ناگزیر کچھ نہیں!

 بات ہاتھ سے نکلے ہوئے تو آٹھ دس روز ہو چکے ہیں، ٹی وی چینلز پر بھر پور کوریج مل رہی ہے، پیکیج بنائے جارہے ہیں، اخبارات میں بھی خبر تین کالموں سے بڑھ چکی ہے، بلکہ خبر کو مختلف اطراف سے دیکھ کر الگ رخ پیش کئے جارہے ہیں، مگر جذبات میں ادا کئے جانے والے الفاظ اور جملوں میں خاص تبدیلی نہیں آئی۔ ’’ٹماٹر کی قیمت کو دیکھ کر صارفین ’لال‘ ہونے لگے‘‘، ’’ٹماٹر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں‘‘، ’’ٹماٹر کی قیمتیں کم کرنے میں حکومت بھی بے بس‘‘۔ اسی قسم کے بہت سے جملے ہیں جو عوام کئی روز سے سن رہے ہیں، بات شروع ہوئے چونکہ بہت دن ہو چکے ہیں، اس لئے معاملے کو مختلف رنگ دینا میڈیا کی مجبوری ہے، سو وہ اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق اپنی اپنی کوششوں میں مصروف ہے، اور ٹماٹر کی قیمت ہے کہ میڈیا کی تمام تر کوششوں کے باوجود واپس نہیں آرہی۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا کا کردار ذرا مختلف ہے، وہاں چونکہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اپنی رائے کا تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں، بہت سے ہاں میں ہاں ملا رہے ہوتے ہیں اور بہت سے ناں میں ناں، کئی خوامخواہ کی مخالفت کرنے والے ہوتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہے، معاملہ عام میڈیا سے مختلف ہے اور عوام میں اس کا پھیلاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔

ابھی اپنے ہاں یہ تصور زیادہ راسخ نہیں ہو سکا کہ کوئی شخص یا کوئی چیز ناگزیر نہیں ہوتی، اس کے پیچھے فلسفہ یہی ہے کہ یہاں ہر چیز فانی ہے، آنی جانی ہے، کسی کی ذرا طویل اور کسی کی مختصر کہانی ہے۔ اپنے ہاں بہت سے ایسے حکمران بھی گزرے ہیں، جن کا خیال تھا کہ وہ ہیں تو سب کچھ ہے، ان کے بغیر نظامِ حیات چلنا ممکن نہیں، مگر نظامِ ہستی چلانے والی طاقت لازوال بھی ہے اور حقیقی مقتدر بھی، اس لئے کام چلتے رہتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں پر ہی کیا موقوف ، یہ فلسفہ ازل سے چلا آرہا ہے، نمرود ہو یا فرعون قدیمی بادشاہوں کا بھی یہی خیال تھا، دنیا نے دیکھا کہ ہر خیال خام ثابت ہوا، اور کچھ کی داستانیں رہ گئیں، اور زیادہ تر داستانوں کے قابل بھی نہ گِنے گئے۔ ناگزیر کی ذیل میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگوں نے دل میں بے شمار خواہشات پال رکھی ہوتی ہیں، جب وہ پوری نہیں ہوتیں، تو ہم سٹپٹانے لگتے ہیں۔ انسانی فطرت کا نقاضا ہے کہ خواہشات کے بغیر جیا نہیں جا سکتا، مگر کسی طرح ان کو کم تو کیا جاسکتا ہے، ان پر قابو تو پایا جاسکتا ہے، ان کے متبادل سے کام تو چلایا جاسکتا ہے۔

رمضان المبارک میں سوشل میڈیا پر پھلوں کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلی تھی، چونکہ رمضان میں پھل واقعی لازم وملزوم کی صورت اختیار کر جاتے ہیں، اور انسانی جسم میں روزے کی وجہ سے ہونے والی کمزوری اور نقاہت کے خاتمے کے لئے بھی پھلوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے، سو یہ مہم چلی، ممکن ہے کچھ کامیابی ہوئی ہو، تاہم زیادہ نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دی۔ اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ پوری قوم یکجہتی کا مظاہر ہ نہیں کرتی، کوئی ایک کسی معاملہ میں آواز بلند کرتا ہے تو اس کی مخالفت کرنے والے بھی قریب سے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں، اس لئے جس کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہوتی ہے ، اسے زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اسے مفت میں حامی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے اسے پھل، ٹماٹر یا کسی بھی چیز کے بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ تو پیسے کے بل بوتے پہ بہت کچھ خرید سکتا ہے، مگر پریشانی تو اس وقت ہوتی ہے، جب انسان کی قوتِ خرید بھی ساتھ نہ دے رہی ہو اور وہ اپنا پیٹ کاٹ کر یا کسی اور اہم چیز کو پسِ پشت ڈال کر ایسی چیز خریدتا ہے تو اس پر افسوس ہوتا ہے۔ اب ٹماٹر افغانستان سے آرہا ہے، یا بلوچستان سے بھی، ایران سے آنے والا ہے اور اپنی فصل بھی تیار ہونے کو ہے، بھارت سے ٹماٹر نہ خریدنے کا فیصلہ ہے۔ جو کچھ بھی ہے ، ٹماٹر ایسی چیز تو نہیں کہ جس کے بغیر ہنڈیا چولہے پر نہ چڑھ سکے، اس کے لئے دہی کا استعمال بھی تو کیا جاسکتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ٹماٹر کے بعد اب دہی مہنگا ہونا شروع ہو جائے گا، جب دہی زیادہ بننے لگے گا تو پھر دودھ کی قلت شروع ہو جائے گی، یہ کہانی چلتی رہے گی، مگر بات وہی ہے کہ کسی چیز کو ناگزیر تصور نہ کیا جائے تو آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472234 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.