میڈیا معاشرے میں بگاڑ کی وجہ

تحریر: مدیحہ مدثر،کراچی
ایک بچہ کی جب پیدائش عمل میں آتی ہے تو حمل کے دوران اسکی فطرت ترتیب پاتی ہے ماں جو کچھ اس دوران دیکھتی اور سوچتی ہے وہ بچہ فطرت وہی سب پسند کرنے لگتا ہے اور یہ تحقیق کی جاچکی ہے کہ پیدائش کے بعد وہ چیز جب نومولود نچہ کے سامنے آتی ہے یاسنائی جاتی ہے، تو بچہ اس پر خاص توجہ دیتا ہے لیکن الفاظ وہ اپنی پیدائش کے دن سے سیکھنا شروع کرتا ہے۔ یہ بھی سائنسی تحقیق ہے کہ ایک بچہ کو پیدائش کے پہلے دن سے ایک کمرے میں اکیلا رکھا گیا۔ اس نے 4سال تک صرف دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی تو چار سال میں صرف یہی آواز تھی جو وہ نکال پاتا تھا اس کے علاوہ کچھ بول نہیں پایا۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ خاص کر ماں حمل کے دوران زیادہ ٹی وی دیکھتی ہے کیونکہ ناسازی طبع کی وجہ سے دل بہلانا ہوتا ہے اور اسی دوران بچے کی فطرت یہ میڈیا بڑی آسانی کے ساتھ اپنے مطابق ترتیب دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے پھر کیا اب تو جو میڈیا نے سکھا دیا وہی من پسند ہوجاتا ہے۔ پھر بات آتی ہے میڈیا کی، تو میڈیا کسی بھی معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ یعنی جو تہذیب جو روایات معاشرے میں عمل پذیر ہوتی ہیں وہی میڈیا بھی بیان کرتا ہے۔ ظاہر ہے وہی افراد اس میڈیا کو چلارہے ہوتے ہیں لیکن یہاں کہانی کچھ مختلف ہے۔ ہمارا میڈیا معاشرے کا عکاس نہیں معاشرہ میڈیا کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ ٹی وی پروگرام میں پہنے جانے والے کپڑے ہماری آنکھوں کو بھانے لگتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں ہر دکان پر نام لے کر وہی کپڑے فروخت کیے جاتے ہیں کہ فلاں اداکار، فلاں ڈرامے، فلاں شو کے جیسے کپڑے ہیں یہ اور منہ مانگی قیمت فروخت بھی ہو جاتے ہیں۔

بالوں کے اسٹائل بھی ہم اداکاروں کے ہی نقل کرتے ہیں، میک اپ، جوتے، چپل ہو یا زیورات سب ہی ٹی وی سے دیکھ کر کاپی کیا جاتا ہے۔ پھر آجاتی ہے بات زبان، کردار، احساسات، پسند نا پسند کی تو یہ سب ہم جو میڈیا پر چلتا دیکھتے ہیں وہی ہمارے اندر رواج پانے لگتا ہے۔ پہلے جس قسم کی مہذیب زبان کا استعمال کیا جاتا تھا اور کسی غیر شائستہ لفظ کے استعمال پر بڑوں سے ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی اب ہمارے میڈیا کی کرامات ہیں کہ وہی غیر شائستہ زبان ہم بڑے فخر سے ادا کرتے ہیں اور اچھا بھی سمجھتے ہیں۔ ابے، اوے، تو، تیری تو وغیرہ اب تو اچھے اچھے گھرانوں میں سرائیت کرچکے ہیں۔

