دو تاریخ کودو نمبر طریقے سے آنے والے دو نمبر لوگوں نے
ملک کے ساتھ دو نمبری کرتے کرتے دینِ حق کے ساتھ بھی دو نمبری کر ڈالی اور
ختمِ نبوتؐ پر پابند کرنے والی شق (جو ہمارے ایمان کا جزو لا ینفک ہے ) کو
ہی قانون سے نکال باہر کیا۔ لیکن دین کے ساتھ دغا کرنے والے کبھی بچ نہ
پائے اورہمیشہ عبرت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔ابھی ماہ ِ رزمِ حق و باطل
کے حوالے سے اپنے ایک کالم "نکل کر خانقاہوں سے، ادا کر رسمِ شبیریؓ" میں
یہ لکھ کر ہٹا ہی تھا کہ درسِ کربلا یہ ہی تو ہے کہ کسی نااہل کی تقلید
نہیں کی جاتی بلکہ اس سے معرکہ چھیڑ لیا جاتا ہے اور پھر وہ غرقِ "ذھق
الباطل" ہو جاتا ہے،تو یہ خبر سننے کو ملی ۔میں پوچھتا ہوں کہ ناموسِ رسالتؐ
کی حرمت کے تحفظ کا آئین اگر قانون کی کتاب سے نکال دیا تو دینی،دنیاویِ ،اخلاقی
اور روحانی طور پر پیچھے بچتا کیا ہے؟ یہ سنتے ہی پہلے پہل تو دل یوں دہل
کے رہ گیا جیسے کسی انتہائی بلندی سے کسی نے اچانک دھکا دے دیا ہو اوراب بس
تیزی سے فرش سے ٹکرانا باقی رہ گیا ہو۔پھر یوں لگا جیسے کسی نے تپتی دھوپ
میں سر سے سایہ چھین لیا ہو۔پھر بے بسی،کرب و اندوہ، افسردگی اور ملال و
کلال کی ایسی لہر دل میں اٹھی کہ بس جگر چھلنی ہو گیااورکلیجہ منہ کو آنے
لگا۔لیکن پھر یکا یک ایک ایسا روشن اور حوصلہ مند خیال دل کی کال کوٹھری
میں ابھرا کہ جس کی چمک سے کیفیتِ صدمات لذّتِ اطمینان میں بدل گئی۔ دماغ
ساڑھے چودہ سو سال پیچھے سے ایسی دلیل لے کر آیا کہ جس نے دل کے سب داغ دھو
دیے،قویٰ میں طاقت و رعنائی پھرسے لوٹ آئی،منتشر سانسیں بحال ہو گئیں۔ابرہہ
نے ہاتھیوں کے ایک بڑے لشکر کے ہمراہ مکہ معظمہ پر حملہ کر دیا اور حضور
سرور عالمؐ کے دادا جان (جو قریش کے سردار بھی تھے اور بیت اﷲ کے متولّی
بھی)کے اونٹوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ساتھ ہی اس بد بخت نے کعبتہ اﷲ پر
بھی حملہ کر دیا۔حضرت عبدالمطلب کے علم میں جب بات آئی تو آپ ابرہہ کے پاس
گئے اور اس سے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔وہ حیران ہو کر کہنے لگا
کہ آپ کو اپنے اونٹوں کی پڑی ہے اور کعبہ کی کوئی فکر نہیں؟آپ گویا ہوئے
مجھے بس اپنے اونٹوں کی فکر ہے،وہ مجھے لوٹا دو،باقی کعبہ جس کا گھر ہے وہ
خود اسے بچا لے گا۔جب یہ واقعہ یاد آیا تو ایمان اور مضبوط ہو گیا کہ آقا ؐ
کی حرمت و تقدیس کو "ورفعنا لک ذکرک" کی شان عطا کرنے والا اور آپؐ کے
دشمنوں کو" انا شانئک ھوالابتر" کی وعید سنانے والا خود بچا لے گا۔اب ہو گا
کیا؟آوازیں دو قسم کی بلند ہوں گی اور ہو رہی ہیں۔دو طرفہ دفاع کی گونج
سنائی دے گی۔ایک آوازان دنیا پرستوں کے تحفظ اور دفاع میں بلند ہو گی تو
دوسری اس ہستی مقدسؐ و معطرؐ و مطہرؐ ومنورؐ کے دفاع میں اٹھے گی جو وجہ
تخلیق کل جہاں ہیں۔ اور ہم نے تو بس دو میں سے کسی ایک قبیل کا انتخاب کرنا
ہے اور کل بروز قیامت اسی میں سے ہمارا نام پکارا جائے گا۔ لیکن بات یہ ہے
کہ راہزنوں سے کیسا شکوہ؟سوال تو اُن پہریداروں کی رہبری کا ہے۔کہاں ہیں وہ
جو خود کو دین کے ٹھیکے دار سمجھتے ہیں۔صد ہا اقسام کے صدقات و خیرات اور
کھالوں کے حق دار سمجھتے ہیں۔خود کو دین کا سب سے بڑا علمبردار سمجھتے
ہیں،جن کی اجازت کے بغیر مسجدوں میں اذانیں نہیں ہوتیں۔جن کے انتظار میں
