ٹیر ی ایگلٹن (Terry Eagleton)

 مابعدجدیدیت کے ممتاز علم بردار، نامور بر طانوی ادبی تھیورسٹ، ادبی صلاحیتوں کو صیقل کرنے والے نقاد ، ماہر لسانیات اور رجحان ساز ادیب ٹیری ایگلٹن (پیدائش :22۔فروری 1943)کا شمار عصر حاضر کے نامور دانش وروں میں ہوتا ہے ۔ اس نے ایم ۔اے اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں ٹرنٹی کالج کیمبرج سے حاصل کیں۔ اس نابغۂ روزگار فاضل نے چالیس سے زائد وقیع کتب لکھ کر انگریزی ادب کی ثروت میں اضافہ کیا اور لوح ِجہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا ۔ٹیری ایگلٹن ان دنوں لینکا سٹر یونیورسٹی (Lancaster University)میں تدریسی خدمات پر مامور ہے ۔سال 1964میں روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والی برطانیہ کی اس پبلک سیکٹر یونیورسٹی نے اہلِ عالم کے لیے فروغِ علم و ادب اور صدا صداقتوں کے در وا کر رکھے ہیں ۔ لسانی تجزیہ،تنقید،تحقیق اور ادبی تھیوری میں گراں قدر خدمات انجام دینے کی بنا پرٹیری ایگلٹن کا شمار عصر ِ حاضر کے مقبول ادیبوں میں ہوتا ہے ۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سال 1983میں اس کی معرکہ آرا تصنیف ’’Literary Theory: An Introduction‘‘شائع ہوئی تو مختصر عرصے میں اس کی سات لاکھ پچاس ہزار کاپیاں فروخت ہوگئیں۔اس کتاب میں بدیسی خصوصیات کو اپناتے ہوئے عصری آ گہی پروان چڑھانے کا جو رجحان پایا جاتا ہے وہ قارئین کے لیے منفرد تجربہ ثابت ہوا ۔ٹیری ایگلٹن نے پامال راہوں کی تقلید کی مہلک روش کولائقِ استر دادٹھہراتے ہوئے جدت ،تنوع اور ندرت کی مظہر جوخصوصی تھیوری پیش کی اُس میں مروّج ادبی تصورات کو لاحق خطرات کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے ۔ ہر قسم کی تنگ نظری اور عصبیت کے مخالف اس دانش ور نے ادبی تھیوری کو اداراتی صورت عطا کر کے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ان کو دنیا بھر میں قدرکی نگاہ سے دیکھا گیا ۔اس کتاب کی معجزنماتاثیر کا کرشمہ گزشتہ چار عشروں سے وادی ٔخیال کی تابانیوں میں اضافہ کر رہا ہے ۔ ٹیر ی ایگلٹننے اپنے فکر پرور خیالات ،بصیرت افروز تصورات اور روشن خیالی کے آئینہ دار نظریات سے قارئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا ۔
سال 1966میں ٹیری الگلٹن کی شادی ایک نرس روز میری گالفن ( Rosemary Galpin) سے ہوئی ۔اس نے دوسری شادی ایک ادیبہ ویلا مرفی ( Willa Murphy)سے کی ۔
سال 1964میں ٹیری ایگلٹن کا یسوع کالج کیمبرج ( Jesus College, Cambridge.) میں انگلش کے فیلو کی حیثیت سے تقرر ہوا۔اس کے بعد ٹیر ی ایگلٹن کو ودہام کالج آکسفوررڈ (Wadham College, Oxford)میں ٹیوٹوریل فیلو اور انگریزی کے پروفیسر ( 1992-2001) کے منصب پر فائز کیا گیا ۔سال 2001میں ٹیری ایگلٹن نے مانچسٹر یو نیورسٹی میں کلچرل تھیوری کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔سا ل2008سے وہ لینکا سٹر یونیورسٹی (Lancaster University)میں خدمات پر مامور ہے ۔
