ندا کی آنکھوں میں آنسو آگئے،،،سلمان بمشکل ہاکی سٹک پکڑ
کر واش روم میں
گھسنے کی کوشش کر رہاتھا،،،اس کا دل کیاکہ بڑھ کر سلمان کی مشکل آسان کردے،،،
مگر جانے کیوں اس میں شدت سے یہ خواہش دعا بن کے ابھرنے لگی،،،کہ سلمان کو
کبھی کسی سہارے کی ضرورت نہ پڑے،،،یہ ہمیشہ بنا سہارے کے مضبوطی سے
زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیے۔۔۔۔
زمانے نےاسے کم عمری میں ہی سنجیدگی عطا کردی تھی،،،کم بولنا،،،ذیادہ سنتے
رہنا،،،جب بھی بولنا ناپ تول کر بولنا،،،صرف مسکرانا،،،ایسا لگتا تھا ،،،جیسے
یہ
مسکان بنی ہی اس کے لبوں کے لیے ہو،،،
سلمان واپس کمرے کی جانب چل دیا،،،
ندا نے مسکرا کر کہا،،،سہارا لیا بھی تو بے جان لکڑی کا ہی لیا،،،کیوں ڈرتے
ہوگوشت
پوشٹ کے انسانوں سے؟؟،،،
سلمان نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کا جلوہ دکھایا،،،تو ندا کو اپنی محنت وصول
ہوتی
نظر آنے لگی،،،سلمان نے دھیمے لہجے میں ایسے کہا،،،جیسےکوئی سن لے گا تو،،،
بات کا وزن کم ہو جائے گا،،،محترمہ،،،جب تک بزدل نہ ہوں گے بہادروں کی قدر
کون
کرے گا،،،جیتنے کے لیے اک ہارنے والا ہمیشہ درکا ہوتا ہے،،،
ندا سنجیدگی سے بولی،،،اور وہ بزدل ہارنے والا ،،مسٹر سلمان ہے،،،ہے
نا؟؟،،،
سلمان نے اطمینان سے ندا کو دیکھا،،،دونوں کندھے اچکاکر،،،ہاتھوں کو
ملاکر،،،ناٹ فار ایور،،،
کہہ کر کمرے کی طرف بڑھنے لگا،،،اس کا مطلب تھا،،‘‘کہ بات ختم‘‘،،،،
ندا لپک کے،،،کمرے میں گھس کر سلمان کا بیڈ ٹھیک کرنے لگی،،،اس نےکمرے
میں چاروں طرف نظر دوڑائی،،،ہرچیز بےترتیب بکھری ہوئی،،،کمرے میں جیسے
اداسی
اور دردنے ڈیرا ڈال رکھا ہو،،،ندا نے تیزی سے کمرے کؤ سیٹ کرنا شروع
کردیا،،،
اپنی ماں کی طرح بڑبڑائی،،،سلمان کب بڑے ہو گے تم،،،
سلمان ہنس کر بولا،،،ٹوٹا پھوٹا ہوا ہوں میں،،،پہلے جڑ تو جاؤں،،،مالک بڑا
بھی کردےگا،،،
میں نے کونسا ہمیشہ چھوٹا رہنے کی قسم کھا رکھی ہے،،،
ندا نے کمر پر ہاتھ رکھا،،،سلمان کی جانب مڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
|