں
کے حصار اور مذہبی و مسلکی منافرت کی دلدل سے چھٹکا رہ پا کر اسلام اور اہل
اسلام کے عظیم تر مفاد کیلئے کام کریں۔ اگر ہم دین و مذہب، ملک و قوم کی
بقا اور استحکام چاہتے ہیں تو ہمیں ان گروہ بندیوں، نسلی و لسانی تعصبات سے
پاک ہو کر ملت اسلامیہ کی بالادستی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہم ایک امت، ایک
اخوت اور ایک وحدت ہیں۔ ہمارا دین ایک، رسول ایک، کتاب ایک،قبلہ ایک، سمت
ایک، جہت ایک، نفع و نقصان ایک تو پھر ہم ایک کیوں نہیں ہو جاتے؟ ہم میں
اختلاف کس بات کا؟ ہم میں ایک دوسرے کی عداوت، بغض اور کینہ کس بناء پر
ہے؟عالمی سطح پر دنیا والے ہم سب کو مسلمان گردان کر ہی وار کرتے ہیں وہ
شیعہ ، سنی، وہابی سمجھ کے چھوڑ نہیں دیتے۔
آؤ! ہم سب آپس میں مل بیٹھ کر کوئی راستہ تلاش کریں، امت کو زوال و پستی کی
تاریکوں سے نکالنے کا، امت کو آگ و آہن کی بھٹی سے نکال کر ترقی و کامرانی
کی راہ پر ڈالنے اور دنیا میں عزت و قار کے ساتھ سر اٹھا کر جینے کا۔ہم سب
باہم مل کر ملکی و عالمی سطح پر مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی حقوق اور
مفادات کے تحفظ کیلئے کام کریں۔ ہم تمام مکاتب فکر( سنی، شیعہ، وہابی ،
دیوبندی وغیرہ)سب مل آپس میں اشتراق عمل کا معاہدہ کر لیں، میثاق امن ،
میثاق وحدت ، میثاق دفاع عامہ یا کوئی بھی نام دے لیں۔ ہم ملک و ملت کے
تحفظ و دفاع، قیام امن اور دین کی سربلندی و فروغ کیلئے اور دہشت گردی و
انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے ایک وحدت، ایک پلیٹ فارم ، ایک مرکز پر یکجا ہو
جائیں۔
آپ جانتے ہیں کہ منتشر اینٹیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں‘ انہیں یکجا کر دیا
جائے تو عمارت بنتی ہے، بکھرے ہوئے موتی اکٹھے ہو جائیں تو گلے کا ہار بن
جاتا ہے۔ امت کے تمام طبقات اس پر متوجہ ہوں پھر یہ خواب شرمندہ تعبیر
ہوگا۔ ہم مشابہات ومشترکات پر زیادہ توجہ دیں کیونکہ ہمارے مشترکات کی
تعداد اختلافی امور سے کافی زیادہ ہے۔ہم سب مل کر ملک و قوم، دین و ملت کے
وسیع اور عظیم تر مفاد کیلئے کام کریں گے ، ہم میں کوئی ایک دوسرے کے مسلک
کو نہیں چھیڑے گا، کوئی ایک دوسرے کے عقیدہ پر کوئی بات نہیں کرے گا۔بلکہ
اس معاہدہ میں ملک کے وسیع تر مفاد کیلئے اگر ہم غیر مسلم اقلیتوں کو بھی
اپنے ساتھ شامل کریں تو کوئی حرج نہیں۔
اگر ہمارے آقا و مولاﷺ مدینہ کے مختلف یہودی قبائل کے ساتھ اشتراق عمل کا
دنیا کا پہلا تحریری امن معائدہ کر سکتے ہیں جن میں سوائے مدینہ اور اہل
مدینہ کے تحفظ و دفاع کے علاوہ کوئی چیز مشترکہ نہیں تھی ، وہ دونوں فریق
دین میں باہم ایک دوسرے کے متضاد تھے۔ہمارا تو سب کچھ ایک اور مشترکہ ہے۔سب
دنیا والے ہمیں مسلمان کہتے ہیں خواہ ہم میں کوئی شیعہ یا سنی، وہابی ہے یا
دیوی بندی، وہ سب کو مسلمان کہہ کرہی مارتے ہیں وہابی، شیعہ اور سنی سمجھ
کے چھوڑ نہیں دیتے ہمیں ان کے مقابلہ کیلئے ایک مک، ایک قوت بننا ہو گا۔