جدید دور میں سائنسی ترقی نے معاشرتی زندگی کے معمولات کی کایا پلٹ دی اور زندگی مشینوں میں ڈھل گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو گہن لگ گیا اور عام آدمی کے لیے ان میں کوئی کشش اور جاذبیت باقی نہیں رہی ۔سائنسی ایجادات اور سماجی تغیرات کے نتیجے میں فکر و خیال کی دنیا میں نئے موسم اپنا رنگ جمانے لگے ۔ معاشرتی زندگی سے وابستہ وہ اقدار و روایات جن کی طویل عرصے سے ہر سُو دھوم مچی تھی اب ان کی اثر آفرینی خیال و خواب بنتی چلی گئی۔ معاشرتی زندگی میں ایسے حالات پید اہونے لگے ہیں کہ افراد کے دِل سے احساسِ زیاں نا پید ہو چکا ہے۔مسلسل شکستِ دِل کے باعث بے حسی اور بے بسی بڑھ گئی ہے۔ یہ صورت حال تہذیب و ثقافت کی ترقی کے لیے انتہائی بُر اشگون ہے ۔ اس قسم کے افکار و حوادث نے مقتدر حلقوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ۔ٹیر ی ایگلٹن نے ادبی دنیا میں رو نما ہونے والے نظریاتی تغیر و تبدل کا عمیق مطالعہ کیا۔اس موضوع پر اس نے لکھا ہے :
,,The literary work itself comes to be seen as mysterious organic unity,in contrast to the fragmented individualism of the capitalist marketplace: it is ,spontaneous,rather than rationally calculated,creative rather than mechanical. The word ,poetry, then ,no longer refers simply to a technical mode of writing : it has deep social,political and philosphical implications,and at the sound of it the ruling class might quite literally reach for its gun.Literature has become a whole alternative ideology,and the ,imagination,itself,as with Blake and Shelly ,becomes a political force.,,(1)
ایک وسیع النظر محقق کی حیثیت سے ٹیر ی ایگلٹن نے انیسویں صدی کے انگریزی ادب میں پائی جانے والی عصبیت او ر تنگ نظری پر گرفت کی ۔اس عہد کا المیہ یہ رہا کہ اس میں مذہبی اقدار و روایات کو پس ِ پشت ڈالتے ہوئے موقع پرست لوگ ہوا و ہوس میں حد سے تجاز کر گئے ۔ وکٹورین عہد (1837-1901) کے وسط میں قابل اعتماد رسوم و رواج اور اقدار و روایات پر جان کنی کا عالم تھا۔ اپنے ابتدائی تجزیات میں ٹیری ایگلٹن نے پسِ ساختیات کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مبہم اور ناقابلِ عمل قرار دیا مگر بعد میں اس نے اپنے ان خیالات سے رجوع کر لیا ۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے مارکسی فلسفی لوئس آلتھیوسر (Louis Althusser)اور اُس کے ہم وطن فرانسیسی فلسفی پیرس ماشیرے (Pierre Macherey)نے جرمن فلسفی اور مغربی فلسفہ میں مطلق تصوریت کے علم بردار ہیگل(Georg Wilhelm Friedrich Hegel)کے خیالات سے متصادم مارکسزم کی نہ صر ف حمایت کی بل کہ اول الذکر دونوں فرانسیسی فلسفیوں کے تصورات کو زادِ راہ بناتے ہوئے جہان ِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھا۔ سال 1976میں شائع ہونے والی مارکسزم پر مبنی ادبی تھیوری کے مطالعات پر مبنی اپنی انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت کی معرکہ آرا تصنیف ’’Criticism &Ideology‘‘میں اس نے مارکسزم کے بارے میں ہیگل کے خیالات سے اختلا ف کرنے والے مارکسی فلسفیوں لوئس آلتھیوسر اور پیرس ماشیرے کے مباحث کو بلند آ ہنگ عطا کیا ہے ۔ٹیر ی ایگلٹن نے لکھا ہے :
As for Marx,one accepted the emphases on history ,on change,on the invertibly close relationships between class and culture ,but the way this came through was,at another level, un acceptable. There was ,in this position,a polarisation an abstraction of economic life on one hand and culture on the other,which did not seem to me to correspond to the social experience of culture as others had lived it ,and as one was trying to live it oneself,,(2)
