آغا مسعود
بدین صوبہ سندھ کا نہ صرف ایک اہم تاریخی شہرہے بلکہ ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر بھی
ہے۔ ڈسٹرکٹ بدین پانچ تعلقوں پر مشتمل ہے جن میں بدین ، ماتلی، ٹنڈوباگو،
تلہار اور گولاڑچی شامل ہیں اور پھر 14یونین کونسل ہیں۔ اس شہر کی سرحدیں
شمال سے حیدرآباد اور میرپور خاص سے ملتی ہیں جبکہ مشرق سے تھرپارکر سے
ملتی ہیں اور مغرب سے ڈسٹرکٹ ٹھٹھہ و حیدرآباد سے ملتی ہیں اور جنوب میں
بحر عرب ہے جو انڈیا اور پاکستان کی بین الاقوامی سرحد بھی ہے۔ بدین دریائے
سندھ کے مشرق میں واقع ہے ۔بہت ذرخیز علاقہ ہے یہاں کی قابلِ ذکر کاشت چاول،
شوگرکین (گنا) ، ٹماٹر، گندم اور سورج مکھی ہیں تاہم بدین شوگر کی پیداوار
کے حوالے سے مشہور ہے اسی لیے بدین کا دوسرا نام ـ شوگراسٹیٹ دیا گیا ہے
کیونکہ اس ڈسرکٹ میں چھ شوگر ملیں ہیں جن میں مرزا شوگر مل، انصاری شوگر مل،
باوانی شوگر مل، پنگریو شوگر مل، دیوان کوئسکی شوگر مل اور آرمی ویلفیر
شوگر مل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تیس کے قریب رائس ہسکنگ میلز بھی ہیں جن میں
چاول کا چھلکا اتارا جاتا ہے۔ زراعت پر مشتمل یہ ڈسڑکٹ نہ صرف روڈ کے ذریعے
قریبی گاؤں سے منسلک ہے بلکہ اس کو ریلوے کے ذریعے حیدرآباد شہرسے بھی
منسلک کیا گیا ہے۔ رن آف کچھ کے مقام پر چند آئل فیلڈ ز بھی ہیں ان آئل
فیلڈز میں خام تیل جو نکلتا ہے وہ پاکستان کی آئل کی کل پیداوار کا پچاس
فیصد ہے لیکن پھر بھی یہ سندھ کا پسماندہ ترین علاقہ ہے ، کہا جاتا ہے کہ
یہاں دنیا میں نمک کا سب سے بڑا صحرا ہے جو انڈیا کے رن آف کچھ سے لے کر
ڈسٹرکٹ بدین تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کے مشہور قبائل میں ہالے پوتا اور
ہنگوراہیں۔دونوں برادری راجپوت نسل کا دعوی کرتے ہیں اور سندھی کے کافی
الفاظ کے ساتھ یہ لوگ کچھی بولی بولتے ہیں۔یہاں کے مقامی لوگ کڑھائی کے کام
کے علاوہ فارمنگ کے ذریعے اپنا گذارہ کرتے ہیں ۔بدین کے اہم مقامات میں
مختلف مزار ات ہیں ان میں نامور سندھی صوفی بزرگ سید سمن شاہ سرکار کا
مزارہے جہاں سیکڑوں عقیدت مند روزانہ آتے ہیں۔یہاں کا موسم معتدل ہوتا ہے
سمندر کی ہوا مارچ سے اکتوبر تک رہتی ہے ، گرمیوں میں نمی بہت زیادہ ہوتی
ہے اور درجہ حرارت 39 ڈگری تک جاتا ہے۔جبکہ طوفان، بارشیں، سیلاب وغیرہ
یہاں اکثر آتے رہتے ہیں۔بدین کی مشہور اور طاقتور سیاسی شخصیات میں ڈاکٹر
ذوالفقار مرزا صاحب، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ اور ڈاکٹر مولا بخش جعفری
ہیں۔یہ مختصر سا تعارف ہے موجودہ بدین کا۔
اب آئیے ماضی کے بدین میں چلتے ہیں۔بدین کو جہاں تیل گیس اور کوئلے جیسے
اہم معدنی وسائل کی وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے وہیں تاریخی لحاظ سے بھی
سرزمین نہ جانے کتنے زمانے محفوظ کیے ہوئے ہے۔ ضلع بھر میں جابجا پائے جانے
والے آثارِ قدیمہ اگر چہ زمانے کی شکست وریخت اور متعلقہ محکموں کی نظر
اندازی کے سبب اپنی ہیئت اور وجود کھوتے جارہے ہیں مگر تاریخ کی کتابوں میں
موجود ان آثاروں سے متعلق معلومات آثارِ قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں
کو حیران کر دیتی ہے۔
اگرچہ چند مورخین کی جانب سے ان آثاروں سے متعلق کی جانے والی تحقیق نہ
ہونے کے برابر ہے تاہم اس معمولی تحقیق سے بھی بدین کے قدیم ہونے کا اندازہ
یہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔’’کتاب بدین ضلع کا مطالعہ‘‘ میں شامل عاصی
عبدالواحد ہکڑوکے تحریر کردہ مضمون میں مصنف نے لکھا ہے کہ بدین شہر کی
تاریخ اتنی قدیم ہے جتنی سندھ کی تاریخ ۔یہ علاقہ قدیم وادیِ سندھ کی تہذیب
کا مرکز تھا۔ یعنی سندھ کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے اس سے آپ اندازہ
