وہ وہاں کا بہترین شادی ہال تھا۔ وہ وہاں پر لوگوں کا
ہجوم دیکھ رہی تھی جو جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ایک دوسرے سے زیادہ
خوبصورت نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ والی کے سنگ چلتی ہوئی اندر آگئی۔
“ یار کتنا ٹائم لگا دیا میں کب سے راہ دیکھ رہا تھا۔“ کسی نے آتے ہی شکوہ
کیا۔
“ اب یہ نا کہنا بھابی نے تیار ہونے میں ٹائم لگا دیا۔ بھابھی تو ماشااللہ
بہت پیاری ہے۔ کیا قسمت ہے رے تیری جو اتنی پیاری بیوی ملی۔ “ دوست نے
چہکتے ہوئے کہا۔ حسنہ مسکرانے لگی۔
“ بس کر یار یہ مسکہ بازی ،،،،، ہاہاہاہاہا نہیں سچ کہہ رہا ہوں،، اچھا چلو
اندر تو آؤ یہی سب باتیں کر لینی ہے کیا ؟“ حسنہ کو وہ لڑکا بہت باتونی لگا۔
والی نے اسے تعارف کروایا کہ جس کی شادی پر آئے ہیں یہ وہی موصوف ہیں۔ حسنہ
کو دلہے کا اس طرح مہمانوں کا خود سوادک کرنا عجیب لگا خیر وہ وہیں ایک
ٹیبل پر جو کہ سب سے الگ ایک کونے میں تھا وہاں ٹک گئی والی اسے بیٹھتا
دیکھ اپنے اور دوستوں کے پاس چلا گیا۔ وہ مسلسل حسنہ کی نظروں کے حصار میں
تھا والی کافی خوش نظر آ رہا تھا۔ اس نے پہلی بار اسے یوں ہنستا ہوا دیکھا
تھا، اسے یوں دیکھ کر وہ خود بھی مسکرا رہی تھی۔
“ ایکسکیوزمی! مس،،،،، کیا میں آپ سے بات کر سکتا ہوں ؟ “ حسنہ نے سوالیہ
نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔
“ میں کب سے آپکو دیکھ رہا ہوں ، آپ مسلسل مسکرا رہی ہیں اور شاید آپ جانتی
نہیں آپکی مسکراہٹ کتنی قاتلانہ ہے جو کسی کو بھی گھائل کر سکتی ہے۔“
اسنے کافی اچھے انداز سے وائن کا گلاس لبوں پر لگاتے ہوئے کہا۔
“ کیا مطلب ہے آپکا ؟ “ حسنہ نے گھبراتے ہوئے جہاں والی کھڑا تھا نظر
دوڑائی پر والی وہاں پر نہیں تھا وہ ایک دم وہاں سے اٹھنے لگی تب اچانک اسے
لگا جیسے اسکا بازوں کسی کی مضبوط گرفت میں ہو۔ اس نے مڑ کر اپنا بازو
دیکھا جسے اس آدمی نے مضبوتی سے جکڑے رکھا تھا۔
“ اجی جاں کہا رہی ہیں ادھر آئیں آپکو مطلب بتاتا ہوں “ اس نے مونچھوں کو
تاؤ دیتے ہوئے اسے کھینچ کر اپنے قریب کیا۔ تب ہی کسی کے زور دار تھپڑ لگنے
کی آواز آئی حسنہ جو کھچے جانے سے لڑ کھڑا گئی تھی سیدھے ہوتے ہی اس نے
والی کو دیکھا جو اس آدمی پر ایک کے بعد ایک تھپڑوں کی برسات کر رہا تھا۔
“ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی پر گندی نظر ڈالنے کی زلیل انسان! “ اور
جانے کیا کچھ وہ کہہ رہا تھا حسنہ بس بیوی قبول کئے جانے پر حیران تھی۔
وہاں کافی ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا سب نے مل کر بات کو رفع دفع کیا۔
“ دیکھ لوں گا میں تجھے والی رضا! “ اس نے لبوں سے خون صاف کرتے ہوئے انگلی
سے وارننگ دی۔ والی اسے نظر انداز کرتا حسنہ کو گھسیٹتا ہوا گاڑی تک لے
آیا۔ اسکا دوست روکتا رہا پر اسنے ایک نہیں سنی۔
“ میں اچھے سے جانتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کو پہلے خود مرد کو اپنی طرف مائل
کرتی ہو پھر معصوم بننے کا ناٹک کرتی ہو۔“ اتنا کہہ کر اسنے گاڑی کا دروازہ
کھول کر اسے اندر دھکا دیا۔
“ کیا سمجھتی ہو تم خود کو بہت حور پری ہو اس طرح اپنے حسن کا جلوہ دوسروں
کو دکھاؤ گی تب ہی کوئی اتنی ہمت کرے گا “ اسنے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے گاڑی
سٹارٹ کرتے ہوئے کہا، حسنہ کے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے جس کی وہ زرا پرواہ
نہیں کر رہا تھا۔ وہ تو ابھی شاک کی کیفیت میں تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی
تھی دماغ جیسے ماؤف ہو گیا تھا۔
“ سب سمجھتا ہوں میں بہت ہو گیا اب بہت جلد تمہیں آزاد کر دوں گا تب جو
مرضی کرتی پھرنا ابھی تم میرے نکاح میں ہو سمجھی۔“ وہ تیزی سے ڈرائیو کرتا
ہوا زہر اگل رہا تھا۔ طلاق والی بات پر حسنہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا،
اسکے چہرے پر سوائے سختی کے اور کچھ نہیں تھا۔ اسکے آنسوں اسکے چہرے کو اور
تیزی سے غسل دینے لگے۔ اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی۔
“ افففف یہ ٹائر بھی ابھی پنکچر ہونا تھا۔“ والی نے گاڑی کے ٹائر کو پاؤں
مارتے ہوئے کہا۔ تب ہی ایک گاڑی اسکے پاس آکر رکی جو مسلسل انکا پیچھا کر
رہی تھی۔
حسنہ نے دیکھا اس میں سے وہی آدمی باہر آیااسکے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر حسنہ
کا رنگ فق ہو گیا وہ لوگ غصے میں بول رہے تھے کیا بول رہے تھے اسے کچھ سمجھ
نہیں آرہا تھا وہ نا چاہتے ہوئے بھی گاڑی سے باہر اگئی۔
کالی اندھیری رات میں آج کوئی انہونی ہونے والی تھی اسکے دل نے کہا۔ “ تم
باہر کیوں آگئی ہو چلو گاڑی میں بیٹھو۔“ والی نے اسے باہر آتا دیکھ غصے سے
کہا۔
“ ارے بیوی کے سامنے مرنے سے کیا شرم آتی ہے؟ ہاہاہاہا دیکھو بھابھی یہ
مرںے لگا آخری بار دیکھ لو اسے ہاہاہا اسنے حسنہ کے پاس کھڑے ہو کر کہا۔
حسنہ کی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے ۔
“پارٹی میں سب کے سامنے مجھے مار کر ہیرو بن رہے تھے نہ اب بچ کہ دکھا ،،،،
دکھا بچ کر “ اسنے والی کی طرف پسٹل کرتے ہوئے کہا۔
“ نہیں ،،، نہیں پلیز ہمیں جانے دو ،،، میں ہاتھ جوڑتی ہوں ہمیں جانے دو ۔
“ حسنہ نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
“ ہمت ہے تو چلا گولی باتیں نہیں کر گولی چلا۔ “ والی نے چیختے ہوئے کہا
ساتھ ہی گولی چلنے کی آواز آئی،،،،، (جاری ہے) |