میں بھی مہاجر ہوں

سندھ کے شہروں میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایک تنظیم دندناتی پھرتی ہے اور اس کے ذمہ دار خود کو مہاجر قرار دیتے ہیں۔مجھے آج تک مہاجر کی سمجھ نہیں آئی۔ اس خطے میں کون مہاجر نہیں ۔ہر شخص کے آبا کہیں نہ کہیں سے ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں۔ کوئی شخص جب ہجرت کرکے آتا ہے تو چند دن جب تک وہ نئے ماحول میں خود کو سمو نہیں لیتا اسے گھر چھوڑنے کا احساس رہتا ہے ۔وہ خود کو مہاجر محسوس کرتا ہے لیکن یہ احساس صرف ایک نسل کو ہوتا ہے جس نے ہجرت کی ہوتی ہے۔ بچے جہاں پیدا ہوتے ہیں وہی ان کا وطن ہوتا ہے۔امریکہ جہاں کی تمام آبادی پچھلے کچھ عرصے میں دنیا کے کسی نہ کسی ملک سے ہجرت کرکے آئی ہے لیکن وہاں ایک نسل کے بعد لوگ فخرسے کہتے ہیں کہ میں پیدائشی امریکی ہوں۔ ہر وہ شخص جو امریکی شہری کے طور پر حلف اٹھا لے، مہاجر کہلانا گالی کے مترادف سمجھتا ہے۔لیکن یہ ہمارا عجیب ملک ہے جہاں ہر بلیک میلر اپنے گھٹیا حربے آزمانے کے لئے خود کو کچھ بھی نام دے لیتا ہے۔لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی اس ملک کا کھاتے ہیں اور اسی کی پلیٹ میں چھید کرنا چاہتے ہیں۔

سب سے پہلے آریا لوگ اس خطے میں آئے۔ اس زمانے میں تمام آبادی دریاؤں کے کنارے کنارے ہی ہوتی تھی۔دریائے سندھ کے کنارے بہت سی آبادیاں موجود تھیں۔ یہ کالے کالے لوگ تھے۔آریاؤں نے انہیں ہندو کا نام دیا۔ ہندو کا مطلب ہی کالے ہوتا ہے۔ ہندو مذہب بھی کوئی باقاعدہ مذہب نہیں ۔یہ بہت سے مذاہب اور عقائد کا مرغوبہ ہے جسے بعد میں ان کالے لوگوں کی نسبت سے ہندو ازم کا نام دے دیا گیا۔ آریا اپنے ساتھ عورتوں کو نہیں لائے تھے۔ اس وقت کی روایت کے مطابق آریا لوگو ں نے زیادہ تر مقامی مرد وں کوقتل کر دیا اور عورتوں کو اپنی ملکیت بنا لیا۔ میرے سمیت آج کی ساری آبادی اسی مخلوط نسل کی اولاد ہے ، انہی آریا مہاجروں کی اولاد۔ آریاؤں کے بعد بھی جو حملہ آور یہاں آئے انہوں نے بھی یہی کام کیا۔سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے آباد بستیاں بہت دفعہ قتل و غارت کا شکار ہوئیں اور نئے لوگ یعنی مہاجران میں آ مکین ہوئے۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں سکھوں نے جب لاہور پر قبضہ کیا تو لاہور کی تمام مسلمان آبا دی کو بے دردی سے قتل کیا۔گلی کوچے مردوں کی لاشوں اور کنوئیں ان عورتوں کی لاشوں سے اٹے پڑے تھے جو اپنی عصمت کی حفاظت کی خاطر ان میں کود گئیں تھیں۔شہر آباد کرنے کے لئے ارد گرد کے بہت سے کسان خاندانوں کولا کر وہاں بسایا گیا۔ یہی مہاجرآج اس شہر کے والی اور وارث ہیں۔ اسی دور میں شہزادہ شیر سنگھ کشمیر کا حکمران تھا۔عیش و عشرت کی وجہ سے اس نے علاقے کے انتظام میں کم دلچسپی لیاور لوٹ مار زیادہ کی جس سے علاقہ بد حال ہو گیا۔ رنجیت سنگھ نے شہزادے کو معزول کرکے جمعدار خوشحال سنگھ کو وہاں مامور کیا۔جس کے ظالمانہ اقدامات سے وہ علاقہ بالکل اجڑ گیا۔اس نے ایسی آگ بھڑکائی کہ گاؤں اور قصبے لوٹ لئے۔تمام کارخانوں کو لوٹا۔کشمیر کی رعایا گھروں کو چھوڑ کر بھاگ نکلی۔ہزاروں ننگے بھوکے کشمیری پورے پنجاب کی آبادیوں میں آہ وزاری کرتے پھرتیاور مانگتے نظر آتے تھے۔مگر مانگنے کے باوجود بھیک نہیں ملتی تھی۔بہت سے گلی کوچوں میں بھوک کے ہاتھوں مرے پڑے تھے۔غضب میں آ کر راجہ نے خوش حال سنگھ کو معزول کرکے جرنیل مہیان سنگھ کو کشمیر بھیجااور جو کشمیری واپس جانا چاہتے تھے انہیں معقول خرچ دے کے واپس بھیجا۔ بہت سے کشمیری واپس نہیں گئے۔انہیں روزانہ کی بنیاد پر کھانا فراہم کیا گیا اور پھر یہیں آباد کر دیا گیا۔ آج پنجاب میں موجود کشمیری اسی دور میں یہاں آئے۔ وہ سارے کشمیری مہاجر اب مقامی ہونے پر نازاں ہیں۔ مہاجر نام کی خباثت کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آئی۔

