میں اور زندگی جیت کس کی؟

اب میں اور میری زندگی دو انجان مسافروں کی طرح ایک گاڑی میں سوار سفر کررہے ہیں نہ زندگی کچھ کہنا چاہتی ہے اور نہ مجھ میں پوچنے کی ہمت ہے۔میں خود کو زندگی سے ہارتا دیکھ رہا ہوں، ہاں میں بھکاری بن گیا ہوں۔

مکالمہ( میں اور زندگی جیت کس کی؟) اک تلخ حقیقت
تحریر:محمد اسلام خان
پشاور
تاریخ : 26-09-2017
میں:ارے یار چلوں چلتے ہے کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں گھر میں پھر دال چاول بنی ہے
زندگی : رُکھ جا پیسے کو ضائع مت کر یہی دال چاول کھا ورنہ بعد میں میری یہ بات تجھے کھا تی جائیگی
میں:اُف یار پیسے تو ویسے بھی بابا کما رہا ہے اور اسی لئے کہ میں اس پر عیش و عشرت کی زندگی گزاروں
زندگی: نہیں یہ صرف تمہارا وہم ہے ،پیسہ آنی جانی چیز ہے پس توڑے توڑے کرکے جمع کر
میں :کیوں جمع کروں میرے بابا ہے نہ وہ کوئی بندوبست کرینگے
زندگی:تجھے پتہ ہے نہ کہ تیرے اور بھائی بھی ہے جب بابا نہیں ہونگے تو اسی دولت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائینگے
میں:ہونے دو میرے بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں وہ اسی طرح اپنے حصے کا نوالا مجھے دینگے
زندگی: یہ تیری بھول ہے وقت کے ساتھ ساتھ انسان بد ل جاتا ہے چاہے وہ اپنا بھائی ہو یا کوئی پرایا بندہ
میں: چلو دیکھتے ہیں ابھی تو آرام سے جینے د و۔فی الحال زندگی سے مزے لیتے ہیں زندگی اورموت کا کوئی پتہ نہیں
زندگی:اگر زندگی رہی اور پیسے نہ رہے تو پھر کیاکروگے ؟
میں :دیکھا جائے گا
زندگی : کیا دیکھا جائے گا ۔بھکاری بنوں گے ؟ہاتھ پھیلاسکتے ہو کسی کے سامنے؟
میں:نہیں تو میں کیوں بھکاری بنوں گااورمجھے شرم آتی ہے کسی سے مانگ کر
زندگی:تو پھر اٹھ چھوڑیہ عیش و عشرت کی زندگی اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ
میں: ہممم دیکھا جائے گا۔اب مجھے نہیں پڑھنا بس بابا کا کمایاہوا پیسہ کافی ہے
زندگی: دیکھوں میں پھرکسی کالحاظ نہیں کرتا تو لاکھ بلائے گا مگر میں پھرلوٹنے والی نہیں۔
میں: چلو دیکھے گے ابھی تو اچھا خاصہ گزارا ہو رہا ہے بعدمیں دیکھا جائے گا
زندگی: مجھے تمھارے مستقبل پررونا آرہاہے خیر چلو دیکھا جائیگا۔
زندگی نے اپنی رفتار تیز ترکردی اور میری جوانی میں بہت سی رنگ رنگینیاں آگئی اور گزر گئی۔زندگی نے مجھے بلکل اپنے باپ جیسا پیار دیاکچھ وقت بعدبابا نے بزنس میں نقصان کیااور سارا پیسہ چلا گیا بس صرف گھر ہی بچا لیکن بابا نے کہا بیٹھا تم لوگ خفہ نہیں ہونا سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا یہی نقصان بابا کو اندر سے دیمک کی طرح کھاتا جارہا تھا بس کچھ ہی دنوں میں باباکا انتقال ہوا۔امی بھی عمر کے آخری دہانے پر تھی اوربھائیوں کی شادیاں بھی ہوگئی ۔گھر اس سے بھی بڑا ہوگیا مگر دلوں کی جاگیریں کمزور اورکم ہوتی گئی ایک وقت تو وہی منتیں ذہن میں آئی مگر کچھ دیر بعد میں نے اپنا ذہن بدلنے کے لئے ٹی وی کا سہارالیا۔وقت گزرتا گیا زندگی کی گرم شعائیں چہرے پر پڑنے لگی۔عموماًجب میں گرمی کے موسم میں دھوپ میں چل پھرکر گھرآجاتا تو گھنٹوں گھنٹوں آئینے کیسامنے اپنا چہرہ دیکھتا اور مختلف کریم لگاتامگر اب بات کریم اور آئینے سے آگے نکل چکی ہے۔وقت گزرتا جا رہا ہے جوانی یاد آرہی ہے کسی طریقے سے اپنے خیالات بدلنے کی کوشش کرتا ہوں اب میں نے کریم لگانا اور آئینے کے سامنے کھڑا ہونا بھی چھوڑ دیا،خیر گھرمیں جھگڑے وغیرہ شروع ہوئے اورمیں عادی نہ تھاان چیزوں کا کیونکہ مجھے ماما اور بابا نے بہت پیار سے پالا تھا اور میرے سامنے ایک دوسرے کو اُف تک نہ کرتے تھے۔ایک دن گھر میں بیٹا تھا کہ بھابیوں کا جھگڑا شروع ہوگیا بھائی بھی بیٹھے تھے میں نے غصے میں آکر ان پر ہاتھ اٹھا تو بھابی نے جواباً کہا یہ اب تمہارا گھرنہیں کہ جو تو چاہے گا وہی ہوگا تم سے زیادہ حق دار ہم ہیں اسی بات کو جاری رکھتے ہوئے بھائی نے کہا کہ تمہاری اتنی جرت جو میری بیوی پر ہاتھ اٹھایا۔