لڑائی جھگڑے کے دوران اکثر دیکھا ہے کہ ایک شخص جیب میں
ہاتھ ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ اب بولے تو بھون دوں گا۔مخالف سمجھتا ہے کہ
شاید پستول نکال رہا ہے اس لئے ڈر کر بھاگ جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر دیکھا ہے
کہ مخالف اکڑ کر کہتا ہے نکال پستول ۔ اب وہ خود ڈر جاتا ہے کہ پستول بھی
ہی نہیں خالی دھمکی بھی، نہیں چلی۔ اب وہ مار کھانے کو تیار ہوتا ہے۔بالکل
اسی طرح کیمرے کی آنکھ اک مدت سے ہم لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ شہر میں جہاں
بھی جاؤ ایک بورڈ نظر آتا تھا، ’’کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے‘‘۔ مگر
کیمرہ نظر نہیں آتا تھا۔ حکومت نے فقط بورڈ پر ہی قناعت کی ہوئی تھی۔ کیمرہ
ہوتا ہی نہیں تھا۔کوئی بورڈ کے ڈر سے اگر ہمت نہ کرے تو اس کی مہربانی۔
ورنہ جو کر سکتا ہے کر لے ۔ لیکن پچھلے دو تین سالوں میں کیمرے بھی لگ گئے
ہیں اور ان کی آنکھ بھی متحرک ہے۔سیف سٹی پراجیکٹ خوش اسلوبی سے کام شروع
کر چکا ہے۔تعلیمی اداروں میں ہر جگہ کیمرے کام کر رہے ہیں اور ہر لمحہ اپنی
حدود اور گردونواح کی ہر چیز پر نظر رکھے ہیں۔
تعلیمی اداروں کے حوالے سے یاد آیا کہ چند دن پہلے داخلوں کے دوران ایک بچی
نے شور مچا دیا کہ میں فقط ایک منٹ کے لئے سامنے گئی تھی۔ میرا پرس یہیں
پڑا تھا اور اس دوران کسی نے میرا موبائل پرس سے نکال لیا ہے۔بچی کو حوصلہ
دیا کہ امید ہے مل جائے گا، اسلئے کہ کیمرے کی آ نکھ وہاں پوری طرح متحرک
تھی اور سب دیکھ رہی تھی۔آئی ٹی(IT) ڈیپارٹمنٹ کو کہا گیاکہ کیمرے کی آنکھ
نے جو منظر کشی کی ہے وہ ساری فلم تیار کی جائے۔ فلم تیار ہو کر آئی تو
دیکھا ایک سینئر سٹوڈنٹ لڑکی جو بظاہر اس لئے وہاں موجود تھی کہ داخلے کے
لئے نئی آنے والے لوگوں کو گائیڈکر سکے، اس لڑکی کے وہاں سے جانے پر تیزی
سے آگے بڑھی اس کے پرس سے موبائل نکالا اور یہ جا وہ جا۔ پرس کی مالک بچی
چند لمحوں میں لوٹی، موبائل غائب پایا اور واویلا شروع کر دیا۔کیمرے نے جس
لڑکی کی نشاندہی کی تھی اسے کھر سے بلایا گیا ہو گا۔ اس سے موبائل واپس لے
کر اصل مالک کو واپس دے دیا جائے گا۔ کم سے کم سزا یہی ہے کہ بچی کو
ڈیپارٹمنٹ سے نکال دیاجائے گا۔ اس کے دو تین سال ضائع ہو جائیں گے ۔ ادارے
کے ہر بچے کی نظروں میں وہ ذلیل اور رسوا ہو گی اور یہ رسوائی تا حیات اس
کے ساتھ رہے گیا۔ اگر کیس پولیس کو دے دیا گیا تو پولیس کے حسن سلوک کے
نتیجے میں پورے خاندان کی رسوائی کے اشتہار شہر بھر میں چسپاں ہونگے،
خاندان پر اس کے اثرات کو ہر شخص مجھ سے بہتر جانتا ہے۔
دو سال پہلے ایک یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں اسی ڈیپارٹمنٹ کے ایک طالب
علم نے اپنے دو ساتھیوں کے لیپ ٹاپ چوری کر لئے۔کیمرے کی آنکھ نے یہاں بھی
کمال دکھایا اور پورا منظر محفوظ کر لیا۔چور سے رابطہ کیا گیا ۔ اس نے نہ
صرف صحت جرم سے انکار کیا بلکہ ناراضی کا شدید اظہار کیا اور کہا کہ اس قدر
گھٹیا الزام لگانے کی آپ لوگوں کو جرآت کیسے ہوئی۔ اس نے یونیورسٹی آنے سے