ہمارے ہاں اگر کوئی اختلافات ہیں تو وہ پانچ فیصد سے بھی کم ہیں تو ہم کیوں
نہیں ان کو بھول کر پچانوے فیصد مشابہات و مشترکات پے توجہ دے کر اشتراک
عمل کا معاہدہ کرلیتے اور سوادِ اعظم کا روپ دھار لیتے؟
حضور ﷺ کی نہایت جامع اور حدیث صحیحہ موجود ہے کہ بنی اسرائیل 70فرقوں میں
بٹی اور میری امت 72فرقوں میں بٹے گی مگر جنت میں صرف ایک جائے گا جو
سوادِاعظم ہو گا یعنی جو سب سے بڑی جماعت ہو گی۔تو پھر ہم کیوں نہیں ایک
اور سب سے بڑی جماعت بن جاتے؟ہم کیوں نہیں مشابہات و مشترکات پے اکٹھے ہو
کر اور اشتراک عمل کا معاہدہ کرکے ایک وحدت بن جاتے؟ اگر ہم ایسا نہیں کرتے
تو اس سے واضح مطلب نکلتا ہے کہ ہم نہ دنیا میں فلاح چاہتے ہیں اور نہ آخرت
میں نجات۔دنیا وآخرت میں صرف وہی قوم عزت پاتی اور دوام و سرخروئی حاصل
کرتی ہے جو جسد واحد کی طرح متحد ہو اور آپس کے باہمی تفرقہ و انتشار کا
شکار نہ ہو۔
اے لوگو ! اٹھو ، اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم ایک مرکزپر اکٹھے ہو جائیں اور
ان خود غرض، خود نما ملوک و سلاطین سے الجھ جائیں، ان سے تصادم مول لیں ،
ان کے غرور و تکبیر کو خاک میں ملا دے، یہ گھنڈنے، معاشی دہشت گرد، لٹیرے،
بدمعاش اور کم ظرف و نااہل لوگ اسمبلیوں میں آکر اتنے مقدس بن گئے ہیں کہ
سکولوں ، کالجوں اور اہم اداروں کے گیٹوں پر ان کے نام اور مجسموں کے بورڈ
آویزاں کر دئیے جاتے ہیں کہ قوم کی بچیاں اور بچے صبح و شام آتے جاتے ان کے
ناموں کی تلاوت کر کے اور ان کے منحوس چہروں کو تک کے تعلیمی اداروں میں
داخل ہوں۔ جگہ جگہ قومی پروجیکٹس پر ان کے تختے لگے ہوتے ہیں کہ بدست مبارک
جناب عزت مآب فلاں فلاں فلاں۔کیا وہ پروجیکٹ عوام کے پیسوں سے بن رہے یا
انہوں نے اپنی جیبوں سے بنوائے جو جگہ جگہ اپنے ناموں کی نمائش اور اپنی
سیاست کو چکماتے ہیں۔ہاں اگر ان پروجیکٹ کی تکمیل ان کی اپنی جیبوں سے کی
گئی ہے تو ایک نہیں ہزار تختے لگائیں کوئی اعتراض نہیں ، مگر یہ تو حضرات
ان عوامی منصوبوں اور قوم کے پیسوں سے پتہ نہیں کتنے گھپلے کرکے بھی اپنے
نام چمکائیں تو یہ بالکل جائز نہیں۔
لوگو! آؤ سب مل کر دین کا نفاذ کریں،قرآن و سنت کو جلوہ گر کریں، ملک کے
چپہ چپہ پر لگے ان کے غرور ، تکبراور خودنمائی کے بتوں، مجسموں کو گرا
دیں۔نفاذ شریعت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی خود غرضی ہے کہ نفاذ
شریعت کے بعد انہیں کون پوچھے گا اور ان کی تیجوریاں جہاں سے بھریں گی۔
ہمارے عوام میں سے کون نہیں چاہتا کہ شریعت نافذ نہ ہو؟ نہیں چاہتے تو صرف
خود غرض، خود نما حکمران نہیں چاہتے۔نفاذ شریعت پر عوامی ر یفرنڈم کروا کے
دیکھ لیں فتح حکمران طبقہ کی ہوتی ہے یا قرآن و سنت کی؟اسلام کے نفاذ اور
شریعت کی بات کرنے والوں کو بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے ساتھ جوڑ دیا
جاتا ہے۔ جمہوریت سے وفاداری کے حلف تک مانگے جاتے ہیں ہماری اسمبلیوں میں
