مہذب معاشروں میں جہاں تعلیم کی اہمیت شامل ِ حال ہوتی ہے
وہیں تربیت کا عنصر پایا جانا بے حد ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ تعلیم کے ساتھ
تربیت کا ہونے جزو لازم سمجھا جاتا ہے ، اس کیلئے نصاب کا ہونا اور ایسا
نصاب جس سے طالب علم کی استعداد کار او ر صلاحیتوں میں اضافہ ہو ترتیب دیا
جاتا ہے ، اس میں معاشرتی اقدار سے لیکر زندگی گزاونے سے متعلق تمام امور
کا احاطہ کیا جاناناگزیر تصور کیا جاتا ہے ۔ تربیت کے مراحل میں ادب
Literature کا ناطہ بھی جڑ جاتا ہے۔ادب سے ہمیں ثقافت، رسم و رواج سمیت
معاشرے میں پائی جانے والے معاملات سے آگاہی کے ساتھ اداب ِ معاشرت اور لین
دین کا پتہ چلتا ہے ، اس میں احساسات کا اظہار، تفریح ،باہمی رشتوں اور
سماجی رابطوں میں مدد ملتی ہے ۔ دنیا بھر میں مختلف انداز میں ادب تخلیق
ہوتا رہا ہے جس سے انسانی زندگی کو مختلف انداز سے رہنمائی ملی ، یہ ابلاغ
کا بھی اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے جس سے ثقافتوں نے ایک علاقے سے دوسرے علاقے
میں ہجرت کی ۔ ادب کا پرچار اور احساسات کا اظہار ہر زمانے میں جدا انداز
میں ہوتا رہا ہے ۔ محفلوں ، ہجوم سے لیکر لوگوں کی چھوٹی بڑی تقریبات میں
مختلف پیرائے میں ہمیں اس کی موجودگی محسوس ہوئی ۔ ادب کے اسی پرچا رمیں
میلوں ٹھیلوں سے تھیٹر وجود میں آیا جہاں کردار نگاری کے ذریعے سے احساسات
کا اظہارہوا، البتہ اس میں محنت ومشقت زیادہ جبکہ حاصل ہمیشہ کم رہا چنانچہ
اس کو محسوس کرنے کے بعد فلمایائے جانے کی جانب سوچا گیااور اس سوچ سے موشن
پکچر کی تخلیق ہوئی جو ایک پردہ پر دکھاکر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا۔
ابتدا اس کی خاموش اور مختصر فلموں سے ہوئی جس میں کوئی کہانی نہیں ہوا
کرتی تھی تاہم اس میں جدت آنے کے بعد آواز نے جگہ بنائی اور وقت کے ساتھ
ساتھ بلیک اینڈ وائٹ سے اس کا سفر رنگینیوں کی طرف ہوا تو اس کی پزیرائی
میں اٖضافہ ہوا ساتھ ہی اب کہانی اور کردار نگاری ایک چیلنج بھی بنا۔ ادب
کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ بہترین ادب اس کا حصہ بن گیا جس نے عام آدمی تک
رسائی میں اہم کردار ادا کیا ۔ اٖفسانہ نگاری حقیقت کا روپ دھارنے لگی ۔لوگ
اس کے سحر میں گرفتار ہوئے ، اپنے اندر فلموں کے کرداروں کو محسوس کیا جانے
لگا ، عام زندگی میں اس کو مقام ملنے لگا تو لوگوں میں شعور و آگاہی کے
علاوہ اس جیسا رکھ رکھاؤ بھی آنا شروع ہوا جو اس میڈیم کی کامیابی تھی، اسی
دوران ٹی وی وارد ہو ا جس نے لوگوں کو گھروں میں اپنے جادو سے اپناگرویدہ
کرلیا۔ سینماگھروں اور تھیٹر کی تکلیف سے لوگوں کو آزادی ملنے سے وقت کی
تنگی بھی دور ہوئی تاہم اب ادب کو نئے دور میں داخل ہونے میں دشواریاں بڑھ
گئیں ، اب ایسا ادب درکار تھا جو گھر کے ہر فرد کیلئے موزوں ہو ۔ دنیا بھر
میں بڑوں کا ادب لکھنا بہت آسان ہے البتہ بچوں کیلئے ادب لکھنا ابتداہی سے
جوئے شیر لانے کے تصور کیا جاتا ہے ۔ بڑوں کا ادب آپ کو ہر جگہ باآسانی
دستیاب ہوتا ہے ، اس مختلف نوع بھی ملنا کوئی بہت دقت نہیں ہوتی البتہ بچوں
کیلئے ادب لکھنا اس لئے بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ لکھنے والے کو بچوں کی
سوچنا پڑتا ہے ، ان کے خیالات ، احساسات ، رویہ اور رہن سہن کو محسوس کرنا
ہر کسی کے بس کی بات نہین ہوتی ۔انٹرٹینمنٹ کی دنیا نے اسے اور مشکل اور
ناپید کردیا تھا۔ عرصہ دراز تک بچوں کا ادب صرف رسالوں کی حد تک موجود تھا،
کچھ کارٹون کردار تخلیق کرکے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن
نئے دوراور نئی دینا نے اس جانب توجہ دینا شروع کی تو کارٹون کردار اسکرین
