جھوٹ کی دلفریب وادیوں میں سفر کرتے ہوئے انسانوں نے
بارہا ولی ، نبی حتٰی کہ خدا ہونے کا دعوٰی بھی کیا مگرتاریخ گواہ ہے کہ آج
تک کسی نے جھوٹے منہ بھی حسین ؑ ہونے کا دعوٰی ہرگز نہیں کیا ۔
کربلا وہ نکتہ ہے
جس کی ساری تفسیریں
خونِ دل سے رنگیں ہیں
راز جو کہ پنہاں ہے
کوئی پا نہیں سکتا
لاکھ انقلاب آئیں
کربلا کے دولہے کا
’’ثانی ‘‘ آ نہیں سکتا
(پروفیسر مقصود سروری شاہکوٹی)
حسینؑ اور ان کے رفقائے کار کا کردار جسے دنیا آج حسینیت کے نام سے جانتی
ہے اس پر عمل ناممکن نہیں تو کارِ دشوار ضرور ہے لیکن جن لوگوں نے حسینیت
کو اپنی زندگیوں کا نصب العین ٹھہرا لیا چشم فلک نے دیکھا کہ وہ سب حریتِ
فکروعمل کے حسین استعارے قرار پائے بقول جوش ملیح آبادی
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
جی ہاں شعور وآگہی کی انتہائی بلندیوں پر متمکن اکیسویں صدی کے ہر گوشے سے
آج حسینیت کے علم بلند ہورہے ہیں اور لوگ بلا تخصیص مذہب و ملت اس بات کے
مدعی ہیں کہ حسینؑ ہمارے امام اور فلسفۂ کربلا ہمار ا منشور ہے اسی پر عمل
پیرا ہو کر ہم کامیابی کادشوار گذار سفر بحسن وخوبی طے کر پائے ہیں
افریقہ کو غلامی سے نجات دلانے والے عظیم رہنمانیلسن منڈیلا اپنی کامیابی
کا سہرا امام حسین ؑ کے سر سجاتے اور کربلا کو اپنا آئیڈئل قرار دیتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ’’ جب جیل میں ،میں یعنی نیلسن منڈیلا کی اسیری بیس سال سے
زائد ہوئی تو ایک رات میں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ کل صبح حکومت کی تمام
تر شرائط مان کر دستخط کردوں گا، لیکن اچانک اسی رات مجھے کربلا اور امام
حسین ؑ کی یاد نے ہمت بندھائی کہ جب امام حسینؑ نے کربلا میں نامساعد حالات
کے باوجود ظلم و یزیدیت کی بیعت نہیں کی تو میں نیسلن منڈیلا کیوں ظلم کے
آگے سرِ تسلیم خم کروں مجھے اعتراف ہے کہ میری کامیابی کا راز کربلا اور
امام حسین کو اپنا آئیڈئل قرار دینا ہے
آج مسلمانانِ عالم بالخصوص اہلیانِ پاکستان جن حالات سے دوچار ہیں حیرت ہے
کہ وہ محض نام نہاد عقیدت سے عقیدہ اختراع کر کے حسینؑ کی زندہ و جاوید فکر
،سوچ اور طرز عمل کو عضوِ معطل کرنے کے درپے ہیں وہ کسی بھی مسلک ومذہب کے
پیروکار ہوں عقیدتِ حسینؑ کے زبانی اقرار میں سر فہرست نظر آنے کیلئے ایڑی
چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مگر عمل کی دنیا میں وہ حسینؑ کے مخالف و مقابل
نظر آتے ہیں رسمِ شبیری کی ادئیگی کیلئے نہ تو صوفیاء خانقاہوں سے نکل رہے
ہیں اور نہ خطباء گفتار کی وادیٔ دلفریب سے نکل کر خارزار عمل میں آنے کو
تیار ہیں یہی حال سیاسی قائدین و عمائدین کا ہے بغل میں چھری منہ میں رام
رام کے مصداق ان کا طرز عمل بھی ہرگز قابل ستائش نہیں اپنے سیاسی بیانات
میں حسینؑ کو اپنا رہبرورہنما قرار دینے والے عملی زندگی میں یزیدیت کے
پرچارک بلکہ دست و بازو ہیں ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی مخدوش
ہے عوام اور شرفاء کیلئے الگ الگ قوانین ہیں انصاف کے نام پر جو رویہ
پاکستانی عوام سے روا رکھا گیا ہے تاریخ کا بدترین مذاق ہے جہاں چوری کے
جھوٹے کیسز میں ملوث عام آدمی کی مار مار کر کھال ادھیڑ دی جاتی ہے اور
سالوں اسے زندان میں رکھا جاتا ہے وہیں مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطابِ لاجواب
پانے والا پورے سرکاری اعزازات کے ساتھ رخصت ہونے کے بعد ملک و قوم کے سینے
پر دن رات مسلسل مونگ دل رہا ہے قطری کمپنی کو غیر قانونی طور پر ایل این
جی کا ٹھیکہ دے کر دو سو ارب روپے کی کرپشن جیسے معاملات میں ملوث شخص ملک
