*(چشم کشا حقائق اور اصل واردات بےنقاب ھوگئی)*
ختم نبوت کا معاملہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکے۔ لا الہ الا
اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننے والے ملک میں اس قانون پر نقب لگایا جائے' اسے
کوئی اہل ایمان برداشت نہیں کرسکتا۔
گزشتہ دنوں آئین میں ترمیم کر کے ایک نا اہل وزیر اعظم کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے
کے لئے جس طرح آئین کا استحصال کیا گیا وہ ایک طرف لیکن پاکستان کے نظریاتی تشخص پر
حملہ آور ایک سیاسی جماعت "ن لیگ" جو کبھی اپنے آپ کو دائیں بازو کی نمائندہ کہتی
تھی آج لبرل ازم اور سیکولرازم کے لئے وہ خدمات پیش کر رہی ہے کہ اس نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس اور حرمت کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ مسئلہ بہت
نازک اور وار اتنی چالاکی سے کیا گیا ہے کہ بعض علماءکرام اور دیگر لوگ بھی منقسم
ھوگئے کہ اصل میں ہوا کیا؟ اور یہ اچانک شور کیسا؟
یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ قانونی دستاویزات میں ہر لفظ کے پیچھے ایک اہم پہلو
ہوتا ہے ۔ محض تجزیاتی و جذباتی آراء "قانون" نہیں بنتیں بلکہ یہ دستاویزات عملی
حیثیت میں قوموں کے مستقبل اور ان کی شناخت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
کوشش کر تے ھیں کہ آسان ترین انداز میں اس بحث کے کچھ ایسے پہلو سامنے رکھنے کی
کوشش کی جائے جو کم از کم پہلے کسی کی نظر سے نہیں گزرے اور ایک طویل تحقیق کے بعد
کچھ چیزیں تلاش کی گئی ہیں جو اب پیش خدمت ہیں۔
قومی اسمبلی میں جیسے ھی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے جذباتی انداز سے یہ بات
کہی کہ اراکین اسمبلی کے حلف نامہ میں سے ناموس رسالت کا قانون نکال دیا گیا ہے اور
پھر انہوں نے کچھ نامور مذہبی شخصیات کو للکارتے کہا کہ وہ کہاں سوئے ہوئے ہیں تو
پارلیمنٹ میں کسی نے توجہ نہیں دی مگر سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایک بحث شروع ہوگئی
اور شدید ردعمل سامنے آنے لگا۔
عام طور پر سوشل میڈیا کا مزاج جھوٹی اور سنسنی خیز خبروں کو تیزی سے پھیلانا اور
اس پر پراپیگنڈہ پھیلانا ھی نظر آیا مگر ختم نبوت کے حوالے سے یہ ایک ایسا سنجیدہ
مسئلہ تھا جو مذھبی لحاظ سے بحیثیت ایک مسلمان بہت جذباتی نظر آیا اور یقیناً ایسا
ہونا بھی چاہیے کیونکہ تحقیق کا حکم قرآن مجید میں بھی موجود ہے یوں سنجیدہ اھل نظر
افراد نے اس ترمیم شدہ بل کی دستاویز حاصل کرنے پر معلوم ہوا کہ ناموس رسالت کی شق
موجود ہے یوں سوال پیدا ھوا کہ اگر یہ شق موجود ھے تو پھر شور کیسا؟ یہیں سے اصل
بحث کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
شیخ رشید کے بیان کے بعد کچھ مذہبی جماعتوں نے فوری احتجاج کرتے ہوئے اس اقدام کی
مذمت کی اور شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جبکہ کچھ نے محتاط انداز میں تشویش ظاہر کی
لیکن جوحکومت کی اتحادی مذہبی جماعتیں تھیں انہوں نے اسے پروپیگنڈا قرار دیا اور
یہی شق پیش کرتے چیلنج کر دیاکہ کہاں ھے تبدیلی؟ اور بعض نے تو مناظرے کا چیلنج بھی
دیدیا اور انگریزی سیکھنے کا مشورہ بھی دیا اور اسی طرح یہ بھی کہاکہ Affirmation
اور حلف ایک ہی چیز ہیں۔
خوفناک پہلو سے قبل یہ بتانا ضروری ھے کہ فرق اس شق کے الفاظ میں نہیں تھا بلکہ اس
سے پہلے لکھی ایک سطر میں تھا جو اس طرح سے ہے۔
ترمیم سے پہلے امیدوار فارم پر ختم نبوت کا اقرار یہ کہ کر کرتا تھا کہ "میں دیانت
داری سے قسم کھاتا ہوں" جبکہ ترمیم کے بعداس کے الفاظ یہ ہو گئے ہیں کہ"میں
دیانتداری سے اقرار کرتا ہوں" یعنی فرق "قسم" Oath اور "اقرار" Affirmation کا ہے۔
اگر یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں تو پھر تبدیلی کی ضرورت کیوں؟ اور کس لئے پیش آئی؟