جماعت تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔ دین میں جن کی اجارہ داریاں نوابوں
اوروڈیروں کے طرز عمل سے ذرا بھر بھی مختلف نہیں ہیں۔ لیکن اس میں بحیثیت
غلام مصطفی ؐ ہم سب کی برابر ذمہ داری ہے کہ حرمت رسولؐ کے تحفظ کے لئے
آواز بلند کی جائے ۔اتنی بڑے ظلم کے بعد بھی ذمہ داران کے چہروں پر ملال تک
نہیں ہے،شاید یہی مقام عبرت ہوتا ہے جب انسان"ولا کن لا تشعرون" کی کھائی
میں اوندھے منہ گر گیا ہوتا ہے۔
ایک اور بات بڑی قابل توجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ آنے کے بعد
نااہل ہوئے شخص کو پارٹی کا صدر بنائے جانے کے حوالے سے ترمیمی بل منظور
کرتے ہوئے،بالکل اس کے ساتھ ہی ختم نبوتؐ بل میں ترمیم کی مماثلت بڑی واضح
ہے۔وہ لوگ قوم کے مزاج سے بخوبی واقف ہیں۔ پوری قوم کی توجہ نااہلی کیس سے
ہٹانے کے لئے ایک ایسا مسئلہ پیدا کرنے کی ضرورت تھی جو نوعیت کے اعتبار سے
سنگین بھی ہو اور سب سے بڑھ کر اہم بھی ہو۔تا کہ ایسا موضوع بحث بنے کہ قوم
کی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز ہو جائے اور جس کی آڑ میں اصل ہدف تک پہنچنا
ان کے لئے آسان ہو جائے۔قوم جس دن خود کو احمق بنائے جانے کو اپنی تذلیل
سمجھے گی جیسا کہ وہ عام حالات میں آپس میں سمجھتی بھی ہے،اس دن اشرافیہ کے
اقتدار کا خورشید ہمیشہ کے لئے غروب ہو جائے گا۔یہ حکومتیں نہ اگلوں کی رہی
ہیں نہ اِن کو ہمیشہ کے لئے ملی ہے۔"نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم" والے اس
طبقے کامقدر رسوائی و پسماندگی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ہسپتالوں میں ایک بستر
پر چار چار مریض،عوام چپ۔تعلیم انتہائی مہنگی،عوام چپ۔ہر چیز ملاوٹ
ذدہ،عوام چپ۔مہنگائی کے بوجھ نے کمر توڑ دی،عوام چپ۔عزت آبرو کا تحفظ کوئی
نہیں،عوام چپ۔عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے ارباب اختیار لوگ عیش و فراوانیوں
کے مزے لُوٹیں،عوام چپ۔ اس چپ نے ان حاکموں کو یقین دلا دیا ہے کہ ان کے
ساتھ جیسا مرضی سلوک روا رکھو،حق کی منادی کرنے کی حس ان کے حواس سے نکال
دی گئی ہے۔کلمہ حق بلند کرنے والی رگوں میں اب ان کے اپنے مفادات کا خون
بہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سیاسی وابستگیاں کہاں تک کام آئیں گی؟انتخابات کے
فورا بعد جو پہچاننے سے انکار کر دیں وہ کہاں تک دست گیری کر سکتے ہیں۔اور
ان کے بدلے جس ذاتِ اقدس کی نسبت کی پرواہ نہیں کررہے وہ دونوں جہانوں کے
لئے وجہ نجات ہیں۔اور آج ہم سے وہ متاع حیات بھی لوٹ لینے کی سازش کر دی
گئی ہے۔بس ان کااپنا اقتدار سلامت رہے۔ہم بے حسوں کو یہ احساس تک نہیں کہ
ہم سے چھینا کیا گیا ہے۔وہ امید چھینی گئی ہے جس امید پہ ڈھیروں گناہوں کے
باوجود بخشش کی آس لگی ہوئی ہے۔ جنؐ کی نسبت کی ٹھنڈی ہوا حشر کی گرمی کو
سکون میں بدل دے گی۔راحت و آسایش کا سامان مہیا کرے گی جب نفسا نفسی کا
عالم ہو گا۔لیکن چھوڑیے۔حرمتوں کے مالک اور حرمتیں عطا کرنے والے حرمت
والوں کی حرمتیں بچا بھی لیں گے۔ہمیں تو بس اپنی فکر کرنی ہے کہ ہمارا نام
کس لشکر کی طرف سے پکارا جائے گا۔بس یہ فکر کریں کہ محشرمیں جب سوال ہو گا
۔۔بقول راقم
قصرِحرمت میں سے یہ اینٹ نکالی کس نے؟
اتنی جرات تیرے ہاتھوں میں تھی ڈالی کس نے؟ |