عوام کو بہت بہت مبارک ہو کہ راحت فتح علی کے گائے ہوئے
ایک گانے نے یو ٹیوب پردھومیں مچا دی ہیں ۔ جی ہاں اخباری اطلاعات کے مطابق
یو ٹیوب پر موجود راحت فتح علی کے ایک گانے کو 24کروڑ بار دیکھا جاچکا ہے
اور اس گانے کو یوٹیوب پر 8لاکھ لائکس بھی ملے ہیں۔ یہ گانا بالی ووڈ کے
ٹاپ تھری گانوں کے بعد چوتھے نمبر پر ہے ، گویا کہ ہم انڈیا سے صرف تین
گانے ہی تو پیچھے ہیں۔ یہ بڑے ’’اعزاز ‘‘ کی بات ہے۔
آزاد میڈیا نے عوام کو یہ تو بتا دیا کہ راحت فتح علی کا یہ گانا بھارتی
گانوں سے صرف تین گانے پیچھے ہے البتہ یہ نہیں بتایا کہ پاکستان خواندگی
میں بھارت سے کتنا پیچھے ہے۔ پاکستانی معیشت بھارت سے کتنی اوپر چلی گئی
ہے۔ بھارتی روپیہ پاکستانی روپے سے کتنا اوپر چلا گیا ہے اور اس کے مقابلے
میں پاکستان کی کرنسی کی قدر کس قدر گر گئی ہے۔میڈیا ہمیں یہ نہیں بتا رہا
کہ کھیلوں کے میدان میں شاندار ماضی کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ آیئے ان
باتوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
اگر ہم شرح خواندگی کی بات کریں تو پاکستان اور بھارت کا تو کوئی مقابلہ ہی
نہیں بلکہ پاکستان جنوبی ایشائی ممالک میں صرف افغانستان سے آگے ہے، باقی
تمام ممالک شرح خواندگی میں پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔انڈیا میں
شرح خواندگی 72.1فیصد ہے ، جب کہ پاکستان میں شرح خواندگی 56 فیصد، یہاں ہم
آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ شرح خواندگی میں نیپال اور بھوٹان بھی پاکستان
سے آگے ہیں۔لیکن اس جانب میڈیا کی کوئی توجہ نہیں ہے، ہاں اگر نصابِ تعلیم
سے اسلامیات کا، اسلامی اسباق کے خاتمے کی بات ہو تو تمام میڈیا گروپ بڑے
منظم انداز میں مہم چلاتے ہیں اور عوام کی برین واشنگ کرتے ہیں۔
معیشت کی بات کریں تو یہاں بھی ہم بھارت سے کوسوں دور ہیں۔پاکستان کا جی ڈی
پی 270.96بلین ڈالر ہے اس کے مقابلے میں بھارت کا جی ڈی پی 2288.75 بلین
ڈالر ہے۔ گویا کہ پاکستان سے کم و بیش دس گنا زیادہ ۔ حد یہ ہے کہ ایران جو
کہ ایک عرصے سے پابندیوں کی زد میں ہے اس کا جی ڈی پی 386.120 بلین ڈالر
ہے، جب کہ ہم بنگلہ دیش کا جی ڈی پی بھی 226.760 بلین ڈالر ہے۔ گویا کہ
معاشی میدان میں بھی ہم انڈیا سے بہت پیچھے ہیں، بھارتی روپیہ جو کہ کسی
زمانے میں پاکستان کے مقابلے میں نصف تھا اب اس کی قدر پاکستانی روپے کے
مقابلے میں بڑھ کر تقریبا 1.58روپے ہے ، بنگلہ دیشی ٹکا بھی پاکستانی روپے
کے مقابلے میں 1.29 روپے کا ہے۔ ہمارا میڈیا ہمیں کبھی یہ نہیں بتاتا کہ ہم
اس میدان میں کتنا پیچھے ہیں۔
کسی دور میں کھیلوں کے میدان میں دنیا میں بھر میں پاکستانی کھلاڑیوں کا
ڈنکا بجتا تھا۔ہاکی کی بات کریں تو اولمپکس میں پاکستان 1956 سے لے کر 1984
تک یا تو فاتح رہا ہے یا دوسری پوزیشن پر براجمان ہوا ہے۔ 1960، 1968 اور
1984 میں پاکستان نے اولمپک چیمپئن کا تاج اپنے سر پر سجایا۔چار دفعہ ہاکی
کے عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی پاکستان کو حاصل رہا ہے ، لیکن 1994 کے
عالمی کپ کے بعد پاکستان ہاکی کے میدان میں تیسری پوزیشن بھی حاصل نہیں
کرسکا ہے اور اس وقت ہاکی کا کھیل پاکستان میں جس زبوں حالی کا شکار ہے اس
کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسکواش کی بات کریں تو 1976 سے 1979 تک پاکستان اسکواش میں دوسرے نمبر پر
تھا اس کے بعد جہانگیر خان اور جان شیر خان نے طویل عرصے تک اسکواش کے
میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا ، 1981 سے لے کر 1996 کے دوران پاکستان
نے 14 بار عالمی چیمپئن کا تاج اپنے سر پر سجایا ، لیکن اس کے بعد20 برس
گزر گئے ہیں اسکواش پر دوبارہ حکمرانی کا پاکستانی خواب پورا نہیں ہوا۔ جب
کہ کرکٹ کے حوالے سے ہم یہاں کوئی بات اس لیے نہیں کررہے کہ تمام ہی میڈیا
گروپ صرف کرکٹ ہی کی تو بات کرتے ہیں ، اس لیے کرکٹ کی تازہ ترین صورتحال
تو سب کے سامنے ہی ہے۔مذکورہ بالا اعداد و شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ ہم
تمام شعبوں میں تنزلی کا شکار ہیں۔ ملک دہشت گردی کے پنجوں میں جکڑا ہوا
ہے، شعبہ تعلیم کا برا حال ہے، کھیلوں کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، ہماری
سرحدیں غیر محفوظ ہیں ، سفارتی میدان میں بھار ت ہمیں تنہا کرتا جارہا ہے۔
لیکن ان سب باتوں کو بھول جائیں ، اس بات پر خوشیاں منائیں کہ ہم انڈیا سے
صرف تین گانے ہی تو پیچھے ہیں۔ |