فارم پر جہاں امیدوار دستخط کرتا ہے وہاں بھی اسی سے منسلک تبدیلی کر کے اب
Statement of Oath کی جگہ Solemn Affirmation لکھ دیا گیا۔
آخر یہ Oath اور Affirmation کا معمہ ہے کیا؟
آپ حیران ہونگے کہ جس مسئلہ کو ہمارے بعض علماءاور وزراء معمولی سمجھ کر کر رہے تھے
کہ یہ ایک ہی چیز ہے اس کی جڑیں 305 سال پرانی ہیں جب ایک Quakers نامی عیسائی فرقہ
نے حلف لینے سے انکار کیا اور کہا کہ ہم صرف اقرار کریں گے کیونکہ کے ان کے نزدیک
خدا ہر انسان میں ہے اور اسے علیحدہ سے قسم کھانے کی ضرورت نہیں اور اسی طرح کے
دیگر عقائد کی بنیاد پر انہوں نے Oath بجائے Affirmation کا سہارا لیا اور 1695ء
میں Quakers ایکٹ 1695ء منظور کروایا۔ اس قانون میں بھی وہی الفاظ درج ہیں جو
موجودہ ترمیم میں شامل کئے گئے ہیں
Quakers Act 1695 (An Act that the Solemne Affirmation & Declaration of the
People called Quakers shall be accepted instead of an Oath in the usual Forme; 7
& 8 Will. 3 c. 34) was passed.
بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ 200 سال قبل اسکاٹ لینڈ کے ملحدین نے بھی حلف کی
مخالفت یہ کہتے ہوئے کردی کہ : ہم تو خدا کو مانتے ہی نہیں تو پھر قسم کیوں کھائیں؟
اور اس طرح انہوں نے بھی قانون سازی کروا کے یہ شرط ختم کروادی۔
یہ سارا کھیل دراصل اس تاریخ کا حصہ ہے جب مغرب نے چرچ اور مذہب سے اپنا رشتہ توڑ
کر لادینیت اور سیکولرازم کی بنیاد رکھی۔
چارلز براڈلاف نامی ایک شخص جس نے قومی سیکولر سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی اسی نے
Affirmation Law یا Solemn Affirmation کی بھی بنیاد رکھی۔ وہ 1880ء میں برطانیہ
میں الیکشن جیت کر منتخب ہوا مگر اس کو حلف دینے سے روک دیا گیا کیونکہ وہ ملحد
یعنی لادین تھا اور عیسائیت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اس نے حلف کے بجائے اقرار کی
استدعا کی جو مسترد کردی گئی اور اس سے سیٹ چھین لی گئی تاہم بعد میں ضمنی انتخابات
کروائے گئے جس پر وہ ایک مرتبہ پھر جیت گیا اور پھر سے حلف سے انکار کیا جس پر اسے
گرفتار کرلیا گیا ‘ بالآخر یہ سلسلہ جاری رہا اور ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔
5ویں دفعہ جاکر وہ 1886ء میں حلف لینے پر راضی ہوا جس کے الفاظ میں اپنی مرضی کی
ترمیم کی اور پھر اس نے 1888ء میں Oath Act پیش کیا جس کے ذریعہ لادین لوگوں اور
ملحدین کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ حلف کی بجائے فقط اختیار پر گزارا کریں۔ یہ
قانون ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا جس میں کلیدی کردار چارلس براڈلاف ہی کا
تھا جو مغرب میں سیکولر قانون سازی کی بنیاد بنا۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ سیکولرازم کے علمبردار ملحد چارلز کی موت 1891ء میں
واقع ہوئی اور اس جنازے میں 21 سالہ ایک نوجوان موجود تھا جس کانام موہن داس گاندھی
تھا جس نے آگے چل کر بھارتی سیکولر آئین کی بنیاد رکھی۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ مغرب میں آج بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ اپنا عقیدہ چھپا کر
محض اقرار کا سہارا لے کر کئی ملحد عیسائی بن کر پارلیمنٹ کے ممبر بنے جن کی اصلیت
بعد میں سامنے آئی۔ان دونوں الفاظ کے قانونی اثرات کیا ہیں یہ ثانوی بات ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ نوازشریف کی ن لیگی حکومت کو آخر 99% مسلمان آبادی والے ملک میں
حلف کو اقرار میں بدلنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ یہ مسئلہ تو مغرب کی ان ریاستوں میں
پیش آیا یا آتا رہا ہے جو مکمل سیکولر اور لادین ہیں کیونکہ وہاں بہت بڑی تعداد ان
