چونکہ ہمارے وطن کی بنیاد ہے ،لا الہ الا اﷲ ، اگر اس
گہرائی میں اترتے چلے جائیں تو یوں ہی محسوس ہو گا کہ وطن کی محبت ہمارے
ایمان کا حصہ ہے، جز لاینفک ہے۔ جب ایک مسلمان کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو گویا
وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ احکامات خدا وندی پر عمل پیرا ہو گا ، اور
اپنی تمام زندگی اسی کے احکامات و قوانین کے مطابق بسر کرے گا۔ اسی طرح یہ
وطن ہم نے لا الہ الا اﷲ کی بنیاد پر حاصل کیا تھا جس کے حصول کا مقصد یہ
تھا کہ اس وطن عزیز کے اندر اسلامی نظام رائج ہو گا ہم دین اسلام کے مطابق
اپنی زندگیاں گزاریں گئے، آزادی سے اپنی عبادات کو سر انجام دیں گئے تمام
انسانوں سے یکساں سلوک کیا جائے گا اور اسلام کا بول بالا ہو گا ، اگر قیام
پاکستان کی بنیاد کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بلکل درست ہو گا کہ وطن سے محبت
ہمارے ایمان کا حصہ ہے در اصل پاکستان کا وجود ہی اسلام کی بنیاد پر تھا،
اس وطن کے حصول کا مقصد دین اسلام کی سر بلندی، اور حق کی آواز کو قائم
رکھنا تھا ۔ بر صغیر پاک وہند میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو وہ مذہبی آزادی
میسر نہیں تھی اور اپنی ثقافت کو زندہ رکھنا مشکل ہو رہا تھا، مسلمانوں کے
ساتھ نارواہ سلوک رکھا جا رہا تھا ملازمتوں میں اور دیگر معاملات میں ان کے
ساتھ ناانصافی کی جا رہی تھی اور ان کو آخری درجے کاشہری سمجھا جاتا تھا اس
لیے ایک آزاد قوم کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ان کو ایک الگ ملک کی ضرورت
کا شدت سے احساس ہو گیا لیکن پھر بھی یہ ایک طویل اور صبر آزما کام تھا اس
کے لیے کی گئی جد و جہد کسی بھی صورت کامیاب نہ ہو سکتی تھی، سب خواب صرف
خواب ہی رہ جاتے، لوگوں کی امیدوں کا دیا کبھی بھی روشن نہ رہتا ، لیکن یہ
ممکن ہوا ایک الگ ملک بن گیا جو کہ صرف اور صرف جذبہ ایمانی کے تحت ہی ممکن
ہوا لوگوں کے دل میں ایک الگ وطن کا حصول ان کے ایمان کا حصہ بن گیا اور
انہوں نے اس جد وجہد کو کامیاب بنانے کے لیے جگہ جگہ جلسے جلوس منعقد کئے
اور لوگوں میں اس جذبے کو خوب ابھارا پھر کچھ بھی مشکل نہ رہا اور لوگوں نے
تقسیم ہند کے وقت اپنے اپنے کاروبا ر، جایئداد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اس
لیے ہجرت کی کہ انہیں اس وطن سے بے پناہ محبت تھی ، محبت کیوں نہ ہوتی یہ
وطن ان کے لیے صرف ایک زمین کا ٹکڑا نہیں تھا بلکہ ان کے لیے کل کائنات تھا
انہیں پتا تھا کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیے گئے اس ملک میں انہیں
قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو گی اس لیے مسلمانوں نے اپنے
ہم مذہبوں کی خاطر وہ قربانیاں دیں کہ تاریخ کی کتابوں میں تقسیم ہند کی
قربانیوں کا ذکر سر فہرست ہو گا کیونکہ کہ یہ سب جذبہ ایمانی سے ہی سرشار
قوم نے دی تھی مسلمانوں نے الگ وطن میں پہنچ کر ایک دوسرے کی اسلامی اصولوں
کے مطابق مدد کی اور اپنے دروازے نئے آنے والے مہمانوں کے لیے کھول دیے اور
اپنا سارا مال بے یار ومددگار آنے والے مسلمانوں میں ا ٓدھا آدھا تقسیم کر
لیا، ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا وطن کی محبت ایمان کا حصہ نہ ہوتی تو
ایسا ممکن ہوتا؟ میرے پاس اس سوال کا جواب صرف نہیں میں ہے۔
اب زرا مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ واقعی وطن سے محبت ہمارے ایمان کا
حصہ ہونا چاہیے یا نہیں اس کے لیے کچھ مثالیں اور احادیث بیان کروں گا
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور اکرم ؐ جب مکہ سے نکلے تو اور مقام جحفہ
میں پہنچے تو آپ کے دل میں مکہ کا خیال آیا تو تب یہ آیت نازل ہوئی
ترجمہ: بے شک جس نے آپ پرقرآن نازل کیا وہ آپ کو پھیر لے جائے گا جہاں