وکٹورین عہد کے ادبیات میں گہری دلچسپی سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والے ا س نقاد نے انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے تخلیقی ادب پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے ۔ ایک زیرک ،فعال ،مستعد اور جری نقاد کی حیثیت سے ٹیری ایگلٹن کو اپنے عہد کا ایسا معتبر اور موقر نقاد سمجھا جاتا ہے جس نے اپنی ثمر دار تنقید سے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ادب کی ادبی اور ثقافتی تھیوری پر اُس کی رائے کو مستند سمجھاجاتا ہے۔انگریز ی زبان ،انگریزی ادب اور بر طانیہ و آ ئر لینڈ کی تہذیب و ثقافت کا اس نے وسیع مطالعہ کیا ہے ۔مختلف یورپی ممالک کی زبانوں کے ادب کے تقابلی مطالعہ کے سلسلے میں ٹیری ایگلٹن کے تجزیات کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔ تنقید اور تجزیہ میں اس کا اپنا ایک منفرد اسلوب ہے ،اس نے تشریحی تنقید کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا ۔گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں جب علمی و ادبی حلقے پس ساختیاتی فکر میں اپنی دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے ،ٹیری ایگلٹن بھی اس طرف مائل ہوا۔اس نے فرانسیسی مارکسی فلسفی لوئس التھسر ( Louis Althusser)کی سائنسی روّیے پر مبنی توضیحات کا مطالعہ موخر کر دیا اور پس ساختیاتی فکر کے مسائل و مضمرات کی تفہیم کو اولیت دی ۔ٹیر ی ایگلٹن نے ہوا کا رُخ پہچانتے ہوئے بریخت(Brecht) اوربنجمن (Walter Benjamin) کے نظریات پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔ ایک جری نقاد کی حیثیت سے اُس نے یورپ میں دہریت کی نئی لہر کے خلاف کُھل کر لکھا ۔ اس موضوع پر ٹیری ایگلٹن کا دبنگ لہجہ اس کی پہچان بن گیا۔
تنقید اور تحقیق میں اس کے مراقبہ اور استغراق نے اسے صداقت کی امین ثقاہت سے متمتع کیا۔ امید کے موضوع پر اس نے جن خیال افروز اور فکر پرور مباحث کا آغاز کا ان کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری اس جری نقاد کی ذہانت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اس نے وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومنے والوں کے تخیل کی شادابی ،مفروضوں کی بے تابی اور موہوم رجائیت کی اضطرابی کیفیات سے دامن بچاتے ہوئے حقائق کی امین اُمیدکو سدا خضر ِ راہ سمجھا ۔ اُس کا خیال ہے کہ رجائیت کا تعلق احساس سے تو ہے مگر اعتبار سے اس کا تعلق کم کم دکھائی دیتا ہے ۔رجائیت فہم و فراست کی نسبت مزاج کی جولانیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے ۔ سال 2015 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’Hope without Optimism‘‘میں ٹیری ایگلٹن نے امید اور رجائیت کے بارے میں متعدد چشم کشا صداقتوں کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے ۔اس نے واضح کیا ہے کہ لفظ ’’اُمید ‘‘قارئین کے لیے یقیناً مانوس ہے مگر اکثر اوقات اس کا حقیقی مفہوم ابہام کی گرد میں اس طر ح اوجھل ہو جاتا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔یہاں کئی استفہامیے سامنے آتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ کہ کیا اُمید ایک جذبہ ہے ؟اُمید اور خواہش میں حد فاصل کیاہے ؟کیا موہوم امیدیں مستقبل کے منظر نامے کو دھندلا دیتی ہیں؟یقین کی جھلک دکھانے والی اُمید بھی جب عزم، حوصلے اور تازہ ولولے کی نوید نہ لا سکے تو دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے ؟ شاید اسی لیے غالبؔ نے کہا تھا :