مگر دین، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ وفاداری کی کوئی بات کرنے کو تیار
نہیں۔ ان کے سامنے دین اور قرآن کی بات کریں تو یہ ویسے ہی پلزل ہو جاتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کون نادان ، بنیاد پرست اور بے عقل لوگ چودہ سو سال
پہلے کی باتیں اٹھا کے آ گئے۔ ان کی عقل ماری گئی ہے کہ یہ چودہ سوسال پہلے
کی باتوں اور مثالوں کو آج کے اس روشن خیال ، اعتدال پسندی اور جدیدیت کے
دور میں لاگو کرنا چاہتے ہیں۔یہ اپنے ہر کام میں مغرب کواپنا رول ماڈل بنا
کر اس کی مثالیں دیتے ہیں اور خلافت راشدہ کی مثالیں اس دور میں تازہ کرنے
کو چودہ سو سال پہلے کی پتھر کے دور کی مثالیں تصور کرتے اور بیکار گردانتے
ہیں۔
لوگو آؤ! ان خود غرض مملوک سلاطین سے تصادم مول لیں۔اس فرسودہ نظام کا حصہ
بن کر ہم کوئی تبدلی نہیں لا سکتے اور نہ ہی اس نظام سے اس کی کوئی توقع کی
جا سکتی ہے۔لوگو! آؤ ہم ایک وحدت بن کر دنیا میں حقیقی عالمی اسلامی فلاحی
انقلاب برپا کریں ، دنیا کو امن و سلامتی ،سکون و اطمینان کا گہوارہ اور
دنیا کو اپنا دلدیدہ بنائیں قرآن و سنت کو اپنا آئین اور ضابطہ حیات بنا کے
اور اس کے حکمت بھرے اصولو ں پے چل کے، دنیا میں حقیقی عالمی اسلامی فلاحی
نظام حیات کی بنیاد رکھیں اور حق کی بالا دستی قائم کریں ۔ ابتداء کے مٹھی
بھر مسلمانوں نے دین کے اعلیٰ اخلاق و اطوار کو اپنا کر بہت کم مدت میں
آدھی دنیا کو اپنا زیر نگیں کر لیا مگر اب تو ہم تعداد میں بہت زیادہ دنیا
کا ایک چوتھائی ہیں اور ہر ایک مسلمان کے حصہ میں آتے ہی صرف تین، چار غیر
مسلم ہیں جسے وہ دین کے اعلیٰ اوصاف و اطوار اپنا کر اپنا بنا سکتا ہیں اور
یہ کوئی مشکل کام نہیں۔اس کیلئے سب سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے
ایمان میں اخلاص پیدا کریں اور خود کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال لیں ۔ جب
ہم سچے مومن مسلمان بنے گے تو پھر غلبہ ہمارا ہی ہے اور قرآن بھی اعلان کر
رہا ہے۔
وَأَنْتُمُ اْلأَعْلُوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ (آل عمران:۱۳۹)
تم ہی سر بلندو غالب رہو گے اگر مومن رہو۔ مومن کس کو کہتے ہیں؟ دل وجان سے
اسلام کو تسلیم کر کے، اس پر عمل کرنے اور اس پر سب کچھ قربان کردینے کا
نام ہے ایمان اور مومن ہونا ہے۔
تمام مسلمان ، تمام فرقے ، تمام گروہ ، تمام اسلامی ریاستیں اپنے تمام
باہمی اختلافات اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے
رسول ﷺ کے نام پر ، ان کی رضا کی خاطر ، صرف اور صرف اسلام اوراہل اسلام کے
تحفظ، دفاع ، عظمت ، سربلندی، عزت ووقار اور سلامتی و بقاء کی خاطر ایک
مرکز پر اکٹھے ہو جائیں ، آپس میں باہمی تعاون، اتحاد ، اتفاق،اخوت ،ہمدردی
و مساوات کو فروغ دیں کیونکہ آج جتنی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے شاید کہ اس
سے پہلے کبھی نہ تھی۔ |