پھیرنا چاہو (یعنی مکہ میں) سورۃالقصص
اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضور اکرم ؐ نے نبوت سے
پہلے اپنی زندگی کی جو پہلی جنگ لڑی تھی وہ وطن کے لیے تھی ، اسی طرح جب آپ
ؐ نے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو مکہ کے پہاڑوں پر کھڑے ہو کر فرمایا
کہ ـــــ’’اے میرے مکہ ! اگر تمہارے لوگ مجھے تنگ نہ کرتے تو میں تجھے کبھی
چھوڑ کر نہ جاتا ‘‘ (جمع الفوائد جلد ۱ صحفہ 195 ) اس حدیث مبارکہ سے پتا
چلتا ہے کہ حضور کریم ؐ کو اپنے وطن اور شہر مکہ سے کتنی محبت تھی۔
اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ جب نبی کریم ؐ نے مدینہ کو اپنا شہر بنا لیا
تو دعا میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اے اﷲ ہمارے اندر مدینے کی اتنی محبت
پیدا فرما جتنی تو نے مکہ کی محبت دی ہے اور ہمارے لیے مدینے کی آب و ہوا
کو درست فرما دے‘‘ ( بخاری شریف جلد1 صحفہ558 )
مندرجہ بالا مثالوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام ہمیں حب
الوطنی کی ترغیب دیتا ہے، مگر آج کے نوجوانوں کا حال دیکھیں انٹر نیٹ کی
موج مستی میں گم ہیں کوئی محمود غزنوی جیسا سپوت نہیں ، کوئی محمد بن قاسم
جیسا غیور نہیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو بھلا کر مغربی تقلید میں اندھے
ہو چکے ہیں اور حال یہ ہے کہ جب ہمارے ہم وطن کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں
تو اپنا تعارف کرواتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ
ہمارا نظام تعلیم ہے ہر گلی محلے مین پرایؤیٹ تعلیمی اداروں کی بھرمار ہے
اور تعلیم عام کرنے اور وطن کی محبت کا پرچار کرنے کے بجائے ساری توجہ اپنی
ایڈورٹائزمنٹ اور بھاری فیسیں بٹورنے پر ہے اور سب کا پانا الگ الگ نصاب ہے
تو پھر قوم یکجا کیسے ہو گی؟
بچوں کے دل میں جذبہ حب الوطنی پیداکرنے کے بجائے اس جذبے کو مٹانے کی کوشش
کی جا رہی ہے جماعت پنجم اور ہشتم کے نصاب سے معاشرتی علوم کے مضمون کی
لازمی حثییت ختم کر دی گئی ہے، جب کہ یہ مضمون بچوں کو پاکستان کے بارے میں
معلومات فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ تھا اگر دوسرے ممالک سے موازنہ کیا
جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں بچوں کی فطرت میں جذبہ حب الوطنی کو اجاگر
کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں تا کہ ان کی نس نس میں وطن
کی محبت بس جائے، اسی طرح ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ان
کی ترقی اور کامیابی کا راز حب الوطنی میں پوشیدہ ہے۔
اگر پاکستانی تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو ہمیں زیادہ دور نہیں جانا
پڑھے گا اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستانی
قوم نے صرف اور صرف جذبہ حب الوطنی کی بنا پر انڈیا کو بدترین شکست دی اس
وقت ایمان کی طاقت نے تمام پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا تھا۔
بلاشبہ وطن کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن نہایت افسوسناک بات یہ ہے
کہ پاکستان کے مختلف ٹی۔وی چینلز اور وہاں پر بیٹھے ہوئے نام نہاد دانشور
نئی نسل کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ پاکستان اور اسلام دو مختلف
چیزیں ہیں اور یہ ہر گز اسلام کے نام پر نہیں بنا ، جبکہ ایسا کہنا دو قومی
نظریے کی سراسر خلاف ورزی ہے جو کہ پاکستان کے آزاد ہونے کی بنیاد ہے۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ کلمہ طیبہ کی نسبت اور جذبہ حب
الوطنی ہی ہے جس کی بدولت ہزاروں دھچکے لگنے کے باوجود ہمارا ملک آج بھی
قائم و دائم ہے اور اگر یہی جذبہ دلوں میں موجود رہا تو انشاء اﷲ قیامت کی
سحر ہونے تک ہمارا یہ ملک قائم و دائم رہے گا ۔ |