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
فکر وخیال کے نئے در وا کرتے ہوئے ٹیر ی ایگلٹن یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ کیامفروضو ں پر مبنی توقعات اُس فکری بحران کو جنم دیتی ہیں جوالم ناک اُمید کی صورت میں وقوع پزیر ہو کر روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کرنے پر منتج ہو سکتا ہے ۔اس کے بعد مستقبل کے تمام خواب سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔اس نے الم ناک اُمید کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے مطابق یہ ایسی قدیم خُوبی کی مظہر ہے جو الم ناک حالات ،ہو ل ناک تباہیوں اور تباہ کن نقصانات کا سامناکرنے کے بعد بھی اپنے وجود کا اثبات کرتی ہے ۔ مصنف کے افکار کا سیلِ رواں ،تنقیدی افکار اورتخلیقی بہاؤ ہر قسم کے اوہام کو خس و خاشا ک کے مانند بہا لے جاتا ہے ۔ مصنف نے اپنی فصاحت اور گل افشانی گفتار سے اپنی نثر میں اُمید کے بارے میں وہ سماں باندھا ہے کہ سمے کے سم کے ثمر کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا اورقاری زندگی کے ان مسائل پر غور کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو اسے لمحۂ موجود میں درپیش ہیں۔ رسم و رواج ،سیلِ زماں کے تھپیڑوں ،تقدیر کے اٹل فیصلے اور تدبیر کی نا رسائی پر منیر نیازی کی یہ بات بر محل ہے :
میری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے
کالے کٹھن پہاڑ دُکھوں کے سر پر جھیل کے دیکھے
کہا جاتا ہے کہ اُمید اور اعتماد ہی کامیابی کا زینہ ہیں ۔کوئی شبِ تاریک ایسی نہیں جو طلوعِ صبحِ کے وقت آفتاب کی ضیا پاشیوں کو روک سکے ۔خورشید جہاں تاب کی تابانیوں سے سفاک ظلمتیں کا فور ہو جاتی ہیں اور ظلمتِ شب کے نگہبان اپنا سا منھ لے کررہ جاتے ہیں ۔ تباہیوں کا ملال نہ رکھتے ہوئے اوراپنے آنسو اُمید کے وسیع اور خوش رنگ دامنوں میں چھپاتے ہوئے رام ریاض نے کہا تھا :
نہ تُو جلا نہ کبھی تیرے گھر کو آ گ لگی
ہمیں خبر ہے کہ جِن مر حلوں سے ہم گزرے
گلشن ِ ادب میں خراماں خراماں ٹہلنے اور ادبی تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزیوں سے نہاں خانۂ دِل کومعطر کرنے پر مائل کرنے والی کتاب ’’How to Read Literature‘‘بلا شبہ افادیت سے لبریز ہے ۔ٹیری ایگلٹن کی یہ اہم تصنیف سال 2013میں شائع ہوئی ۔ تخلیقی فعالیت کی ادبی اقدار کو وہ بہت اہمیت دیتا ہے مصنف نے مطالعۂ ادب کے سلسلے میں جن وسیع تر امور کوکلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے ان میں آغاز،کردار،توضیحی بیانیہ ،تشریح اور اقدار شامل ہیں۔اس کتاب کا سب سے زیادہ پیچیدہ اور الجھا ہوا حصہ ’’اقدار‘‘سے متعلق ہے ۔مصنف نے ادب میں پائی جانے والے نرگسیت کے رجحانات پر گرفت کی ہے اور تخلیقی فعالیت پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ عوامل جو تخلیقات کے حسن و قبح کے تعین میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،مصنف نے نہایت تفصیل سے ان کا احوال بیان کیا ہے ۔آج کے مصروف دور کا المیہ یہ ہے کہ قارئین بالعموم ذوق سلیم سے محروم ہیں اور اس قسم کی کتابیں چَھپ رہی جن کا چُھپ جانا زیادہ مفید ہے ۔