دوسرے بھائی نے تو میری آنکھیں کھول دی کہاکہ اس کواپنا حصہ دو اور الگ کردو۔میں حیران و پریشان رہ گیا خیرحصاب کتاب ہوگیا تو میرے حصے میں صرف ایک کمرہ اور توڑا سا صحن آگیا بھائی نے کہا اس کاکیاکرے گامجھے دو اس کاقیمت اداکردونگامیں ۔میں نے بھی بنا سوچے ہاں کہہ دیا پیسے ملے کچھ دن تو پیسوں پر گزارے اور توڑے سے پیسے بزنس میں انوسٹ کئے مگر جیسے میں زندگی کو دھوکا دینا چاہ رہا تھا ایسے ہی کچھ لوگوں نے بزنس کے نام سے پیسہ بٹورا اور نکل پڑے او ر میں خود دھوکا کھا گیا۔کچھ بھی ہاتھ میں نہ رہا بس ٹیشن کو ختم بھلانے کے لئے سیگریٹ خریدنے کے لئے کچھ پیسے جمع کئے۔میرے ذہن میں خیال آیاکہ کیوں نہ دوستوں سے پیسے ادھارلوں بزنس کے لئے اسی امید پر روانہ ہوا کہ دوست پیسے دینگے کیونکہ ساری عمر میں نے کھلائی پلائی ہے ۔خیر دوست کے گھر پہچا دوست نکلا میں نے کہا پیسے چاہیئے بزنس کے لئے وہ ہنس کربولا توکہا سے لائیگا پیسہ تیرے پاس واپس دینے کوہے کیا۔ایسے سارے دوست مکر گئے۔مجھے وہی الفاظ وہی منتیں یاد آگئی جو زندگی نے بار بار کی تھی ۔وقت گزرتا گیا اور ٹینشن بڑھتا گیا۔ایک سیگریٹ سے ٹینشن ختم نہیں ہو رہا تھا ڈبہ لینا شروع کردیا ۔اسی طرح مجھے نئے یار مل گئے وہ یار جو دنیا سے بے غم کہی سڑکوں اور نالیوں میں کش لگا کر زندگی بسرکر رہے ہیں ۔میں بھی ایک سیگریٹ سے ڈبہ اور ڈبے سے چرس تک آپہنچا مگر میں میرے ذہن سے وہ باتیں نہیں نکلی۔دن رات یہی سوچ رہتی کہ کیا سے کیاہوگیا اورآگے کیا بنے گا۔زندگی نے جو کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا۔نہ بابا رہا،نہ دولت رہی،نہ بھائی رہے اور نہ دوست بس جو ساتھ دیا وہ تھی زندگی،آج مجھے زندگی نے ایک غریب باپ جیسا پیار دیا جو دولت وغیرہ نہیں دے سکتاتو کم از کم گلے لگاسکتاہے۔آج زندگی نے مجھ سے وعدہ کیا کہ آخری دم تک تمہارا ساتھ دونگا۔مجھے احساس ہوا کہ زندگی ہی اک وفادار چیز ہے جو آخری سانس تک ساتھ رہے گی۔سڑک پر چلتی گاڑی کے ہارن سے میں چھونک اٹھا اور ہاتھ سے سیگریٹ گرگیا۔اور زندگی نے ایک بار پھر ملاقات کرنا چاہی اسی روپ میں مگر میرے جواب میں تبدیلی آچکی تھی
زندگی: اچھاتو کیا کھویا اور کیاپایا؟
میں : کھویا تو سب کچھ مگر جو پایا وہ ہے سبق
زندگی : میرا کہا مانتے تو آج تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا
میں : میں اپنے کئے پر شرمندہ ہوں مجھے بہت افسوس ہے
زندگی : ہاں بے شک اب کے بعد تیری جو زندگی ہے اس میں شرمندگی اور ے عزتی کے سواکچھ نہیں۔
میں : بلکل صحیح کہا تم نے زندگی
زندگی : بے شک! کاش کہ تواسوقت سن لیتا مگر گھبرانا نہیں میں آخری سانس تک تمہارا ساتھ دونگا۔
میں: زندگی کی جو باتیں تھی وہ تلخ حقیقت تھی کاش میں مان جاتا مگر اب وقت گزرگیا ہے۔آہ و زاری کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ۔ہاں میں نے ایک فن سیکھ لیا ہے جس پر بچی کچی زندگی بسر کرونگا میں ہاتھ پھیلاؤں گا۔ہاں اب میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا ؤں گا ۔اور پتہ ہے میرے پیشے کو کس نام سے پکارا جاتا ہے؟
زندگی : بھکاری
میں : ہاں بلکل صحیح کہا اب مجھے بھکاری کہا جاتا ہے ۔
سڑک کے کنارے بیٹھے سیگریٹ کا کش لگا کر گاڑیوں کے ہارن سے لطف اٹھاکر سیگریٹ کی دھویں میں اپنے بیتی زندگی کو دیکھ رہا ہوں ۔ہاں اب میں بھکاری بن گیا ہوں۔
اب میں اور میری زندگی دو انجان مسافروں کی طرح ایک گاڑی میں سوار سفر کررہے ہیں نہ زندگی کچھ کہنا چاہتی ہے اور نہ مجھ میں پوچنے کی ہمت ہے۔میں خود کو زندگی سے ہارتا دیکھ رہا ہوں، ہاں میں بھکاری بن گیا ہوں۔
 

Islam Mohmand
About the Author: Islam Mohmand Read More Articles by Islam Mohmand: 14 Articles with 26464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.