پر نظر آنے لگے ۔ یہ کردار وقت گزاری کا سامان تھے گو بچے اس سے محظوظ ہویت
رہے تاہم اس میں مزید کام کیا جانا باقی تھا۔ معاشرتی معاملات ، دینی تربیت
کو اس کا حصہ بنانے کی تگ دو میں یہاں اچھائی اور برائی میں فرق ختم ہونے
لگا۔ مذہبی دشمنی سمیت کئی آلائشوں نے بھی اپنی جگہ بنالی ۔ مغرب نے بے
دینی اور اسلام دشمنی پر مبنی کارٹون سیریز بناکر اسلامی تشخص پر حملے کئے
۔ ہیجان انگیزی کو نمایاں کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی ۔ انتہا پسندی
اور دہشت گردی کو فروغ اسی میڈیم سے ملا۔بھارت نے اپنے کئی مذہبی دیوتاؤں
کو کارٹون کرداروں کی شکل میں بچوں کے سامنے پیش کیا ، البتہ کئی معاشرتی
موضوعات بھی اس ضمن میں زیربحث رہے جن کا بچوں پر مثبت اثر ہوا۔ٹیوی چینلز
کی بہتات میں باقاعدہ طور پر کارٹون چینلز کا قیام ایک سنگین غلطی تصور کی
جاسکتی ہے کیونکہ بچوں کا ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھنا کوئی ٹھیک بات نہیں
ہوتی ، اس اقدام سے بچوں کو مصروف رکھنے کی پالیسی خلاف ضابطہ قرار دی جانی
چاہئے ، اگر بچہ سارا دن یا دن کا بہت سا حصہ اگر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر
گزارے گا تو وہ تربیت کے دیگر رموز سے کب واقفیت حاصل کر ے گا۔
انٹرٹینمٹ انڈسٹری نے جب سے ہمارے معاشرے میں اپنے قدم مضبوط کئے ہی تب سے
اس کے ذریعہ ابلاغ کا کام آسان ہوگیا ہے ،تاثر کو حقیقت کا روپ دینا بہت
آسان ہوچکا ہے ۔اچھائی کو برااور برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنا سہل ترین
ہوگیا ہے ، مغرب نے اس سے بیش بہا فوائد حاصل کئے ہیں اور مزید کی کاوشیں
کررہاہے ، بے دین لوگ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کار ثواب سمجھ رہے
ہیں ۔ یہ مسلم دنیا کیلئے بہت بڑا المیہ اور اس بھی بڑا چیلنج ہے ۔ پشتو
زبان کی کہاوت ہے کہ اگر آپ کو اپنے دشمن کی مسلسل اور تادیر پائیدار تباہی
درکار ہو تو اس کے بچوں کو غلط راہ پر ڈالنے کے اقدامات کرنے شروع کردیں ،
دشمن کے بچوں تک رسائی حاصل کریں ، بری عادات میں ڈال دیں ، ان کے برے
کاموں پر شاباشی دیں ، ستائش کیلئے تحفے تحائف دیں ، ہر وہ سہولت فراہم
کریں جس میں لذت ہو، آسانی ہو تاکہ ان میں بگاڑ پیدا ہو اور اس بگاڑکے حق
میں مزاحمت کی قوت پیدا کردیں تو یقینا آپ مطلوبہ ہدف باآسانی حاصل کرلیں
گے۔
دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں بھی بچوں میں بگاڑ کی بھرپور کوشش کی گئی
اور اس میں دشمن کو بہت زیادہ کامیابی نصیب ہوئی ہے کیونکہ جس طرح سے دینا
بھر میں بچوں کا ادب لکھنا مشکل معاملہ ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارے یہاں اسے
غیر ضروری سمجھا گیا ہے ۔ پاکستان میں میڈیا وار کے بعد اس میں مزید سنگینی
آئی ہے ، لوگ بچوں کیلئے ادب لکھنے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ غیر ملکیوں اس
پر اس قدر اپنی دھاک بٹھادی ہے کہ اب اس پر اثر انداز ہونے کیلئے محنت بہت
زیادہ کرنی پڑے گی جس کامعاوضہ اس شرع سے نہیں ملے گا۔
سلیم مغل بنیادی طور پر بچوں کے لکھاری کی حیثیت پہچانے جاتے ہیں ، وہ اس
معاملہ پر بہت سنجیدہ اور بڑی حد تک رنجیدہ رہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ ہمارے یہاں ادب کی اس نوع پر کام نہیں ہورہا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک
بار یونیسیف کی جانب سے انہیں ٹاسک دیا گیا کہ بچوں کے ادب کیلئے کام کیا
جائے ، کئی معروف لکھاریوں سے ملاقات کی گئی ، تقریبا ً سب نے معذرت کرلی
کہ یہ میڈیم بہت مشکل ہے اس میں شہرت اور دولت دونوں کم البتہ محنت اور وقت