مطا لعۂ ادب میں ارتکاز توجہ کے لیے وہ آ ہنگ ،لہجے ،وزن،ساخت،صرف و نحو،اشارہ ،کنایہ اور ابہام کو نا گزیر قرار دیتا ہے ۔ ادب کا مطالعہ کیسے کیا جائے ایک اہم کتاب ہے اس میں ٹیری ایگلٹن نے مشاہیر ادب کی تخلیقی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ اس کتاب میں شیکسپئیر ( Shakespeare) اور جے کے رولنگ (J. K. Rowling)ہوں یا جین آ سٹن (Jane Austen) اور سیموئل بیکٹ ( Samuel Beckett.) جیسے انگریزی زبان کے تمام ممتاز ادیب ان تجزیات میں شامل ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے مختلف ادبی تحریکوں جن میں کلاسیکیت،رومانویت،جدیدیت اورما بعد جدیدیت شامل ہیں ،کے آغاز و ارتقا پر نہایت مفید تجزیے پیش کیے ہیں ۔
ٹیری ایگلٹن کو اس امر کا شدت سے احساس تھا کہ انگریزی تنقیدپر برطانوی نقادایف آر لیوس(F. R. Leavis) اور بر طانیہ کے علاقہ ویلز کے ریمنڈ ولیمز (Raymond Williams)کے تنقیدی معائر میں محصور ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ اقتضائے وقت کے مطابق انگریزی تنقید کو افکار تازہ کی مشعل فروزاں کرکے سفاک ظلمتوں کو کافور کر نے اور جہان تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔ٹیری ایگلٹن نے ایف آر لیوس (1895-1978)کی ناول پر تنقید پر اپنے تاثرات پیش کیے ۔خاص طور پر ایف آر لیوس نے جین آ سٹن،جارج ایلیٹ ،ہنری جیمز ،جوزف کونریڈ اور ڈی ایچ لارنس پر جو تنقیدی مضامیں لکھے ہیں ،ان پر اس کی مدلل رائے بہت اہم ہے ۔شاعری میں ایف آ رلیوس نے ایذرا پاؤنڈ اور ٹی ایس ایلیٹ کے اسلوب کا جس طرح تجزیہ کیا ہے وہ بھی ٹیری ایگلٹن کی توجہ کا مرکز رہا ۔ایف آر لیوس نے تیس کے قریب کتابیں لکھ کر انگریزی ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ۔
ریمنڈ ولیمز کے کام کو ٹیری ایگلٹن بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔ انگریزی زبان کے اس زیرک نقاد نے مار کسزم کا عمیق مطالعہ کیا اور اس کے بعد مارکسی تنقید کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور چالیس کے قریب کتب لکھ کر انگریزی ادب کو مالا مال کر دیا ۔ ٹیری ایگلٹن نے ریمنڈ ولیمز کی مارکسی تنقید پر گر فت کر تے ہوئے اس کی سطحیت کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ٹیری ایگلٹن نے ریمنڈ ولیمز کے جن تصورات کو ہدفِ تنقید بنایا ان میں سیاسی تدریجیت ، مملکت میں عوام کی حاکمیت کااصول،انسان شناسی اورانسانیت نوازی اورفلسفہ ٔ تصوریت ۔ ریمنڈ ولیمز (1921-1988) کی مقبول تصانیف درج ذیل ہیں :
1.Border Country (1960),2,Second Generation(1964),3.The Volunteers(1985),4. The Fight forManod(1979)
5.Loyalties(1985),6.People of the Black Mountains vol1(1989),7.People of the Black Mountains,vol2(1990)
مارکسزم کے بارے میں ٹیری ایگلٹن نے اپنے خیالات کا اظہار اپنی کتاب مارکس صحیح کیوں تھا (Why Marx Was Right)میں کیا ہے ۔یہ کتا ب جو یل یونیورسٹی (YaleUniversity)کے زیر اہتما م سال 2011میں شائع ہوئی مصنف کے منفرد اسلوب کی مظہر ہے ۔مصنف نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ مارکسی نقاد کو اپنے منصب کااحساس کرتے ہوئے اپنے فکری سفر کے دوران میں حائل ہونے والی فلسفیانہ مو شگافیوں سے اپنا دامن بچانا چاہیے ۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نظر رکھتے ہوئے سیاسی زندگی کے نشیب و فراز پر نظر رکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔مارکسی نقاد کو اس حقیقت کا احساس و ادراک ہونا چاہیے کہ معاشرتی زندگی سیاست کے مدار میں گھومتی ہے ۔