تعلیمی اصلاحات وقت کی ضرورت

کہا یہ جاتا ہے کہ بچے قوم کا قیمتی سرمایہ اور اسکا مستقبل ہوتے ہیں اگر بنیادی تعلیم و تربیت اچھی مل جائے تو یہ نو نہال قوم کا سرمایہ بن کر اُبھر سکتے ہیں. کسی بھی سماج اور فرد کے مستقبل پر بچپن میں کی جانے والی تعلیم و تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے. تعلیم بچوں کا بنیادی حق ہے افسوس اس بات کا ہے کہ ایک ملک میں اور ایک معاشرے میں رہتی ہوئے غرباء کے بچے حصول تعلیم سے بہت دور ہیں جبکہ امراء کے بچے برگر بن کر بائے ماما بائے پاپا کر کے بیرونِ ملک روانہ ہوجاتے ہیں تو فائدہ ایسی تعلیم کا جو ملک کو کچھ نہ دے. اگر سرکاری اسکولوں کی بات کی جائے تو مسائل کا انبار لگا ہوا ہے بچے اسکول آنے سے ہچکچاتے ہیں اور پھر دیگر مسائل پر نظر ڈالی جائے تو پرائمری ایجوکشن میں وسائل کی کمی اور سیکنڈری ایجوکشن میں اساتذہ کے اندر مثبت سوچ اور محنت و توجہ کا فقدان پھر ہائر ایجوکشن میں سیاست بازی ہونے کی وجہ سے ملک کا حال اور مستقبل دونوں ہی اثر انداز ہوتے نظر آرہے ہیں کچھ جائزے کے مطابق سرکاری اسکولوں کا حال یہ ہے کہ طلباء کو بنیادی سہولتیں بھی میسّر نہیں ہیں.. کہیں پنکھے نہیں تو کہیں بورڈ نہیں، کہیں میز نہیں تو کہیں کرسی نہیں، کہیں استاد ہی نہیں تو بچوں کی بھی حاظری نہیں اور کہیں استاد موجود ہیں تو وہ بھی نا ہونے کا منظر پیش کر رہے ہیں.. اب کچھ بات ہوجائے تعلیم کے حوالے سے تو اساتذہ جب خود تعلیم یافتہ ہونگے تو ہی وہ بہتر تعلیم دے سکیں گے اب ایک اور نیا نظام چل پڑا ہے کہ پرائمری بچوں کو فیل نہیں کرنا ہے جبکہ طلباء کی بنیادی تعلیم ہی پرائمری ہوتی ہے جب جڑ ہی کمزور ہوگی تو درخت کیسے کھڑا ہوگا اس نظام سے بچوں میں تعلیم کی طرف رجحان کم ہوتا نظر آرہا ہے اور اس نظام سے طلباء میں محنت کی لگن کم ہوتی جا رہی ہے. جائزے بعد جب لوگوں کی رائے جانی گئ تو نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سرکاری اسکولوں سے لوگ مطمئین نہیں ہیں جسکی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول کی نسبت نجی اسکول میں داخلہ دلوانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں چاہے انکو نجی ادارے کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور ہی کیوں نہ لگانا پڑے.. لہذا ضرورت اب اس امر کی ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنایا جائے.

سب سے پہلےتو صدر معلمہ اور دیگر عملہ کو وقت کی پابندی کرنی ہوگی اور حاظری کو باقاعدگی سے یقینی بنانا ناہوگا اور پھر طلباء کی حاظری وقت پر لی جائے اور وقت پر نا آنے والوں کے ساتھ سختی کی جائے اور مضمون کے بارے میں پہلے سمجھایا جائے پھر لکھوایا جائے اور کروائے گئے کام کی کاپیاں توجہ سے چیک کی جائیں اور باقاعدگی سے ٹیسٹ لیا جائے اور بچوں کے ساتھ والدین میں بھی تعلیمی اہمیت بیدار کرنے کے لئے سیمینار ار ورک شاپ کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور بچوں پر خاص توجہ دیکر تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا ساتھ دے سکیں اور ہر مہینے میں ایک دن مقرر کا جائے جس میں والدین اور اساتذہ کے دمیان گفت و شنید کا سلسلہ ہوسکے اور دونوں آپس میں بچے کی کمزوریاں بیان کرسکیں تاکہ ن اہم نکات پر توجہ دی جاسکے.. پھر سب سے اہم تو اساتذہ کا چناؤ ہے جو کہ میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیئے۔ استاد تعلیم یافتہ ہو ناکہ صرف ڈگری یافتہ ہو. ماہر نصاب اساتذہ کو بھرتی کا جائے.. استاد کو ماہر نصاب تو ہونا ہی چاہیئے اسکے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات بھی ہونا چاہیئے تاکہ وہ بچے کی سوچ کو پَرَک سکے اور دماغی سطح کے مطابق لیکر چل سکے.. پھر نصاب میں جدید طریقئہ تدیس اور ایسی سرگرمیاں شامل کی جائیں جو طلباء کی ذہنی صلاحیت کو مزید کشادہ کرسکیں اور پھر کلاس روم میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتو اسے سیکشن میں تقسیم کیا جائے ایک جماعت میں زیادہ سے زیادہ ۲۵ سے ۳۰ طلباء ہونے چاہئیں تاکہ ہر ایک طالب علم استاد کی بات کو بغور توجہ سُن سکے اور استاد ہر بچے پر نظر رکھ سکے. نظام تعلیم میں زبان کا معیاری ہونا ضروری ہے. تفویض وتحقیق کو فروغ دیا جائے. عالمی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کیا جائے سرکاری اسکولوں کے طلباء کو نجی اسکولوں کے طباء کے مدّمقابل کھڑا کیا جائے تاکہ طلباء میں خوداعتمادی پیدا ہو اور وہ کسی بھی طرح کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں.. قوانین ترتیب دئے جائیں اور انتظامیہ کو اسکا پابند کیاجائے طلباء اور اساتذہ پر بھی عمل کرنا لازم قرار دیا جائے اور اعلیٰ سطح پر کرسی پر موجود افسران کو بھی اپنی ذمہ داری بخوبی سرانجام دینی چاہئیے جیسا کہ باقاعدگی سے چکّر لگا کر تمام چیزوں کا جائزہ لینا تاکہ اسکول کی انتظامیہ اور استاد و طلباء اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ڈنڈی نہ مارسکیں...
حافظہ مریم خان

Mariyam Khan
About the Author: Mariyam Khan Read More Articles by Mariyam Khan: 6 Articles with 6815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.