ہم چھوٹے چھوٹے مسائل کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر
دینے کے عادی ہیں۔ ہم انتظار کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے شکار لوگ تنگ آ جائیں
اور پھر تنگ آ کر ایک مافیہ کی صورت اختیار کریں۔ کچھ شور ہو ہنگامہ ہو تو
مسئلہ حل کر دیں۔ہنگامہ نہ ہو تو ہم سنتے ہی نہیں۔یہ ہمارا قومی وصف ہے ۔لیکن
اس وقت تک دیر ہو جاتی ہے ۔ لوگ ایک دفعہ بگڑ جائیں تو اس بگاڑ کا کوئی حل
نہیں ہوتا۔وہ مافیہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔وہ بار بار بگڑنے کا بہانہ
ڈھونڈتے ہیں۔کئی دوسرے عناصر بھی ان کی تخریب کاری کو ہوا دینے کے لئے
موجود ہوتے ہیں۔ کاش ہمیں وقت پر احساس ہو جائے تو بہت سے مافیا وجود میں آ
ہی نہ سکیں ۔ ماضی ایسے واقعات سے بھرا ہے مگر کوئی سیکھنے کو تیار ہی نہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں جز وقتی کام کرنے والے اساتذہ مدت سے اپنے معاضے میں
کچھ اضافے کے لئے کوشاں ہیں۔ا ٓخری دفعہ یہ اضافہ چھہ سال پہلے 2011 میں
ہوا تھا ۔ ہر سال ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بیس فی صد کے قریب ہوتا ہے
۔ اگر سالانہ انکریمنٹ بھی اس میں شامل کی جائے تو یہ بہت زیادہ بنتا ہے۔
مگر جز وقتی اساتذہ کواس اضافے کا کچھ نہیں ملتااور جو پہلے سے ملتا ہے اس
پر 2011 میں ٹیکس کٹوتی 6 فیصد تھی اب 15 فیصد ہے۔ یوں لوگوں کو 2017 میں
2011 کی نسبت کم معاوضہ ملتا ہے۔یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ جن کی یونیورسٹی
ہی نہیں قومی مسائل پر بھی تھینک ٹینک کی طرح نظر ہونی چائیے، اپنی سیاست
سے فرصت ہی نہیں پاتے ، سوچ بچار کے لئے وقت کہاں سے لائیں۔ ان کی نالائقی
اور بے حسی پورے ملک میں بہت سے مافیاز کو جنم دے رہی ہے۔
جز وقتی اساتذہ کے معاوضے کے حوالے پچھلے وائس چانسلرسے بھی بات ہوئی تھی
تو انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے بہت کوشش کی ہے مگر اکاؤنٹس والے کہتے
ہیں کہ بجٹ میں پیسے نہیں ہیں۔اس وقت میں نے ہنس کر کہا تھا، اکاؤنٹس والے
ہمیشہ یہی کہتے ہیں ۔ ابھی کوئی ایسا کام جس میں ان کی کمیشن بنتی ہو بتا
دیں تو بجٹ میں پیسے نکل آئیں گے۔مزے کی بات کہ محترم وائس چانسلر نے میری
اس بات سے اتفاق کیا تھا۔مگر کئی دفعہ سطحی سی کوشش اور وعدوں کے باوجود وہ
کچھ کر نہ پائے۔اصل میں جو کرنا ہو دل سے کیا جاتا ہے ،ذاتی دلچسپی لی جاتی
ہے ۔صرف باتوں سے کام نہیں ہوتا۔
ایک بچی سے ملاقات ہوئی، میری شاگرد رہی ہے۔ بہت پریشان تھی۔ کہنے لگی ،
’’سر کسی طرح ا یک ا ٓدھ کورس کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں مل جائے تو میری مشکل
آسان ہو جائے گی۔ آجکل پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ ہوسٹل کی مقیم ہوں ۔ فقط ایک
کورس پڑھا رہی ہوں، پینتیس (35) ہزار روپے فی سیمسٹر کے حساب سے سال میں کل
ستر ہزاریعنی ماہانہ چھ ہزارروپے ملتے ہیں۔جو بڑی معمولی رقم ہے جس میں
گزارا ممکن نہیں۔کیا کروں کچھ مدد کر دیں۔ میں نے ہنس کر کہا بیٹا ایک کورس
اور مل جائے تو تمہاری آمدنی میں فقط چھ(6) ہزار روپے مہینے کا اضافہ ہو گا
جب کہ ایک گھنٹے کا پیریڈ اور ایک گھنٹہ آنے جانے میں خرچ ہو گا۔یوں آمدن
بہت معمولی اور وقت کا ضیاع بہت زیادہ ہو گا۔تمہاری پڑھائی کا بھی بہت حرج
ہو گا۔ایک گھنٹہ پڑھانے کے چھ سات سو روپے فی پیریڈملیں گے، دو سو روپے آنے
جانے پر خر چ ہو جائیں گے ، تمھیں کیا بچے گا۔کہنے لگی ، سر کیا کروں ،
گزارہ تو کرنا ہے یونیورسٹی پیسے ہی اتنے دیتی ہے۔ میں تو پچھلے آٹھ دس سال