مارکسی نقاد کی اہم ترین بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ سیاسی عوامل پر نظر رکھے اوران زمینی حقائق کی گرہ کشائی کرے جو آسمان کے بدلتے رنگوں کے بارے میں سب کچھ بتا دیتے ہیں۔مارکسی نقاد کو چاہیے کہ اپنے ذہن و ذکاوت کو استعمال کرتے ہوئے معاشرتی زندگی کے تیزی سے بدلتے ہوئے معائر کاسیاسی زندگی سے انسلاک کر کے حالات کی صحیح مرقع نگاری کرے۔
,,Marx himself never imagined that socialism could be achieved in improverished conditions.Such a project would require almost as bizarre a loop in time as investing the internet in the Middle Ages.Nor did any Marxist thinker until Stalin imagine that this was possible,including Lenin,Trotsky and rest of the Bolshevikh leadership.,,(3)
ٹیر ی اگلٹن نے اپنی اس کتاب میں کارل مارکس پر کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب دینے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔ مصنف کو اس بات کا قلق ہے کہ بعض اوقات عام لوگ کسی مصنف یا مفکر کو اپنی ذاتی پسند یا نا پسند کے باعث اس کا صحیح مقام دینے میں تامل کر تے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ دیارِ مغرب میں مارکس کے تصورات کی جو مرقع نگاری کی جاتی ہے وہ حد درجہ الم ناک اور لرزہ خیز ہے ۔فکر ی اعتبار سے یہ ایک سیاسی جبر اور شقاوت آ میز نا انصافی ہے کہ ہر معاملے میں اپنے معتوب مصنف کے افکار کو پاتال میں پھینک کرلذتِ ایذا حاصل کی جائے ۔ فکری لحا ظ سے یہ ایک ایسی لغزش ہے جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو اُٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کے مسلسل عمل اور گردشِ ایام کے جبر نے اختیار بشرپر پہرے بٹھا رکھے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر قسم کے مفروضوں کی جانچ پرکھ کی جائے اور حقائق کی جستجو کو شعار بنایا جائے ۔یہ کتاب اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے خاصی نزاعی ثابت ہوئی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے بارے میں پائے جانے والے اِ ختلاف ِ آرا میں شدت پیدا ہونے لگی۔اگرچہ ٹیر ی ایگلٹن نے اپنیمنفرد اسلوب،زور بیان اور دلائل سے مارکس کے تصورات کی حقیقی کیفیت کو اُجاگر کرنے میں بڑی محنت سے کام لیا ہے مگراس کتاب میں ٹیری ایگلٹن نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ سکے اور دلائل کی صورت بھی غیر اُمید افزا دکھائی دیتی ہے ۔ مارکسزم کی حقیقی تصویر پیش کرنے اور مارکسی معاشرے کی لفظی مرقع نگاری کرنے میں ٹیری ایگلٹن کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ٹیری ایگلٹن نے رد تشکیل میں گہری دلچسپی لی مگر اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار بھی کیا ۔ممکن ہے ادب کے وہ قارئین جو مکتبی تنقید کے اثرات کی دسترس سے محفوظ ہیں ،اس کتاب میں تجزیہ کے کسی نئے انداز کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائیں۔
