اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے ، یہ ایک
با برکت اور عظمتوں والا مہینہ ہے ، اس مہینے کے بے شمار فضائل ہے، یقینا
محرم الحرام کا مہینہ عظمت والا مہینہ ہے، اسی ماہ سے ہجری سال کی ابتداء
ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں اﷲ رب
العزت کا فرمان ہے: یقینا اﷲ تعالی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور(یہ
تعداد) اسی دن سے ہے جب سے آسمان وزمین کواس نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے
چارحرمت وادب والے مہینے ہیں، یہی درست اورصحیح دین ہے (التوبۃ 36) ، دور
نبوت آقا نامدار ﷺ سے قبل بھی اس مہینے کوقابل احترام سمجھا جاتاتھا ، اس
مہینے کے دس تاریخ کو حضرت آدام علیہ سلام اور بی بی حوا رضی اﷲ عنہما ایک
دوسرے سے میدان عرفات کے مقام پر دنیا میں پہلی ملاقات ہوئی ، اسی ہی محرم
الحرام کی دس تاریخ کو حضرت نوح علیہ سلام کی نافرمان قوم کو اﷲ رب العزت
نے پانی کے عذاب میں غرق کیا تھا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے
نجات بھی دس محرم الحرام کے دن ہی ملی تھی ، حضرت یونس علیہ السلام کو
مچھلی کے پیٹ سے رہائی بھی دس محرم الحرام کو ہی نصیب ہوئی تھی، بعض
روایتوں میں نقل کیا گیا ہے کہ جب ابرہہ اپنے لشکر کے ساتھ جب مکہ معظمہ کو
گھیرنے کے لئے بڑے آب و تاب کے ساتھ آیا تو اﷲ نے ابابیل نامی پرندوں کے
لشکر کے ذریعے ابرہہ کے لشکرکو تہس نہس کردیا وہ دن بھی دس محرم الحرام کا
تھا حضور اکرام ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہما کا نکاح بھی محرم کے دس
تاریخ کو ہوا تھا ۔
پیارے آقامحمد رسول اﷲ ﷺ کے دنیا میں تشریف آوری اور نبوت ملنے کے بعد آپ ؑ
نے محرم الحرام کے بے شمار فضائل بیان کئے ، عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالی
عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے عاشوراء کا روزہ خود رکھا اوراس دن
روزہ رکھنے کا حکم دیا توصحابہ نے عرض کی:اے اﷲ تعالی کے رسولﷺ اس دن کی
یہودی اورعیسائی تعظیم کرتے ہیں، تورسول کریم ﷺ فرمانے لگے لہٰذا آئندہ بر
س انشاء اﷲ ہم نو محرم کاروزہ رکھیں گے، ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہُ کہتے
ہیں اگلابرس آنے سے قبل ہی رسول کریم ﷺفوت ہوگئے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر
(1916)۔ اس کے ساتھ محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو امیر المومنین خلیفہ دوم
حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہُ کی شہادت ہوئی ہیں ، اور محرم الحرام کی دس
تاریخ کو نواسہ رسول ﷺ گوشہ بتول ؓ حضرت حسین ابن علی رضی اﷲ عنہُ کو شہید
کیا گیا تھا کربلا کے مقام پر اپنے اہل وعیال کے ساتھ ، اس ماہ محرم الحرام
کے فضائل پر اگر لکھتا رہوں تو کئی صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب بن جائیگی
۔
محرم الحرام کے اتنے فضائل اور برکتوں کہ ہونے کے بعد بھی پیارے ملک خداد
پاکستان میں یہ مہینہ ہمارے لئے سیکورٹی کے بے ہنگم انتظامات اور ٹریفک
کیلئے متبادل پلان نہ ہونے کی وجہ سے زحمت اورتکلیف دہ بنتا جارہاہیں ،