سے دیکھ رہی ہوں ۔ سبھی شور مچاتے ہیں۔ گلہ کرتے ہیں مگر کھل کرنہیں کہتے،
ڈرتے ہیں کہ زیادہ کہا تو نکال نہ دیں ۔ اس معمولی مگر کارآمد رقم سے بھی
ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔کسی ذمہ دار کو خیال ہی نہیں۔ ایم ایس سی کے بعد ما ں
باپ کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ وہ پیسے دینے کو تیار ہی نہیں ہوتے، بلکہ
امید کرتے ہیں کہ ہم کمائیں ۔ انہیں نہ بھی دیں مگر اپنے لئے ہی اکٹھا
کریں۔ یہ سب گلہ کرتے ہوئے اس نے کچھ ایسی باتیں بھی کیں جو بہت تلخ
حقیقتیں ہیں مگر لکھنا مناسب نہیں۔اس بچی کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے
جہاں گیارہ سو کے لگ بھگ اساتذہ ریگولر یا کنٹریکٹ پرکام کر رہے ہیں
۔تقریباً اتنے ہی معاون اساتذہ ہیں جو جز وقتی کام کرتے ہیں۔ اور یہ بچی
بھی ان جز وقتی اساتذہ میں سے ایک ہے۔
ایک اور بچی سات آٹھ سال سے مسلسل ایک ڈیپاٹمنٹ میں جز وقتی پڑھا رہی تھی۔
نئے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آئے تو اپنے ساتھ اپنی پسند کی نئی ٹیم لائے۔ ان اپنی
پسند کی ایک ٹیچر کو اس کی جگہ تعینات کر دیا۔ پرانی جز وقتی ٹیچر پریشان
کہ آمدنی ختم۔اتنے سال پڑھانے کے باوجود کوئی عزت اور احترام ، کسی کو
احساس نہیں۔ نئی ٹیچر کی وجہ سے بچیاں پریشان کہ پڑھا نہیں سکتیں اور
پڑھانا چاہتی بھی نہیں۔پرانی ٹیچر اور بچیاں دونوں پریشان کہ کوئی سننے کو
تیار ہی نہیں۔ ٹیچر کہاں شکایت کرے ، اسے سمجھ نہیں آتی۔بچیوں نے ہمت کرکے
جس کسی سے بھی شکایت کی ،الٹا اس سے جھڑکیں ہی کھائیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو
بچوں کی سنتا نہیں وہ اچھا استاد نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے اور تعلیمی
اداروں میں انتظامی عہدوں پر متعین افراد بھی پہلے استاد ہوتے ہیں پھر کچھ
اور۔
ـ’’اگر ہم معاوضہ اور عزت دے کر درجہ اول کے ذہنوں کو تدریس کی جانب لے
آئیں تو ایک روشن خیال تعلیم کے ذریعے انسان کو نئے سرے سے بہتر بنایا جا
سکتاہے‘‘ ۔یہ الفاظ ستارہویں (17Th) صدی کے مشہور فلاسفر فرانسس بیکن کے
ہیں۔بیکن سائینسدان تھا مگر اس سے بڑھ کر ایک فلسفی بھی تھا۔ اس کی کہی
ہوئی بات پر دنیا صدیوں عمل کرتی رہی۔ہمارے ملک میں بھی سالہا سال یہ دستو
تھا کہ یونیورسٹی میں جو طالبعلم پہلی پوزیشن لیتا، اس کی محنت کا احترام
کیا جاتا۔ اس کو فوری طور پر ڈیپارٹمنٹ ہی میں لیکچرار کی نوکری دے دی
جاتی۔وہ مزید پڑھنا یا ریسرچ کرنا چاہتا تو یونیورسٹی اس سے نہ صرف تعاون
کرتی بلکہ پوری طرح مدد گار ہوتی۔بہت سے لوگ ریسرچ کرنا چاہتے ، وہ P.hd کے
لئے خود کو انرول کرا لیتے اور ایک آدھ کلاس لینے کے سوا سارا وقت ریسرچ پر
خرچ کرتے۔ تدریس سے وابستہ لوگ ریسرچ کرتے بھی اور کراتے بھی مگر
نسبتاًکافی کم ۔ جب سے ایک خاص مافیہ یونیورسٹیوں پر قابض ہوا ہے، پڑھانے
والے ملتے ہی نہیں۔ ریسرچ کے نام پر یونیورسٹیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔جز
وقتی اساتذہ ،کہ جن میں اچھے اساتذہ ، ریٹائرڈ بیوروکریٹ، اپنے اپنے شعبے
کے بہترین ،نامورلوگ اور نئے پوزیشن ہولڈر طلبا شامل ہیں ، کا احسان ہے کہ
وہ شوق سے یونیورسٹی میں پڑھانے آتے ہیں، کوئی گلہ بھی کم کرتے ہیں اور
انہوں نے اپنی اعلی تدریس کے سبب یونیورسٹیوں کا بھرم قائم رکھا ہواہے۔
اداروں کو بھی ان لوگوں کا خیال رکھنا، انہیں معقول معاوضہ اور پوری عزت و
احترام دے کر انسان اور انسانیت کی بہتری کا سامان کرنا چاہیے ۔ اسی میں ہم
لوگوں کا بھلا ،ہماری اور قوم کی فلاح ہے۔ |