رد تشکیل میں ٹیری ایگلٹن کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی اور اس نے اس کی ماہیت کی تفہیم پر توجہ مرکوز کر دی۔ سال 1981میں شائع ہونے والی والٹر بنجمن(Walter Benjamin) کے تصورات کے بارے میں ٹیری ایگلٹن کی کتاب’’ Walter Benjamin of Towards a Revolutionary Criticism,,‘‘میں مطالعہ ٔادب کے اہم مسائل کی توضیح کی گئی ہے ۔ادب کی جمالیات کے موضوع پر مصنف نے اس کتاب میں متعدد اہم سوالات کا جواب دیا ہے ۔شعر و ادب کی تاثیر اور جمالیات کے موضوع پر مصنف کے خیالات قاری کے لیے منفر د تجربہ ثابت ہوتے ہیں۔ٹیر ی ایگلٹن نے اس کتاب میں لکھا ہے :
,,The closest modern equivalent to this aesthetic position is probably to be found in Stalinism ,where feelings are likewise to hardness by art to new functions . For Richards ,then,the role of art is to defuse the shock-effects of stimuli by selective organization;for Benjamin ,it is to exploit such shocks to their full political potential,disrupting imaginary unities in process.(4)
آئی اے رچرڈز ( Ivor Armstrong Richards) کا شمار اپنے عہد کے محتاط نظریہ ساز نقادوں میں ہوتا ہے ۔جس دور کی ظلمت میں ہر قلب عقائد کی بالادستی سے رو گردانی، ادبی تحریکوں کے عدم توازن،سماجی و معاشرتی زندگی کی اکھاڑ پچھاڑ ،مروجہ اقدار و روایات کی شکستگی اورخستگی کے باعث پریشانی،اضطراب اور اضمحلال کا شکار تھا ،آئی اے رچرڈز (1893-1979)نے ہجوم غم میں دِل کو سنبھالنے پر اصرار کیا ۔ سائنس اور شاعری (Science and Poetry)،( جمالیات کی بنیادیں (The Foundations of Aesthetics ) اورادبی تنقید کے اصول ( The Principles of Literary Criticism) جیسی وقیع کتب کے مصنف آئی اے رچرڈز کے اسلوب کا تجزیہ کرتے ہوئے ٹیری ایگلٹن نے اپنے جرأ ت پسندانہ تنقیدی اسلوب کو پیشِ نظر رکھا ہے۔مصنف نے زندگی اور موت کے سر بستہ مسائل اور زیرِ خاک تہہ ظلمات اجسام کے بکھرنے کے موضوع پر نہایت دردمندی اور خلوص سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ یہ و ہ مرحلہ ہے جہاں آغازِ سفر کی جبلی فصاحت حشر تک کے دائمی سکوت میں ڈھل جاتی ہے اور ہمیشہ کی خاموشی نوشتۂ تقدیر بن جاتی ہے ۔یہ نا گہانی المیہ جو غیر معین کرب کا مظہر ہوتا ہے زندگی کو غم کے فسانے میں بدل دیتا ہے ۔جس وقت سب بلائیں اپنے انجا م کو پہنچ جاتی ہیں اس وقت مرگِ نا گہانی کے آلام انسان کو بے بسی کا پیکر بنا دیتے ہیں ۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں جب وہ دائمی مفارقت دے کر عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتے ہیں تودِل پر قیامت گزر جاتی ہے ۔ اٹھارہویں صدی میں اخلاقیات کو سماجی اقدار کی اساس پر استوار نہ کیا جا سکا ۔اس کا سبب یہ تھا کہ کلاسیکی روایات کا امین وہ باہمی تعلق جو زندگی کے تلخ حقائق اور اقدارِ عالیہ میں پایا جاتا تھا وہ عنقا ہوتا چلا گیا ۔اجل کے بے رحم ہاتھ گلشن ہستی سے اپنی مرضی کے مطابق کسی وقت بھی وہ پھول توڑ لیتے ہیں جن کی مہک سے قریہ ٔجاں معطر ہوتا ہے ۔ان جان لیوا صدموں کے بارے میں اُردو کے مقبول شاعر اسلم کولسری نے کہا تھا :
سوچ سوالی کر جاتے ہیں
صبحیں کالی کر جاتے ہیں
اسلم ؔ چھوڑ کے جانے والے
آنکھیں خالی کر جاتے ہیں
