*حسام اہل سنت خلیفۂ حضور تاج العلماء مارہروی علامہ
مولانا مفتی سید محمد عبد القادر برکاتی قدس سرہٗ کا تذکرہ*
*کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا*
*بول بالے میری سرکاروں کے*
سرزمین مالیگاؤں پر خانوادۂ مارہرہ مطہرہ کے بزرگوں کی عنایتیں زمانۂ مدید
سے جاری ہیں کبھی حضور تاج العلماء سید محمد میاں مارہروی علیہ الرحمہ بذات
خود اپنے قدوم میمنت لزوم سے یہاں کی فضاؤں کو فیضان مارہرہ سے مالا مال
کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی مستقل طور پراس فیضان کے کوثر و سلسبیلی نہروں سے
سیراب کرنے کے لیے اپنے چہیتے خلیفہ حُسّامِ اہلسنّت *علامہ مولانا مفتی
سیّد عبدالقادر قادری برکاتی علیہ الرحمہ* کی شکل میں اپنے دامن کرم کی
نعمتوں سے مالیگاؤں کو نواز تے ہیں اور پھر تاج العلماء کے اس چہیتے خلیفہ
نے بھی اپنے مرشد کے حکم پر سر خم تسلیم کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معتد بہ
حصّہ سرزمین مالیگاؤں کی سنگلاخ زمین پر قال اللہ ،قال الرسول کی صدائے
دلنواز یہاں کی فضاؤں میں شب وروز بکھیرتے رہے اور مخلوقِ خدا کی دینی
ومذہبی ،سیاسی وسماجی ہر شعبۂ زندگی میں رہنمائی وقیادت کا حق ادا کردیا
اور ایک بے آب و گیاہ میداں کو گلشن رسالت کا ایک سر سبز باغ بنا دیا۔۔
۴۔محرم الحرام آپ کے سالانہ عرس وفاتحہ کے موقع پر *جانشین امین ملّت ولی
عہد خانقاہ مارہرہ حضرت علامہ مولانا سید امان میاں مصباحی مد ظلہٗ
النورانی* کی حضرت کی مختصر سوانح حیات پر ایک تحریر جو *ماہنامہ اہلسنّت
کی آواز۲۰۱۴ کے "خصوصی شمارہ: خلفائے خاندان برکات"* میں چھپا تھا کچھ
'تطبیقات' کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
" حضرت علامہ مفتی سید محمد عبد القادر صاحب علیہ الرحمہ کا شمار حضور تاج
العلما کے اہم خلفا میں ہوتا ہے۔ دنیائے اسلام آپ کو ’’حسام اہل سنت‘‘ کے
نام سے جانتی ہے۔ آپ حضرت تاج العلما سے شرف بیعت بھی رکھتے تھے۔ آپ کی
خدمات کی ایک طویل فہرست تیار کی جاسکتی ہے۔ آپ ایک بہترین عالم دین، مفتی،
مدیر، منتظم، داعی اسلام اور شاعر تھے۔
آپ کے آبا و اجداد کاتعلق تردیری (Turdairi) ضلع پشاور پاکستان (ازدرقصبہ،
ٹُرڈیرہ ضلع پشاور غیر منقسم ہند)سے تھا۔ آپ کے دادا نے وہاں سے ہجرت
فرمائی۔ آپ کی والدہ کا تعلق ’’رانڈیر‘‘ (راندیر)سورت گجرات کی مشہور
خانقاہ ’’خانقاہ رفاعیہ‘‘ سے تھا۔ آپ ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے(آپکی والدہ کے
بطن سے آپ تین بھائی تھے۔بڑے سید عبد القادر ۔سید اختر ۔سید فضل الدین۔سید
اختر تقسیم سے پہلے ڈھاکہ چلے گیے تھے ۔بعد تقسیم وہیں رہ گئے)۔ *آپ نے
گجرات ہی کے ’’دھوراجی‘‘ ضلع میں مشہور عالم دین حضرت علامہ مفتی احمد یار
خاں نعیمی سے ۲۸-۱۹۲۱ء کے دوران درس نظامی کی تکمیل فرمائی*(وہیں آپ کو سند
فراغت عطا ہوئی جو جہازی سائز کے ورق پر سنہرے حرفوں سے منقش موجود ہے)۔درس
نظامی سے پہلے آپ دنیوی تعلیم میں(۱۶سال کی عمر میں ہی) ’’انٹر‘‘(میٹرک)
پاس کر چکے تھے اور(اچیانہ گونڈل میں) ماسٹر کے عہدے پر فائز ہونے والے
تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آپ استاد تو ہوئے لیکن
اسکول کے نہیں بلکہ علوم اسلامیہ کی درس گاہوں کی رونق بنے۔ فراغت کے بعد
۳۳-۱۹۲۸ میں آپ نے گونڈل گجرات میں دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دیتے رہے۔
اسی دوران آپ نے گونڈل کے مسلمانوں میں دینی جذبہ پیدا کرنے کے لئے اور
تعلیمات اسلام کو عام کرنے کے لئے ’’سنی کمیٹی گونڈل‘‘ کی تشکیل دی اور
گجراتی زبان میں رسالہ ’’اہل سنت کی آواز‘‘ جاری کیا۔ الحمد للہ یہ آپ کے
خلوص نیت کا ثمرہ ہے کہ آج بھی نہ صرف یہ کمیٹی موجود ہے بلکہ یہ رسالہ بھی
مستقل شائع ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کمیٹی دیگر اسلامی لٹریچر شائع کرتی
ہے
*(گونڈل میں ہی آپ نے "حسام الحرمین"کا گجراتی زبان میں ترجمہ کیا تھا اور
شائع شدہ آج بھی موجود ہے حضرت کوگیارہ زبانوں میں گفتگو کرنے کا ملکہ حاصل
تھا)*
۱۹۴۵ء میں آپ مہاراشٹر کے مشہور تاریخی، صنعتی اور ادبی شہر ’’مالیگاؤں‘‘
تشریف لے گئے
*(آپ کو حضور تاج العلماء نے ہی مالیگاؤں میں اشاعت دین و سنیت کے لیے
بھیجا تھا)* آپ نے اپنی زندگی کا اہم حصہ اس شہر کی نذر کردیا اور مسلمانان
مالیگاؤں نے بھی آپ سے بے حد محبت کی جس کا جیتا جاگتا ثبوت مالیگاؤں میں
آپ کی یاد میں *’’قادریہ چوک، بیاد گار حسام اہل سنت حضرت علامہ عبد القادر
برکاتی‘‘* اور *نیا اسلام پورہ میں آپ سے موسوم ’’خانقاہ قادریہ برکاتیہ‘‘*
ہے(اس کا قیام حضرت نے اپنے ذاتی صرفے سے کیا تھا۔اور فرمایا تھا میرے
مریدوں کا ٹھکانہ یہی رہے گا۔الحمد للہ آج بھی برکاتی عاشقوں کا مرکز بنا
ہوا ہے)۔ آج بھی جب آپ کے فرزند حضرت *مولانا سید "محمد" عبد الرحمن صاحب*
گجرات سے تشریف لاتے ہیں تو خلق خدا کی بڑی تعداد آپ کے اور آپ کے والد کے
روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے وہاں جمع ہوتی ہے۔ خانقاہ میں مستقل نماز با
جماعت کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جمعہ اور عیدین کا بھی اہتمام کیا
جاتا ہے۔(فی الحال راقم امامت کے فرائض انجام دے رہا ہے،مصباحی) |