ٹی بی یا تپِ دق کی متعدد اقسام ایسی ہیں جن سے بیشتر
دنیا ناواقف ہے- اور اسی لاعلمی کے باعث اکثر افراد ٹی بی مختلف اقسام کا
نہ صرف شکار بن رہے ہیں بلکہ موت کے منہ میں بھی جارہے ہیں- بچوں میں ٹی بی
کی مختلف اقسام٬ ان کی وجوہات٬ علامات اور ان کے علاج کے بارے میں جاننے کے
لیے ہماری ویب کی ٹیم نے معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر مبینہ آگبٹوالہ سے
خصوصی ملاقات کی- ڈاکٹر صاحبہ اس حوالے سے کیا اہم معلومات فراہم کرتی ہیں؟
آئیے جانتے ہیں: (واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہم نے ڈاکٹر مبینہ کے تعاون سے
اپنے قارئین کو بچوں میں پھیلنے والی پھیپھڑوں کی ٹی بی کے حوالے سے آگاہ
کیا تھا جو کہ اس انٹرویو کا پہلا حصہ تھا- اور آج ہم ٹی بی کی دیگر اقسام
کے حوالے سے آپ کو آگاہ کریں گے)-
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ دماغ کی ٹی بی (TB meningitis) سب سے خطرناک ٹی
بی ہوتی ہے جو کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے- بی سی جی کے ٹیکے پھیپھڑوں
کی ٹی بی سے تو 100 فیصد بچاتے ہیں لیکن دماغ کی ٹی بی سے یہ صرف 80 فیصد
بچاتے ہیں“-
|
|
“ دماغ کی ٹی بی بھی کھانسی٬ نزلے اور ٹی بی کے مریض کے برتن استعمال کرنے
سے پھیلتی ہے- چونکہ بچوں میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے اس لیے یہ ٹی بی بچوں
میں عام ہے- اس ٹی بی میں بچے کو بخار رہتا ہے٬ وہ کمزور ہونے لگتا ہے اور
اگر اس ٹی بی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ اس کے جراثیم دماغ میں داخل
ہوجاتے ہیں“-
“ اور پھر نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ بچہ سوتا رہتا ہے جاگتا ہی نہیں- اس کے
بعد بچے کو جھٹکے لگنے لگتے ہیں اور وہ کومے میں چلا جاتا ہے- اگر بچے کا
صحیح علاج نہ کیا جائے تو اس کا جسم اکڑ جاتا ہے“-
“ اس ٹی بی تشخیص بھی خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کے ذریعے ہوتی ہے- لیکن لمبر
پنکچر سے دماغ کی ٹی بی کی تشخیص میں کافی مدد ملتی ہے- لمبر پنکچر میں بچے
کی ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکالا جاتا ہے- دماغ کی ٹی بی کا علاج جلد از جلد
کروانا چاہیے ورنہ موت واقع ہوسکتی ہے یا پھر معذوری کا سامنا کرنا پڑ سکتا
ہے“-
ڈاکٹر مبینہ مزید بتاتی ہیں کہ “ ایک آنتوں کی ٹی بی بھی ہوتی ہے- اس میں
بھی بچہ کمزور ہوتا جاتا ہے اور اسے یا تو ڈائیریا رہتا ہے یا پھر قبض-
اگرچہ اس ٹی بی میں کھانسی نہیں ہوتی لیکن اسے بھوک بھی نہیں لگتی اور پیٹ
میں درد رہتا ہے“-
|
|
“ اس ٹی بی کی تشخیص خون کے ٹیسٹ٬ الٹرا ساؤنڈ یا ایکسرے کی مدد سے ہوتی ہے-
اور اس ٹی بی کا علاج 1 سال تک جاری رہتا ہے“-
“ اس کے علاوہ ایک ٹی بی ہڈیوں یا جوڑوں کی بھی ہوتی ہے- ہڈیوں کی ٹی بی
میں بچے کے پیروں میں چلتے چلتے درد ہوتا ہے اور ایک پھوڑا بھی نکلتا ہے جس
میں سے مواد خارج ہوتا رہتا ہے اور وہاں بھی درد ہوتا ہے“-
“ اس ٹی بی کی علامات میں بھی بخار٬ کمزوری٬ وزن میں کمی٬ بھوک کا نہ لگنا
اور ٹھنڈے پسینے آنا شامل ہے- اس ٹی بی کی تشخیص ایکسرے اور پھوڑے سے نکلنے
والے مواد کے ٹیسٹ سے ہوتی ہے- اس کا علاج طویل ہوتا ہے جو کہ 12 ماہ کا
بھی ہوسکتا ہے اور 18 ماہ کا بھی- کبھی کبھی اس ٹی بی کی سرجری کرنے کی بھی
ضرورت ہوتی ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ “ ہڈیوں کی ٹی بی کے ساتھ جوڑوں کی ٹی
بی بھی لاحق ہوجاتی ہے- اس ٹی بی کی علامات تو دوسری ٹی بی والی ہی ہوتی
ہیں لیکن اس میں جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا ہے اور ان میں سوجن آجاتی ہے“-
|
|
“اگر اس کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ سوجن بڑھ جاتی ہے اور جوڑ پر ایک پھوڑا
سا بن جاتا ہے اور اس میں سے بھی مواد نکلتا ہے- مواد چاہیے ہڈیوں کی ٹی بی
کے پھوڑے کا ہو یا جوڑوں کی ٹی بی کے پھوڑے کا٬ یہ ٹھنڈا ہوتا ہے“-
“ اس ٹی بی کا علاج اگر صحیح طریقے سے نہ ہو تو جوڑ سخت ہوتے جاتے ہیں اور
جُڑ جاتے ہیں اور پھر اس کا علاج صرف آپریشن کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کے مطابق “ ایک ٹی بی ایسی بھی ہوتی ہے جس میں جسم کے تمام
غدود بڑھ جاتے ہیں- اس ٹی بی کی تشخیص کے لیے ایک چھوٹی سی Biopsy کی جاتی
ہے- اس ٹی بی کا علاج 12 ماہ پر مشتمل ہوتا ہے“-
“ ایک ٹی بی گردوں کی بھی ہوتی ہے اور اس کی دیگر علامات تو ٹی بی کی دوسری
اقسام کی مانند ہوتی ہیں لیکن اس میں اضافی چیز یہ ہوتی ہے کہ پیشاب کے
ساتھ خون آتا ہے اور گردوں میں درد رہتا ہے“-
|
|
“ ایک ٹی بی ایسی بھی ہوتی ہے جو پھیپھڑوں کی ٹی بی میں متاثر ہونے والے
کسی جسمانی عضو کے باعث لاحق ہوتی ہے- اس ٹی بی میں دیگر اعضاﺀ بھی متاثر
ہوتے ہیں اور یوں یہ پورے جسم میں پھیل جاتی ہے“-
“ اس ٹی بی کا علاج بھی ممکن ہے لیکن شرط وہی ہے کہ علاج مکمل ہونا چاہیے-
اکثر والدین علاج کے آغاز میں جب بچے کو بہتر ہوتا دیکھتے ہیں تو وہ یہ
سمجھتے ہیں کہ بچہ صحتیاب ہوگیا اور علاج مکمل نہیں کرواتے- لیکن 6 سے 8
ماہ بعد یہ بیماری دوبارہ ابھر کر سامنے آتی ہے اور زیادہ مزاحمت کرتی ہے-
اب کی بار اس بیماری سے نجات کے لیے خاص دوائیں استعمال کرنی پڑتی ہیں جو
مہنگی بھی ہوتی ہیں“- |
|
|
Click Here For Part I
|