بھی انکار کر دیا۔ اس کے والد صاحب کو اطلاع دی گئی۔ وہ بھی سراپا برہم
وائس چانسلر کے پاس جھگڑنے پہنچ گئے۔ سراپے سے انتہائی مرتاض، لمبی ڈاڑھی۔
آتے ہی جلال میں آ کر یونیورسٹی کو بہت برا بھلا کہا۔ کہنے لگے ، میں نے
بیس لاکھ کی نئی گاڑی بیٹے کو لے کر دی ہے۔ روزانہ پانچ ہزار روپے خرچ کے
لئے دیتا ہوں۔ اس کے ڈیپارٹمنٹ کے سارے بچے اس سے حسد کرتے ہیں ، اس لئے اس
کے بارے ایسی باتیں کرتے ہیں۔
وائس چانسلر نے بڑے تحمل سے ان کی تمام فضول باتیں بھی سنیں اور پھر چشم
دید گواہ وہ کیمرے کی آنکھ طلب کر لی۔فلم چلی اور اس میں ان کا بیٹا چوروں
کے انداز میں لیپ ٹاپ اٹھا کر تیزی سے جاتا ہو صاف دکھائی دیا۔ اب ان کے
پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ غیرت مند آدمی کے لئے یہ مر جانے کا مقام ہوتا
ہے۔وہ چپ ہو گئے مگر اب وائس چانسلر صاحب کی باری تھی۔ انہوں نے بڑے اچھے
انداز میں کہا کہ کسی بچے کو پڑھائی کے دوران پانچ ہزار روپے روزانہ دینا
تو اپنی بربادی کو دعوت دینا ہے۔پھر آپ کے بیٹے کی حرکتیں بتاتی ہیں کہ آپ
کی آمدن سو فیصد حلال نہیں۔ حلال کھانے والے شخص کے بچے کسی حال میں ایسی
حرکت نہیں کر سکتے۔ ہمیں وہ لیپ ٹاپ واپس لا دیں ، اگر آپ کے بچے نے وہ بیچ
دئیے ہیں تو نئے خرید کر دیں۔ آپ کا بچہ اس یونیورسٹی میں اب پڑھ نہیں سکتا،
اس نے جتنے سال پڑھا ہے وہ بھی ضائع ہیں۔یہ بات تو حتمی ہے ۔ لیکن اگر لیپ
ٹاپ دو دن میں نہ ملے تو پولیس کی مدد سے وصول کریں گے۔
بچے کے والد جانے لگے تو وائس چانسلر صاحب نے پوچھا، آپ کرتے کیا ہیں۔ جواب
ملا، سرکاری ٹھیکیدار ہوں۔ وائس چانسلر مسکرا دیئے۔ شاید انہیں وہ شخص یاد
آ گیا ہو گا جو چرس بیچ رہا تھا۔ چند گاہک کھڑے تھے کہ اچانک کھڑے ہو کر
کہنے لگا، ذرہ انتظار کریں ، میں نماز پڑھ لوں۔ کسی نے کہا یہ کیا، بیچتے
چرس ہو اور پڑھتے نماز ہو۔ جواب ملا، نماز میرا فرض ہے اور چرس بیچنا میرا
کاروبار۔ دونوں مجبوریاں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو جائز،
ناجائز اور حلال حرام کا فرق بتاتے ہی نہیں۔طالب علم، تعلیمی ادارہ اور
والدین ایک مثلث کی طرح ہیں ۔اور بچے کی صحیح تربیت کے لئے اس ٹرائیکا یا
مثلث کا پوری طرح متحرک ہونا ضروری ہے۔اگر یہ ٹرائیکا بچے کے بچپن ہی سے اس
کے ساتھ متحرک ہو، بچہ ہر لمحہ خود کو اس کے حصار میں محسوس کرے تو بچہ
ہائیر ایجوکیشن کے اداروں میں پڑھتے ہوئے بھی اس ٹرائیکا کی تعمیر کی ہوئی
چار دیواری میں رہتا ہے۔ وہ ماں باپ اور اساتذہ کا اپنے تمام تر تعلیمی
اداروں میں آخر تک ان سب کا احترام کرتا ہے ،ان کی باتوں پر پوری توجہ دیتا
ہے۔ ایسا بچہ ایک اچھا شہری اور اچھا انسان ثابت ہوتا ہے۔ مگر وہ بچہ جس پر
والدین اس طرح توجہ نہیں دیتے وہ شروع ہی سے آزاد ہوتا ہے اور اس آزادی کو
مادر پدر آزادی میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی اور نتیجے میں وہ نہ تو اچھا
شہری بنتا ہے اور نہ ہی اچھا انسان۔ وہ ماں بات کی دل آزاری ہی نہیں ان کی
ذلت کا بھی سامان کرتا ہے۔ |