دن بھر مزدوری کے بعد تھک ہار کر لالا گھر پہنچا،
دسترخوان پر کھانا کھاتے ہوئے لالے کی سولہ سالہ بیٹی بانو قریب ہی بیٹھی
تھی۔
بانو: ابا جی ! دسویں کا نتیجہ آنے والا ہے، کالج میں بھی داخلہ کروانا ہے۔
لالا(نوالہ پیستے ہوئے): پاگل ہوگئی ہے کیا؟ یہ کالج والج کا چکر چھوڑ،گھر
کا کام سیکھ اور اماں کا ہاتھ بٹا۔ یہ کالج والج ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
بانو:کیوں ابا؟ میری سہیلی گلشن بھی تو آگے داخلہ لے رہی ہے۔ مجھے بھی شوق
ہے، میں بھی آگے پڑھوں گی۔
لالا: بیٹیا ! گلشن کے ابا ایک سرکاری افسر ہیں۔ اپنا گھر، گاڑی سب کچھ ہے
انکے پاس۔ وہ گلشن کی فیس ادا کرسکتے ہیں، وہ گلشن کو کتابیں اور نوٹس دلوا
سکتے ہیں۔ کس چیز کی کمی ہے انہیں؟ میں کون ہوں، جانتی ہے؟ ایک معمولی
مزدور، میں یہ سب اخراجات برداشت نہیں کرسکتا، میں جتنا کرسکتا تھا کیا، اب
ہمت نئیں ہے تجھے مزید تعلیم دلوانے کی۔
بانو: ابا ! یہ سب بہانے چھوڑئیے، میں سرکاری کالج میں داخلہ لوں گی۔ میری
کتابیں، اور فیس سرکار ادا کرے گی۔
لالا: بیٹیا سرکاری کالج؟ معلوم بھی ہے کہ کہاں ہے؟ گلزار صاحب کی بیٹی بھی
سرکاری کالج میں پڑھتی تھی، صرف اسکے آنے جانے کہ انتظام کے پانچ ہزار روپے
ماہانہ لگتے تھے۔ میں یہ خرچہ کہاں برداشت کرسکتا ہوں؟ اور تو واقف نہیں ہے
کیا باہر کے حالات سے؟آئے روز یہ کیا ہو رہا ہے؟ عورت کے لئیے یہ معاشرہ
تنگ ہے اب۔ سکول تو تیرا محلے میں ہی تھا اسلئیے آسانی تھی مگر اب تجھے
محلے سے باہر بھیجنے کا رسک کیسے لوں؟
بانو(نم آنکھوں اور ٹھنڈے لہجے کے ساتھ): ابا !! کیا وہ محلے کا کالج بھی
اب تک تعمیر نہیں ہوا؟
لالا: بیٹیا !! وہ تو گزشتہ آٹھ، دس سال سے زیر تعمیر ہے۔
لالا کے اس مختصر سے جواب کے بعد بانو کے آنسو نہ تھم سکے۔
ان ہی آنسوؤں کے ساتھ بانو کی یہ مختصر سی کہانی ختم ہوئی۔ مگر بانو کی طرح
کئی کہانیاں ہماری حقیقی زندگی میں بھی موجود ہوں گی، جن کے خواب ان حکومتی
وعدوں اور دعوؤں کی نظر ہوچکے ہوں گے۔ کراچی کے علاقے ہجرت کالونی میں
گورنمنٹ کی جانب سے شروع کیا جانے والا گرلز کالج گزشتہ آٹھ، دس سال سے زیر
تعمیر ہے۔ جہاں کی آبادی لاکھوں میں ہے اور اکثریت مزدور ہے، لور مڈل کلاس
سے تعلق رکھتی ہے۔ ہر نئے تعلیمی سال پر یہ کہانی ہجرت کالونی کے بہت سے
گھروں میں دہرائی جاتی ہوگی۔ مگر حکومتی عہدے داروں کو فی الحال اس مسئلے
کے حل کے لئیے فرصت نہیں ملی۔ اس کالج کے مسئلے کو مسلسل التواء میں ڈالا
جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ الیکشن میں اس کے چلتے ہوئے کام کو کیش کروا
کر ووٹ حاصل کئیے جاسکیں، اور اس طرح سے عوام کے ان چھوٹے چھوٹے مسائل کا
مزاق اڑایا جاتا ہے۔ گورنمنٹ گرلز کالج ہجرت کالونی کو صرف الیکشنز میں ہی
کیش نہیں کروایا گیا بلکہ آٹھ سے دس سال سے زیر تعمیر اس کالج کو مختلف
وقتوں میں مختلف چیزوں کے لئیے سیاسی پارٹیوں کی سرپرستی میں استعمال کیا
جاتا رہا، کبھی منگل بازار کے لئیے بھتے پر دیا جاتا رہا اور کبھی کار
پارکنگ پلیس بنا کر ماہانہ فیس وصول کی جاتی رہی، اور تو اور کچھ عرصہ تو
یہ نشہ کرنے اور بیچنے والے افراد کا گڑھ بنا رہا۔ خیر یہ تمام چیزیں تو
عوام کے شدید ردعمل کے بعد روکی جا چکی ہیں مگر کالج کی تعمیر کا کام مسلسل
التواء کا شکار ہے۔ |