8 اکتوبر2005ء کے زلزلے کو12سال ہو گئے۔اب برسوں مین
زلزلہ متاثرہ علاقہ میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ معاشی سرگرمیاں بھی عروج پر
پہنچیں۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا۔تعلیم و تربیت، تعمیر و ترقی کی
جانب پیش رفت ہوئی۔ اگر کوئی چیز نہ بدلی بلکہ بدتر ہوئی ، وہ انسانی رویئے
اور رحجانات ہیں۔لوگ جیسے کہ لا تعلق اور سماجی ذمہ داریوں سے دور ہو گئے
ہیں۔ پہلے جیسی ہمدردی اور خلوص شاید نہیں رہا۔پختہ عمارتیں، پلازے، سڑکیں
اگر ترقی کی نشانی ہیں تو اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ مگر چہروں کی چمک دمک
، وہ رونقیں نظر نہیں آتیں۔ ابھی تک متاثرین زلزلہ کی آبادکاری اور تعمیر
نوکا کا مکمل نہیں ہو سکا ہے۔سرینگر روڈ پر جہلم ویلی میں لنگرپورہ اور
ٹھوٹھہ کی کالونیاں ابھی تک آباد نہ ہو سکیں بلکہ پلاٹوں کی تقسیم کے لئے
ابتدائی فیس کے طور پر کروڑوں روپے جمع کئے گئے مگر ابھی تک ان کی قرعہ
اندازی تک نہ کی جا سکی۔مہاجرین 89کی آباد کاری کے دعوے بھی دعوے ہی رہے۔
آزاد کشمیر کے بڑے شہروں مظفر آباد،باغ اور راوالاکوٹ میں ابھی تک ماسڑپلان
کو بھی حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔خوف خدا اور ناسانی اقدار بھی اسی تناظر
میں ہیں۔کامسر سمیت جن علاقوں میں زمینیں لینڈ سلائیڈنگ میں بہہ گئیں ان
متا ژرین کو ابھی تک متبادل اراضی نہیں دی گئی۔ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں
کشمیریوں کا قتل عام جاری ہے، آج خواتین کی چوٹیاں کاٹی جا رہی ہیں۔ یہ
بھارتی فورسز کا نیا حربہ ہے تا کہ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف
آزاد کشمیر میں اقتدار کی رسہ کشی اور مراعات کی پہلے جیسی جنگ جاری ہے۔اس
زلزلہ میں اگر چہ حکومت نے تقریبا 80ہزار افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق
کی تا ہم ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔جس کا ثبوت پانچ سال بعد مظفر
آباد کے نزدیک برآمد ہونے والی گاڑی سے متعدد لاشوں کے ڈھانچوں کا ملنا ہے۔
زلزلے میں ہزاروں کی تعداد میں عمارتیں تباہ ہو گئیں جبکہ ہزاروں سکول و
کالجز زمین بوس ہوئے ۔مظفرآباد یونیورسٹی میں اس وقت پروفیسر زلزلہ پر
لیکچردے رہے تھے جب مقامی وقت کے مطابق صبح 8بجکر 50منٹ پر زمین لرز اٹھی۔
زلزلے کا مرکز مظفر آباد سے 9کلو میٹر کی دوری پر واقع وادی نیلم کی شاہراہ
کا علاقہ تھا۔ ریکٹر سکیل پر اس کی شدت 7.6تھی اور اس کے جھٹکے کابل،دہلی
اور اتر پردیش تک محسوس کئے گئے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کی عمارتوں میں
دراڑیں پڑ گئیں۔ افغانستان میں نصف درجن لوگ جاں بحق اورسینکڑوں زخمی ہوئے۔
آزاد کشمیر کے مظفر آباد، نیلم، باغ اور راولاکوٹ اضلاع جبکہ صوبہ سرحد کے
بالاکوٹ ، مانسہرہ، بٹگرام ، الائی کے علاقے زلزلہ سے شدید طور پر متاثر
ہوئے ان علاقوں میں سکولوں کی عمارتیں گرنے سے تقریباً 20ہزار طالب علم جاں
بحق ہوئے جب کہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ زلزلہ کے فوری بعد پاک
افواج نے اپنے اہلکاروں کی شہادتوں کے باوجود ریسکیو آپریشنز میں بڑھ چڑھ
کر حصہ لیا اورمظفرآباد راولپنڈی سمیت اہم شاہراؤ ں کو کھول دیا زلزلہ میں
پاکستانی عوام نے انتہائی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا۔آزاد کشمیر اور
سرحد کے متاثرین کی امداد کے لئے پاکستان کے بچوں اور بزرگوں تک نے جانی و
مالی امداد کی۔ دنیا بھر سے مسلم اور غیر مسلم رضاکاروں نے بھی بے مثال کام
کیا ۔ یہاں تک کہ عیسائی خواتین نے متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر انتہائی کٹھن
کام کئے اور لیٹرینز تک بھی صاف کیں ۔ زلزلہ کے دوران ریسکیو اور ریلیف
آپریشن کے دوران بے ضمیر اور لالچی لوگوں نے بھی اپنے مذموم کرتب دکھائے۔
انہوں نے زلزلہ متاثرین کے لئے آنے والی امداد کو جگہ جگہ لوٹااور امدادی
کارکنوں کو ہراساں کیا۔ یہ مخصوص لوگوں کا گروہ تھا جس نے لوٹ مار کی۔