لوگوں کی ہے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور کسی ایسی ہستی پر یقین نہیں رکھتے
جسے وہ خدا یا اس کے برابر سمجھتے ہوں اور اس کی قسم کھانے کے لیئے تیار ہوں؟
جبکہ ایک اسلامی ملک میں جس کے آئین میں بالادستی قرآن و سنت کی ہو اور حلف اور قسم
کی بے انتہا اہمیت ہو وہاں اس قسم کی خوفناک تبدیلی محض دفتری غلطی نہیں بلکہ ایک
گہرا وار ہے جو باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکمران جماعت واضح طور پر ملک کی نظریاتی اساس پر حملہ آور ہو کر اس
کو لبرل ازم کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تاکہ عالمی طاقتوں کی مکمل سپورٹ حاصل
کر کے اپنا اقتدار مستحکم کیا جاسکے اور سیکولرازم کی بنیادوں کو پاکستان کے آئین
میں مضبوط کیا جاسکے۔
اب یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ باقاعدہ سیکولرازم کا شب خون پاکستان کے آئین پر
مارا گیا ہے مگر اس کا ختم نبوت سے کیا تعلق ہے؟ اس کیلئے چند ایک باتوں کی طرف غور
کرنا ہو گا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت میں جھوٹ بولنے کی بنیاد پر نااہل
قرار دیا گیا جبکہ اب انتخابی اصلاحات بل کے نام پر جو ترمیم شدہ قانون قومی اسمبلی
میں منظور کیا گیا اس کیمطابق آئندہ جھوٹ بولنے والے کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکے
گا۔ اراکین اسمبلی کے حلف نامہ میں ختم نبوت کی شق سے متعلق دعویٰ کیا جارہا ہے کہ
اس کی عبارت جوں کی توں ہے لیکن اس میں ڈیکلریشن پلس اوتھ کی جگہ صرف
ڈیکلریشن/ایفرمیشن لکھ کر اوتھ کا لفظ ختم کر دیا گیا ہے یعنی قسم اور حلفا اقرار
کے الفاظ کلی طور پر حذف کر دیے گئے ہیں۔ اگر ان باتوں کی جانب تھوڑا غور کریں تو
اس کے خوفناک نتائج واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں اور صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ
گہری سازش کے تحت کیا گیا ہے۔ ختم نبوت کے حوالہ سے اس تبدیلی کے بعد اب اگر کوئی
مرزائی ختم نبوت کا جھوٹا اقرار کر کے اسمبلی پہنچ جائے اور بعد میں اس امر کا پتہ
چلے کہ یہ تو مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے تو حالیہ ترمیم کی وجہ سے صرف جھوٹ بولنے
کی بنیاد پر اسے نااہل قرار نہیں دیا جاسکے گا کیونکہ حلف کے الفاظ تو پہلے ہی حذف
کر دیے گئے ہیں۔ یعنی اس انداز میں قانونی تبدیلی کی گئی ہے اور تھوڑا جھول رہ جائے
اور آئندہ ملحد قسم کے لوگوں اور ختم نبوت کو تسلیم نہ کرنے والے قادیانیوں کو
فائدہ پہنچایا جاسکے۔
ڈاکٹر محمد مشتاق، ڈین فیکلٹی آف شریعہ اینڈ لاءاسلامک یونیورسٹی اسلام آباد نے اس
موضوع سے متعلق ایک اور اہم نقطہ کی طرف اشارہ کیا ہے‘ اسے بھی سمجھنا ضروری ہے۔ ان
کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی سب سے خطرناک ترین حقیقت یہ ہے کہ 2002ءکے قانون کی
دفعہ 7 (ذیلی دفعہ سی) کی منسوخی کے بعد اب قادیانی یا لاہوری گروپ کے کسی ووٹر کو
مسلمانوں کی ووٹرلسٹ سے نکالنے کا کوئی قانونی طریقہ باقی نہیں رہا۔ اس سے یہ بات
قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ تبدیلیاں کس کے کہنے پر اور کس کو خوش کرنے کے
لئے کی گئی ہیں!
سوال ہے کہ تمام حقائق واضح ہونے کے بعد کیا اب بھی کسی ثبوت کی ضرورت باقی رہ جاتی
ہے ؟
ختم نبوت اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کو پامال کرنے کی اس ناپاک جسارت کی بلا
تفریق قومی سطح پر مذمت ک جانی چاہئیے اور اس تبدیلی کو نا صرف فوری طور پر واپس
لیئے جانے کیساتھ ساتھ اس سازش کے پیچھے کارفرما عناصر اور انکے اصل عزائم کو قوم
کے سامنے لاکر قانونی کاروائی کی جانی چاہئیے تاکہ آئندہ چور راستوں سے اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے متفقہ آئین اور نظریہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو روکا جاسکے۔
|