کا وزیر اعظم ہے اربوں روپے کے گھپلے کرنے والا (بنیادی طور پر ایک میٹر
ریڈر)آج اپوزیشن لیڈر ہے منی لانڈرنگ میں ملوث ماڈل گرل نہ صرف باعزت بری
کر دی گئی بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے ملک سے
باہر جا چکی ہے اور آج کل ’’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘ پر
عمل پیرا ہے بقلم خود منی لانڈرنگ کا معترف ملک کا وزیر خزانہ ہے جسٹس باقر
نجفی رپورٹ کے مطابق ماڈل ٹاؤن میں قانون کی دھجیاں بکھیرنے اور14 انسانوں
کے قتل کا مجرم قرار دیا جانے والا شخص وزیر قانون ہے فردِ واحد کی
چودھراہٹ کیلئے جہاں عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر قانون سازی کی جائے
اربوں بلکہ کھربوں ڈالرز لوٹنے والے سرکاری پروٹوکولز سے لطف انداز ہوں
علما ء و سجادگان وزارتوں کے حصول کے لئے وقت کے قارونوں ،نمرودوں ،
فرعونوں اور یزیدوں کی کفش برداری کریں تو کیسے مان لیا جائے کہ حسینیت
وہاں کے لوگوں کا مطمع نظر اور حسینؑ ان کے رہنما ہیں
حسین ؑ کو مساجد اور امام بارگوہوں میں قید کرنے والو!!
زمانہ معترف ہے کہ امام حسینؑ صرف مسلمانوں کے نہیں بنی نوعِ انسان کے
رہبرو رہنما ہیں اب اگر انہیں صرف نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃ کا داعی سمجھ لیا
جائے تو وہ دوسری اقوام کے رہنما کیسے ہو سکتے ہیں جو ان تمام اعمال سے
کوسوں دور ہیں یقینا یہ کوئی انتہائی قیمتی راز ہے جسے الم نشرح کرنا
دانشورانِ دہر کی اولین ترجیح ہونا چاہئے تاکہ عوام الناس اس کے فیوض
وبرکات سے مستفید ہو سکیں دیکھئے نا
پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہاتھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں
بلکہ سب کیلئے ہے یہ صراط مستقیم کی اعلٰی ترین مثال ہے،(1889-1964)
بنگالی مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا، سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کیلئے
فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جاسکتی
ہے جیسے امام حسینؓ نے کربلا میں قربانی دی، بلاشبہ امام حسین انسانیت کے
لیڈر ہیں۔(1861-1941)
بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پراساد بیدی نے کہا تھا، امام حسینؑ کی
قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم
میراث ہے،(1884-1963)
پاکستانیو !!
ﷲ تم بھی حسینؑ کی سیاسی بصیرت و بصارت سے سبق حاصل کرو ، ووٹ کا تقدس
سیکھنایا سمجھنا چاہتے ہو تو فلسفۂ کربلا کے محرکات ، اثرات اور مابعد
اثرات کو اندھی عقیدتوں اور مسالک کی تنگ نظری سے باہر نکل کر بلکہ بغاوت
کرتے ہوئے دیکھو ، پڑھو اور سمجھو ۔ تاکہ تم اپنی نسلوں اور اپنے مستقبل کی
تعمیر کے حوالے سے اچھے اور مثبت فیصلے کر سکو
اور شاید تمہیں سمجھ آسکے کہ حسین محض اسلام یا مسلمان کے نہیں عالم
انسانیت کے رہبرو رہنما ہیں
آخر میں شاعر حقیقت جبار واصف کا کلام جو اہل بیت اطہار اور حسینیت کے
تناظر میں روا رکھے گئے ہمارے رویوں کا بہترین عکاس ہے
علی علی کی صدا لگاؤ،حلیم کھاؤ
علی کی تعلیم بھول جاؤ، حلیم کھاؤ
اسی لئے کربلا میں اصغر نے جان دی تھی
لگا کے پنڈے پہ اپنے گھاؤ، حلیم کھاوٗ
درست سمجھے ہو تم شہادت کے فسلفے کو
لو دس محرم کا دن مناؤ، حلیم کھاوٗ
حسین ابن علی نے نیزے پہ جو پڑھا تھا
وہ یاد آئے تو بھول جاوٗ، حلیم کھاوٗ
یہی عمل تو تمہاری بخشش کی ہے ضمانت
اڑاؤ زردہ، چکن پلاؤ، حلیم کھاؤ
لگا کے نعرے حسین کے غم میں آج واصف
حسینیو آو ٔ ، آؤ ، آؤ ، حلیم کھاوٗ
(جبار واصف) |