لگا لیں بدین کی تاریخ کا۔ مصنف کے مطابق بدین ماضی میں اپنے عروج پر تھا
اور یہاں وہ تمام وسائل موجود تھے جو کسی بھی بڑے شہر کے لیے ضروری ہوتے
ہیں۔
بدین کی تاریخ کے حوالے سے محققین لکھتے ہیں کہ مرزا عیسیٰ کے دوبیٹوں مرزا
صالح اور مرزا باقی کے درمیان 970ء میں جو جنگ لڑی گئی تھی ۔ وہ بھی
سرزمینِ بدین پہ لڑی گئی تھی۔ جنگ میں مرزا باقی بیگ کو شکست ہوئی ۔ بکھر
والے سلطان محمود سے مدد نہ پا کر جب مرزا باقی واپس پہنچا تو بدین کے
رہائشی سورما مرید جت نے فاتح مرزا صالح کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
مرزا باقی بیگ نے آسانی سے بدین پر حکمرانی کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا
جانی بیگ حکمران بنا۔ سندھ کے حاکم غلام شاہ کلہوڑو نے جب کچھ پر چڑھائی کی
تو وہ جاتے ہوئے بدین میں خیمہ زن ہوا ۔ بدین ـکو’’ لاڑ کا دل‘‘ بھی کہا
جاتا ہے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ سندھ ایک تجارتی علاقہ تھا، خصوصاً لاڑ کے
علاقے میں سمندرہونے کے سبب یہ بندرگاہوں کادیس رہا ہوگا۔ان بندرگاہوں سے
سوتی کپڑا اور ریشمی لنگیوں اور چمڑے کا سامان دیگر علاقوں کی طرف روانہ
کیا جاتا تھا۔ محققین نے لاڑ کو ابتداء سے تہذیب وتمدن کا مسکن قرار دیا
ہے۔ تاریخ کے صفحات میں لاڑ خطے کاذکر 516 قبلِ مسیح میں ملتا ہے۔ جب ایران
کے حاکم دارااعظم(اول) نے سندھ کے آخری سروں تک چڑھائی کی۔لاڑ کو یاد رکھنے
کے لیے یونیورسٹی آف سندھ نے اپنا ایک کیمپس قائم کیا ہے جس کو لاڑ کیمپس
کہتے ہیں تاکہ لاڑ کے رہنے والے طلباء کو اپنے علاقے میں تعلیم کی سہولت
میسر آسکے۔
مورخین کے مطابق بدین 1750ء میں قائم ہوا جب سکندراعظم نے اس خطے پر قیام
کے لیے اپنی فوجیں جمانے کی کوشش کی تو اس وقت بھی یہاں کے جت اور ملاح قوم
کے بہادروں نے سکندراعظم کی یہ آرزو پوری نہ ہونے دی۔محققین کا کہنا ہے کہ
1870ء میں بدین کو مدد خان پٹھان نے جلا کر راکھ بنادیا تھا۔1958ء میں بدین
سیرانی روڈ پر کھدائی کے دوران آثارکا جائزہ لیا گیا تو ان کھنڈرات کی
دیواریں سیاہ راکھ پائی گئیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہی وہ شہر تھا جسے
مدد خان نے تباہ کیا تھا۔
ضلع میں تاریخی حوالے سے واقع علاقوں کے آثار کے علاوہ سندھ کے مشہور بہادر
حکمرانوں کا تعلق بھی اسی سرزمین سے تھا ، فاضل راہوتحصیل میں ماڑی وسایو
اور پٹیل سے ملحقہ مسلمان آبادی ، مسجد کے آثار بھی اپنی تاریخی داستان خود
بیان کرتے ہیں۔آسیلی کی مسجد سے ملنے والے سکوں پر محمد شاہ رنگیلا کا دور
حکومت کندہ ہے، جب کہ ماڑی وسایو سے ملنے والے پتھروں پر مورتیوں کی تصاویر
ہنرمندی کی عمدہ مثال ہیں۔ تاریخی حوالے کے علاوہ بدین کی سر زمین پر
اولیائے کرام کا بھی ایک طویل سلسلہ پایا جاتا ہے۔ماضی قدیم میں یہاں
دریائے سندھ کی مختلف شاخیں بہتی تھیں، جس کے سبب زرعی وتجارتی حوالے سے
بھی اس علاقے کو خصوصی اہمیت حاصل تھی،پٹیل دریا اور پران ندی کا ذکر تو
شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ بدین ایک مسلمہ تاریخی اہمیت کا حامل
شہر ہے۔ اس سرزمین پر وقت کے مشہورحکمرانوں نے حکمرانی کی ۔ان قدیم تاریخی
حوالوں اور آثارِ قدیمہ پر مزید تحقیق وجستجو کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی
عظمتوں کو زندہ کیا جا سکے، کہتے ہیں کہ موئن جو دڑوکی صرف دس فیصد تحقیق
ہوئی ہے جبکہ نوے فیصد تحقیق ہونا باقی ہے ۔اسی طرح بدین کی سرزمین بھی
تحقیق کی پیاسی ہے کہ کوئی ہے جو ماضی کی ان عظیم داستانوں کو آشکار کرے
اور آثارِ قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کی پیاس بجھائے ۔ |