1947 میں بے پناہ مہاجر لٹے پھٹے پاکستان آئے ۔ جو لوگ پنجاب میں آباد ہوئے ان کی اولادیں مقامی آبادی میں اس طرح گھل مل گئی ہیں کہ مہاجر کا تصور بھی نہیں۔و ہ چاہے بھارت کے کسی حصے سے آئے آج سب پنجابی ہیں۔سندھ میں بیٹھے نام نہاد مہاجر الزام لگاتے ہیں کہ اس ملک کو پنجابیوں نے لوٹ کھایا ہے۔ سب چپ ہیں، کوئی جواب نہیں دیتا۔حقیقت بہت تلخ ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ساری کی ساری بیوروکریسی کا تعلق مہاجروں سے تھا۔ سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔ کلیموں کے نام پر آنے والوں نے جو لوٹ مار کی وہ سب کو نظر آ تی ہے۔ وہ شخص جس کے پاس پاکستان آنے سے پہلے ٹوٹی ہوئی جوتی بھی نہیں تھی، جعلی کلیم کے بل بوتے پر پلازوں کا مالک ہو گیا۔اس ملک کو سب سے زیادہ آنے والے مہاجروں نے لوٹا ہے۔سب کچھ جانتے ہوئے بھی مقامی لوگوں نے کبھی اف نہیں کی۔ مگر مہاجر کہہ کر سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بنانا اور پھر مہاجروں کے نام پر لوٹ مار جاری رکھنا انتہائی زیادتی اور خالصتاً بلیک میلنگ ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔

ہماری حکومتیں خود کمزور ہوتی ہیں۔ ہمارے لیڈر قیادت کے معیار کو چھوتے ہی نہیں۔ انہیں اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے جوڑ توڑ، ہیرا پھیری اور خرید و فروخت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بلیک میل ہوتے اور دوسروں کو بلیک میل کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسے گھٹیا اورفضول عناصر مہاجروں کے نام پر سیاست اور بلیک میلنگ کرتے ہیں انہوں نے زور زبردستی کے بل پر ساری آبادی کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کاش ہمیں اچھی لیڈر شپ میسر ہوتی تو وہ شخص جو ستر سال پاکستان میں گزارنے یا اس ملک میں پیدا ہونے کے باوجود خود کو مہاجر کہتا ہو، اس بے شرم اور بے حیاکا ٹھکانہ یہ ملک نہیں بلکہ بحیرہ عرب ہوتا اور اسے اس میں ہمیشہ کے لئے ڈبو دیا جاتا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500473 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More