گذشتہ سال مئی کے مہینے میں ایک خبر بین الاقوامی
میڈیا اور پھر پاکستانی اخبارات میں بھی گردش کرتی رہی :اٹلی کی اعلیٰ
عدالت نے فیصلہ صادر کیا کہ بھوک سے بچنے کے لیے خوراک چوری کرنا جرم نہیں
ہے۔ججوں نے رومن اوستریاکوف کے خلاف چوری کا مقدمہ خارج کر دیا جنھوں نے
ایک سپر مارکیٹ سے چار یورو مالیت کا پنیر اور ساسیج چوری کیے
تھے۔اوستریاکوف یوکرین سے تعلق رکھنے والے بے گھر ہیں۔ عدالت نے فیصلہ
سنایا ہے کہ انھوں نے خوراک اس لیے اٹھائی تھی کہ انھیں ’فوری اور لازمی
طور پر غذایت کی ضرورت تھی،‘ اس لیے یہ کوئی جرم نہیں تھا۔2011 میں ایک
گاہک نے سٹور کی سکیورٹی کو بتایا تھا کہ اوستریاکوف نے جینووا شہر میں
پنیر کے دو ٹکڑے اور ساسیج کا ایک پیکٹ اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال دیا ہے،
لیکن انھوں نے صرف روٹی کے پیسے دیے ہیں۔2015 میں اوستریاکوف کو چوری کا
مرتکب قرار دے کر 100 یورو کا جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چھ ماہ کے لیے
جیل بھی بھیج دیا گیا۔تاہم بعد میں اس فیصلے کے خلاف اس بنیاد پر اپیل دائر
کر دی گئی کہ جب اوستریاکوف کو پکڑا گیا تو وہ ابھی سپرمارکیٹ کی حدود کے
اندر ہی تھے اس لیے ان کی سزا میں کمی کی جائے۔ تاہم اٹلی کی سپریم کورٹ آف
کیسیشن نے ۲ مئی ۲۰۱۶پیر کے روز حتمی فیصلہ سنا کر سزا مکمل طور پر ختم کر
ڈالی۔ججوں کی نظر میں بقا کا حق ملکیت کے حق پر مقدم ہے،‘ اور یہ کہ اس سے
ہمیں یاددہانی ہوتی ہے کہ کسی مہذب ملک کے بدترین شہری کو بھی بھوکا نہیں
ہونا چاہیے۔اطالوی اخبار لاستامپا عدالت نے لکھا کہ کم مقدار میں اہم غذائی
ضرورت پوری کرنے کے لیے خوراک لے لینا جرم کے زمرے میں نہیں آتا۔عدالت کے
مطابق: ’مدعا علیہ کی حالت اور جن حالات میں خوراک حاصل کی گئی، ان سے ثابت
ہوتا ہے کہ انھوں نے غذا کی فوری اور لازمی طلب پوری کرنے کے لیے کم مقدار
میں خوراک اٹھا لی تھی، اور اس لیے انھوں نے یہ قدم ناگزیر حالات میں
اٹھایا تھا۔‘ اٹلی کے اخباروں نے اس پر خاصے تبصرے کیے ہیں۔ لاستامپا نے
لکھا: ’ججوں کی نظر میں بقا کا حق ملکیت کے حق پر مقدم ہے،‘ اور یہ کہ اس
سے ہمیں یاددہانی ہوتی ہے کہ کسی مہذب ملک کے بدترین شہری کو بھی بھوکا
نہیں ہونا چاہیے۔‘اٹالیا گلوبل نے لکھا: یہ ’تاریخی‘ فیصلہ ’درست اور موزوں‘
ہے اور یہ ’اس اصول سے نکلا ہے جو صدیوں سے مغربی دنیا کی رہنمائی کرتا ہے
اور وہ ہے انسانیت کا اصول۔منددرجہ بالا خبر بیان کرنے کا مقصدکوئی خاص
نہیں ہے سوائے اس کے کہ جس انسانیت کا اصول یہ مغرب والے آج چند صدیوں سے ،
شاید پانچ سے چھ سو سال سے اپنانے کی بات کر رہے ہیں وہ ہمارا دین ہمیں
گذشتہ چودہ سو انتالیس سالوں سے سکھا رہا ہے اور اس پر عمل کا حکم دیا ہے۔
سورۃالمائدہ میں، آیت نمبر ۳۲ تا ۳۴ میں اﷲ پاک حضرت آدم علیہ السلام کے
بیٹوں ہابیل اور قابیل کا واقعہ رسول اﷲ ﷺ کی زبانی بیان کرنے کے بعد
فرماتے ہیں : "اسی سبب سے، ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان
کو خون کے بدلے کے بٍغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو
گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے
گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی، اور ہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا
چکے ہیں پھر بھی ان میں بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرنے
والے ہیں۔ان کی بھی یہی سزا ہے جو اﷲ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک
میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ کہ انہیں قتل کیا جائے یا وہ سولی پر چڑھائے
جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلا وطن کر
دیے جائیں، یہ ذلت ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب
ہے۔ مگر جنہوں نے تمہارے قابو پانے سے پہلے توبہ کرلی، تو جان لو کہ اﷲ
بخشنے والا مہربان ہے۔ " کتنے واضح الفاظ ہیں۔ جس نے کسی انسان کو زندگی
بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی۔ اب کیا بخشنا یہی ہے کہ آپ نے
اسے معاف کر دیا۔ نہیں بخشنا تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو بھوک لگی ہے
اور اس حد تک لگی ہے کہ اگر اس کو کھانا نہیں ملتا تو وہ جان سے جا سکتا ہے۔
آپ نے اس بھوکے کو کھانا کھلایا تو گویا آپ نے تمام انسانوں کو کھلایا۔
یعنی ایک بھوکے کو کھانا کھلانا اتنا ثواب ہے۔ تو پھر ایک انسان کو قتل
کرنے کی جزا بھی تو پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہو سکتی ہے۔ اب کوئی
شیطانی دماغ والا کہہ سکتا ہے یہ تو بنی اسرائیل کے لیے تھا۔ تو میرے عزیز
قارئین، کیا قرآن میں بنی اسرائیل اور دیگر اقوام کے قصے محض قصے کے طور پر
ہی بیان کیے گئے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ وہ ہمارے لیے عبرت ہیں۔ اور پھر یہ کہ ان
میں سے اکثر احکامات ہمارے نبی ﷺ پر بھی اسی طرح قائم رہے جیسا کہ پہلے
انبیاء کے دور میں تھے۔اس کے بعد کتنی سخت سزا ہے کہ جو اﷲ اور اس کے رسول
ﷺ سے لڑتے ہیں۔ رسول ﷺ سے لڑنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اﷲ سے لڑنا کیا ہے؟
یہ لڑنا دراصل اﷲ کے احکامات اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل نہ کرنا
ہے۔ جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے منع نہ ہونا اور جن کے کرنے کا حکم دیا
گیا ہے ان سے منہ موڑ لینا۔ اور پھر جو سب سے خوبصورت بات انسانیت کی معراج،
کہ اتنے بڑے مجرموں کو بھی اﷲ نے معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب یہ بڑے
مجرم کون ہیں؟ تفاسیر کے مطابق یہ ڈاکو، چور، رہزن وغیرہ ہیں۔ حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور میں ایک مرتبہ قحط سالی ہو گئی۔ انھوں نے اجتہاد
سے کام لیتے ہوئے اس وقت اس چوری کی سزا معاف کردی جوکھانے کی ہوتی تھی۔
ظاہر ہے رہزن، پکے چور اس سے مستثناء نہیں تھے۔ آج بھی لوگ حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ کو یاد کرتے ہیں، ان کے انصاف کی وجہ سے، ان کے عدل کی وجہ سے۔ اور یہ
مغربی دنیا اور اس سے متأثرین لوگ کہتے ہیں کہ مغرب صدیوں سے انسانیت
کوسراہتی ہے۔ ارے لوگو، کبھی اپنی تاریخ بھی اٹھا کر دیکھو۔ اپنے اسلاف کے
کارنامے پڑھو۔ ان میں صرف جنگ و جدل ہی نہیں ہے۔ عدل و انصاف بھی ہے۔ جگہ
جگہ انسانیت کی معراج کے واقعات ملتے ہیں۔ اخلاقیات کے درس سے قرطاس ابیض
کو اسود میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ لیکن ان عقل کے اندھو ں کو صرف مغرب ہی نظر
آتا ہے۔ اندھے ہیں نا۔۔ یہ نظر نہیں آتا کہ دہشت گردی کے لیے ڈائنامائیٹ کا
مؤجد ایک مغربی الفریڈ نوبل تھا، جس کے نام پر آج کل نام نہاد امن ایوارڈ
دیا جاتا ہے۔ وہ امن کا ایوارڈ جو برما کی موجودہ خاتون وزیر اعظم آنگ سان
سوچی اور ۱۹۹۴ میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم اضحاک رابن کو بھی دیا گیا تھا۔
سوچی کے دورِ حکومت میں آج برما کے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے، ساری دنیا
جانتی ہے۔ اور اضحاک رابن نے فلسطین پر کیا ظلم نہیں ڈھائے، یہ بھی سب
جانتے ہیں۔ لیکن صرف فلسطین کے اس وقت کے صدر یاسر عرفات سے امن معائدہ
کرنے پر، جس پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا، رابن ہڈ کو امن کا ایوارڈ دیا گیا۔
اور تم مغربی دانشورو اور ان کے پیرو کارو، کہتے ہو کہ مغرب انسانیت کا سچا
دعویدار ہے۔ ہمارا پیارا دین، اسلام، ہمیں امن، سلامتی اور محبت کا درس
دیتا ہے۔ کسی بھی لمحے، کسی بھی موقع پر کبھی یہ نہیں کہا مقابل ظالم ہے یا
مظلوم اس کو قتل کر دو۔ بلکہ رسول اﷲ ﷺ نے یہاں تک کفارِ مکہ کو معاف کر
دیا تھا جو ان کے خون کے پیاسے تھے۔ ان کو ان کے گھروں میں ہی امن کا حکم
پہنچایا۔ کیا اس سے بڑھ کر انسانیت سے اُنس کا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے، ہر گز
نہیں۔
****************
|