محرم الحر ام کے آتے ہی ہمارے سیکیورٹی ادروں کی جانب سے مشہور ومعروف
شاہراہوں،بازاروں کو سیل کئے جانے سے عوام کی پریشانی میں بے پناہ اضافہ
ہوجاتا ہیں ، ملک بھر میں ایککرفیو کا سماء ہو جاتا ہیں ، ہر طرفکنٹینرزنظر
آنے لگتے ہیں ،حکومت کی جانب سے محر الحرام کی آمد سے چنددن قبل ہی
سیکیورٹی کے نام پر ملک بھر میں سڑکیں اور گلیاں بند کرکے آس پاس کے رہائشی
لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا جاتاہیں جس سے عوام کو روز مرہ کے معمولات
کی انجام دہی میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہیں حکومت کو عوام کو
درپیش ان تمام مسائل کا ادراک ہونا چاہئے، اورسیکورٹی کے نام پر عام شہریوں
کو درپیش ان مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرنے چاہیے ۔بالخصوص سات محرم
الحرام سے لیکر دس محر الحرام کے رات گئے تک ، سیکیورٹی کے نام پر پاکستان
کے تمام بڑے شہر ریڈ زون میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، اور ہر سو کرفیو کا گمان
ہونے لگتا ہے اور ساتھ ساتھ ہر پاکستانی دعاؤں میں لگ جاتا ہیں کہ یااﷲ اس
سال بھی خیر و عافیت کا معاملہ ہو جلوسوں کی شرکا کی حفاظت ہو ، عاشورہ کے
دن خیروعافیت گزرئے اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس سال یوم عاشور بخیر و
خیریت گزرا۔
ہر نیا سال گزشتہ سال کے مقابلے میں سخت اور دشوار گزار بنتا جارہاہے ،
یعنیگزشتہ سال کے مقابلے اس سال زیادہ سخت سیکیورٹی انتظامات اور ایک دن
قبل غیر اعلانیہ طور پر موبائل سروس کی بندش نے شہریوں کودہرے عذاب میں
مبتلا کردیا گیا۔ یہ سب حکومتی نااہلی اور انتظامی معملات میں اداروں کی
عدم دلچسپی کے باعث ہورہا ہے اگرسرکاری طور پر مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے
ہوئے محرم الحرام کے مہینے میں عقیدت مندوں کیلئے مجالس اور جلوسوں کے لئے
مخصوص جگہ اور یا ایک روٹ کا تعین کردیا جائے تو سیکورٹی انتظامات میں
آسانی کے ساتھ ساتھ عوام کو درپیش دیگر مسائل سے نمٹنے میں بھی آسانی ہو
جائیگی۔ محرم الحرام کے دن ہونے والے جلوسوں اور مجالس کے انتظام سرکاری
سطح پر اس طرح ایک کھولے گرانڈ میں ہونے چاہئے ،جس طرح ایران ،عراق اور
لبنان میں انتظامات کئے جاتے ہے۔ کیوں کہ عبادت میں کسی کو تنگ نہیں کیا
جاتا ہے، اور یہ جلوس اہل تشیع حضرات کے نزدیک عبادت ہے۔ اور ہمیں فلسفہ
عمر ؓ و حسین ؓ بھی یہی بتا تھا ہے کہ ہم اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نا دیں
۔ محرم الحرام کا یہ مہینہ ہمیں خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب
رضی اﷲ عنہُ اور حضرت حسین ابن علی رضی اﷲ عنہُ کی اپنی اہل و عیال سمیت
شہادت کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے ہمیشہ ان افعال واحکامات کو ماننے سے انکار
کیا جس سے مفاد عامہ کا نقصان ہو ، لہٰذاہمیں شہادت عمرؓ وحسینؓ کے فلسفے
کو سمجھ کر اسے اختیار کرکے مفاد عامہ کو ملحوظ نظر رکھنا چاہئے ۔ تب ہی
پاکستان میں فرقاواریت کا خاتمہ ممکن ہو گا ، اور مکمل امن آئیگا ۔ اﷲ سے
دعا ہے کہ یااﷲ ہمیں فلسفہ عمر ؓ و حسین ؓ پر مکمل عمل کی توفیق عطا فرمائے
( آمین) |