اپنی عملی تنقید میں ادب کی جمالیات ٹیری ایگلٹن کا پسندید ہ موضوع رہا ہے۔اس نے سال 1990میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’ The Ideology of the Aesthetic‘‘ میں جمالیات کے تصور پر نہایت مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔جمالیات ،عقائد اور سیاسیات جیسے اہم موضوعات پر مصنف کی گل افشانیٔ گفتار دیکھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔ٹیر ی ایگلٹن کے منفرد اسلوب میں کانٹ (Kant) ،شو پنہار ( Schopenhauer)،شیلر (Schiller)،کیریکے گارڈ (Kierkegaard)،مارکس ( Marx) ،نطشے ( Nietzsche)،فرائیڈ ( Freud) ،ہیڈیگر ( Heidegger)،لوکاس ( Lukacs)، ایڈورنو (Adorno)اور ہا برماس ( Habermas)کے افکار کی اصلی تحقیق اور مثالی تعارف اس کتاب کاافادی پہلو سامنے لاتا ہے ۔جب معاشرے میں رواقیت کے داعی اور جزیرۂ جہلا کے مکین چربہ ،سرقہ اور کفن دُزدی کو وتیرہ بنا لیں تو عامیانہ انداز کے مظہر نمود و نمائش اور ہمہ دانی کے دعوے جینادوبھر کر دیتے ہیں۔ادب کی جمالیات کا مطالعہ اس لیے بھی اہم ہے کہ جمالیاتی اقدارادب اورفنون لطیفہ کو خو د مختار ،سیاق و سباق سے بے نیاز ایک مفید فعالیت کی حیثیت سے متعارف کرانے کا موثر وسیلہ ہیں۔مابعد جدیدیت کے موضوع پرٹیری ایگلٹن کی تصنیف ’’ما بعد جدید یت کے سراب‘‘(Illusions of Postmodernism)سال 1996میں شائع ہوئی ۔اس کتاب میں اس نے ما بعد جدیدیت کے آغاز و ارتقا کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے ۔ما بعد جدیدیت میں جذبات کی متصادم کیفیات اور تضادات پر مصنف نے اپنا موقف پیش کیا ہے ۔
ایک شگفتہ مزاج ادیب کی حیثیت سے ٹیری ایگلٹن نے اپنی تحریروں سے قارئینِ ادب کے دلوں کو مسخر کرنے کی سعی کی ہے۔بائیں بازو کے نظریات میں لچسپی رکھنے والے اس دانش ور نے قومیت ،نوآبادیاتی دور کے ادب ،پس نو آبادیاتی دور کے ادب، مارکسزم ،ساختیات ،پس ساختیات ،جدید یت ،مابعد جدیدیت اور رد تشکیل جیسے اہم موضوعات پر لکھ کر عصری آ گہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ سال 2001میں شائع ہونے والی اپنی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’’Gatekeeper‘‘ میں اس نے اپنے بچپن سے لے کر لمحۂ موجود تک کے واقعات کو زیبِ قرطاس کیا ہے ۔ اپنے خاندان کی غربت اور افلاس کے باعث دس سال کی عمر میں اسے ایک خانقاہ میں کچھ عرصہ تک گیٹ کیپر کی نوکری کرنا پڑی ۔ دس ابواب پر مشتمل اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت کئی مقامات ایسے بھی آتے ہیں جہاں آپس میں گتھے ہوئے صبر آزما واقعات کو چشمِ تصور سے دیکھ کر اور افلاس کی پُر درد کراہیں سُن کر قاری کی آ نکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیِں ۔ا س نے اس کثیر التصانیف ادیب نے اپنی انتھک کاوشوں سے چالیس تصانیف قارئین کی نذر کیں۔ کرشماتی شخصیت کے مالک اس فاضل نے انگریزی ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا ہے اس کے بارِ احسان سے اہلِ علم و دانش کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔

مآخذ
1.Terry Eagleton:Literary Theory :An Introduction,Black Well Publishing,2008,Page,17.
2.Terry Eagleton:Criticism & Ideology,Verso,London,1976,Page,22.
3.Terry Eagleton:Why Marx Was Right,London,2011,Page ,16.
4.Terry Eagleton:Walter Benjamin of Towards a Revolutionary Criticism,NLB,London,1981,Page,37.

Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 232230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.