معاشرے میں رہنے کے اصول بنانا بھی ہمارے اسی میڈیا کی ذمہ داری بن چکا ہے۔ کس رشتے سے کیسے ملنا ہے۔ کتنی عزت کسے دینی ہے، ماں باپ کا کتنا ادب کرنا ہے، کتنا نہیں۔ اساتذہ کا کیسے مذاق اڑانا ہے، کیسے پیٹھ پیچھے ہسنا ہے، لوگوں کو تکلیف پہنچاکر کیسے خوش ہونا ہے اور ان کی وڈیو بنا کر پورے معاشرے کو دکھانا۔ ماں باپ سے چھپ کر کیسے اپنی زندگی میں کارنامے انجام دینے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں کیسے دھول جھونکنی ہے، ہر غلط کام کو صحیح کیسے بنانا ہے یہ تمام کام میڈیا بڑے اچھے انداز میں سکھا رہا ہے۔ بدکاری اتنی عام سی بات بنادی اس میڈیا نے بیشتر ڈراموں میں بدکاری کو نادانی اور بے وقوفی سے تشبہ دے کر صرف ایک sorry سے اس گناہ سے نجات مل جاتی ہے، جیسے یہ گناہ کبیرہ اتنا معمولی ہے۔ اس کی سزا بس یہی کہ تھوڑی سی ڈانٹ اور پھر سوری کے لفظ کے ساتھ ہی سارے گناہ معاف۔

معاشرے کی ثقافت کو بالکل الٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہماری تقریبات بھی اسی میڈیا کے رحم و کرم پر ہیں۔ جیسے کسی شادی کا فنکشن ہمارے ڈراموں میں منالیا جائے تو سمجھ جائیں کچھ ہی دن میں آپ کو ایسی تقریب میں شریک ہونے کا شرف ضرور حاصل ہونے والا ہے۔ جو نئی رسم ہمارا میڈیا ہمیں سکھائے بس وہ رسم بھی پھر پکی ہی سمجھیں کیونکہ اب اس رسم کے بنا مشکل ہی ہے کہ کوئی تقریب ہو یعنی ہماری زندگی کا ہر پہلو اس میڈیا کے مطابق ہوچکا ہے۔ ہمیں بنا سوچے سمجھے دوسروں کے اشاروں پر چلنے کی عادت ہوگئی ہے۔ گھریلو معاملات سے لے کر باہر تک ایک ایک چیز میڈیا کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ کوئی کاروبار کرنا ہے تو اس کے افتتاح کا طریقہ بھی میڈیا ہی سے سیکھا جاتا ہے۔

صورتحال اب یہ ہوچکی ہے کہ میڈیا کے ہوتے ہوئے جیسے اب ماں باپ کی تربیت کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ویسے بھی اب ماں باپ کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کے بارے میں بھی سوچیں۔ کسی بھی بچے کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے اس کی بنیادی تربیت سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے اور ہمارا میڈیا اسی تربیت کو بیگاڑنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسے میں والدین پر بھی ذمے داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر بھرپور توجہ دیں۔ میڈیا یا کسی تیسرے فرد کی تربیت پر چھوڑ کر مطمئن ہونے کے بجائے خود ہی بچوں کی تربیت پر توجہ دی جائے۔

جب بات آتی ہے ملکی معاملات کی تو جب سب کچھ ہی میڈیا سے سیکھا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس معاملے میں میڈیا ہمیں تنہاچھوڑ دے۔ اس مقصد کے لئے بے مقصد ٹاک شوز کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے میڈیا کے پاس سوائے بحث اور ایک دوسرے پر الزامات کے کچھ نہیں ہے۔ کس کو اچھا پیش کرنا ہے کس کو نہیں یہ تمام اختیارات ہمارے میڈیا کے ہاتھ میں ہیں ۔جب جس کو اچھا اور طاقتور دکھا دے یہ میڈیا تو ہمارا ہیرو وہی بن جاتا ہے۔ نجانے ہم نے اپنے آپ کو اس میڈیا کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ رکھا ہے۔ اس وقت تین طرح سے میڈیا ہم پر حاوی ہوچکا ہے۔ ہمارے بچوں کی اذہان پر میڈیا کا بہت برا اثر پڑرہا ہے۔ ہماری خواتین بھی میڈیا کے ذریعے امارت اور بگاڑ کی طرف گامزن ہیں۔ سیاست اور ملکی صورتحال بھی اس وقت میڈیا کے ہاتھوں میں ہے۔ میڈیا جس کو چاہیے ہیرو اور جس کو چاہیے زیرو بنا دے۔ ہم ہیں کہ بس میڈیا کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔ اچھے اور برے کا معیار ہم اپنی عقل و سوچ اور مطالعے کے بجائے میڈیا کے ذریعے طے کررہے ہیں جس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141558 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.