بہت درکار ہوتا ۔اس سے آسان کام بڑوں کیلئے لکھنا ہے ، کم خرچ بالانشین ۔ہمارا
المیہ بھی یہی ہے کہ ہم ضرورت سے زیادہ سہل پسند ہوگئے ہیں ، ہر شے جلد اور
آسانی سے مل جائے ، محنت کرنا موت برابر ہوچکی ہے ۔ آپ چین کی طرف نظر
دوڑائیں وہاں سب سے زیادہ بچوں کے ادب پر توجہ جارہی ہے ، اسکول کی سطح پر
اس کی تربیت ہورہی ہے اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بہت سا ادب انہیں
اسکولوں سے تخلیق ہورہا ہے ۔
پاکستان میں گو اس جانب خصوسی توجہ نہیں دی گئی تاہم ایسا بھی نہیں کہ ہر
کوئی مردہ ذہنیت میں گرفتا ر ہو، شرمین عبید چنائے نے اس جانب قدم بڑھاتے
ہوئے بچوں کی تفریح کیلئے مکمل فلم بناڈال اور خوب پزیرائی بھی سمیٹ چکی
ہیں ۔ٹی وی میں بچوں سے متعلق کچھ اشتہارات میں بھی یاسے کردار متعارف
کروائے گئے ہیں جو مغرب سے آزادی کا پروانہ ہیں ، اسی طرح برقع ایڈوینچر کی
لڑکی جیا کا کارٹون کردار بچوں کیلئے آئیڈیل بن چکا ہے ۔ یہ کردار معروف
گلوکار ہارون کی تخلیق ہے ، جنہوں نے لڑکیوں کے اسکولوں کی تباہ ہونے کی
خبریں پڑھنے کے اس کردار کو تخلیق کیا ۔ برقع ایڈوینچر سیریز کا آغاز
پاکستان سے ہو ا بعدازاں اسے افغانستان ، بھارت اور پھر انڈونیشیا میں
متعارف کروایا گیا جو بہت مقبول ہوئی اور اب اسے اردو، تامل، ہندی، پشتو
اور انڈونیشیائی زبانوں میں بناکر دکھایا جارہا ہے ، مستقبل میں یہ سیریز
انڈونیشیا ، سری لنکا، برونائی، سنگاپور اور بنگلہ دیش میں بھی شروع کئے
جانے کا امکان ہے ۔ برقع ایڈوینچر سیریز نے اس قدر عالمی سطح پر مقبولیت
حاصل کرلی ہے کہ اب اقوام ِ متحدہ نے اس سے بچوں کو انتہا پسندی سے بچانے
کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی ویمن ایشیا پیسیفک
سربراہ میواکاٹو کا کہنا ہے کہ بچپن ہی کے سِن سے بچوں کو انتہا پسندی سے
بچانے کیلئے کارٹون کو استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ہم انتہا پسندی سے بچانے
کیلئے قانون کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے کام کا آغاز تو بچپن ہی سے شرو
کردیا جانا چاہئے جس کیلئے ٹی وی اور انٹرٹینمنٹ اہم ترین ذریعہ ابلاغ ہیں
۔ اقوام ِ متحدہ نے اس کارٹون کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے انتہا
پسندی کے خلاف جنگ میں بطور ہتھیار اور خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور
دینے کیلئے استعمال پر زور دیا ہے ۔ یہ پاکستان کے ایک اجھلے چہرے کی
رونمائی اور امن پسندی کی تائید ہے ، یہ کارٹون سیریز ہمارے دہشت گردی اور
انتہا پسندی سے اٹے ہوئے چہرے سے ہر الزام اور ہر طرح کے خوف کو دھو ڈالے
گی ، اس سے بڑھ ہم اور کیا شے خوش آئیند سمجھیں گے کہ ایک فرضی کارٹون
کردار ہمارے سافٹ امیج کو دینا میں روشناس کرائے گا۔
ہمارے ملک کے ادیبوں کی راہیں کھولنے اور انہیں جراء ت اور محنت کی جانب
مائل کرانے کیلئے برقع ایڈوینچر ابتدا اور سنگ میل ہے ، ہم بحیثیت قوم ایسی
روایات کے امین ہیں ، ہماری تاریخ سچائی ، بھلائی اور بردباری و بھائی چارے
سے بھری پڑی ہے ، ہمارے اسلاف میں بڑوں کی طرح بچے اور خواتین کی بہادری کی
مثالیں غیروں کی زبان پر ہیں مگر وہ تعصب کی بنیاد پر اسے سامنے لانے سے
گریزاں ہیں ۔
پاکستان میں جس تیزی سے بڑوں کے ادب میں تخلیقی ذہن کارفرما ہیں ، کچھ وقت،
تھوڑا ساحصہ بچوں کے لیے بھی مختص کیا جانا ضروری ہے ، ادبیوں کا یہ اس
جہاد میں حصہ کہلایا جائے گا، مجاہدہ یہی ہے کہ کچھ لمحات ، تھوڑی سی
زحمتیں قوم کے مفاد ، اس کی بقا ، اس کی ترقی و خوشحالی کیلئے کی جائیں
تاکہ مملکت ِخداد کو بھی دینا میں سر بلندی نصیب ہو۔ |