امدادی قافلوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے متاثرہ دکانوں اور گھروں کو بھی لوٹا۔
ان لوگوں نے اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کی عمارتوں میں سامان کے ذخائر جمع
کر لئے جبکہ متاثرین بے کسی کے عالم میں مصائب میں مبتلا رہے۔ ان حریص
عناصر نے اپنی حرکتوں سے پوری قوم کو شرمسار کر دیا۔ ریسکیو اور ریلیف کے
بعد حکومتی امدادی پروگرام شروع ہوئے۔ جگہ جگہ سے شکایات موصول ہونے لگیں
کہ پٹواری اور محکمہ مال کے اہلکار متاثرین سے معاوضوں کے لئے بڑے پیمانے
پر بھاری رشوتیں وصول کر رہے ہیں ۔ اس پر لوگوں کی ہا ہا کا ر مچ گئی۔ کئی
مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے باوجود بے ضمیر
لوگوں نے ایک مافیا کی طرح اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ ظاہر ہے ہر نیکی کا
راستہ روکنے کے لئے برائی تاک مین رہتی ہے جیسے پھول کی خوشبو روکنے کے لئے
کانٹے موجود رہتے ہیں مگر وہ خوشبو کی مہک کو روک نہیں سکتے۔
ریلیف کے کاموں میں مصروف این جی اوز نے اپنے انتظامی معاملات پر متاثرین
کے فنڈز کی بڑی رقم خرچ کر ڈالی۔این جی اوز نے امداد کا بڑا حصہ دفاتر ،
ٹرانسپورٹ، مواصلات، رہائش اور اس طرح کے امور پر خرچ کیا ۔ یہ بات سچ ثابت
ہو گئی کہ زلزلہ متاثرین کے لئے آنے والی امداد میں دھاندلی بھی کی گئی اور
اسے فضول کاموں پر بھی خرچ کیا گیا۔ متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے
ادارے ایرا ERRAاور SERRAبھی حکمت عملی کے فقدان کا شکار رہے۔ اس بات کا
اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ایرا میں تقریبا ً50ڈائریکٹرز اور ڈپٹی
ڈایریکٹرز تعینات تھے۔ اس ادارے میں افسران کی بھر مار موجودہ حکومت کے لئے
سوالیہ نشان بن گئی ۔یہ عوامی نہیں بلکہ افسروں کا ادارہ بن گیا ہے ایسا
لگتا تھا کہ اس میں افسران کی بحالی اور آبادکاری پر خصوصی توجہ دی گئی ۔
بقول سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار سکندر حیات خان ایرے غیرے نتھو خیرے
متاثرین زلزلہ کو لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔جو لوگ دوسرے اداروں سے ڈیپوٹیشن
پر آئے، ان کا مسلہ نہیں۔ اعلٰ افسران نے اپنے عزیز و اقارب کو نوازنے کے
لئے کھل کر کام کیا۔ سرکاری گاڑیاں اپنی بیگمات اور بچوں کے لئے وقف کر
دیں۔جس طرح کے سرکاری اچاچوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔
زلزلہ زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور متاثرین کی آبادکاری کے ادارے ایرا کے
خاتمیکا بھی اعلان کیا جس سے صرف آزاد کشمیر میں1824منصوبوں ٹھپ ہونے کا
خدشہ طاہر کیا گیا۔یہ سب زیر تکمیل تھے۔ 55ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ
پروگرام کو منتقل کر دیئے گئے۔ یہ آزاد کشمیر کے حقوق پر ظالمانہ ڈاکہ تھا۔
اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ فندز خرچ نہ کرنے کے باعث منتقل کئے۔ سیرا نے
جو رقم پانچ سال میں خرچ کرنا تھی اسے دو سال میں کیسے خرچ کیا جاتا۔ وفاق
کی یہ دلیل بلا جواز تھی۔موجودہ حکومت آئی ۔ چوری کی اس رقم کی واپسی اور
فندز کے اجراء کی امید پید اہوگئی۔ لیکن کسی نے یہ تجویز دے دی کہ ادارے کو
ہی ختم کر دیں۔ نہ رہے گابانس ، نہ بجے گی بانسری۔ہاتھی نکل چکا ، دم رہ
گئی۔ اور کام ختم۔ آزاد کشمیر میں سیرا اور خیبر پختونخوا میں پیرا کے
زریعے ایرا نے اربوں روپے زلزہ متاثرین کو ادا کئے ہیں۔ ڈونرز نے حکومت کو
877ملین ڈالرز دیئے۔ یہ تفصیل قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ۔ لیکن اب بھی
لوگ ادائیگیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔لوگ وفاقی محتسب سے رجوع کرتے ہیں۔ مگر
ایرا کے شاطر اور عوام دشمن جواز دیتے ہیں کہ زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے
متاثرین کو ان کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ کئی کیس صدر مملکت کے پاس بھی پہنچے
مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔
2005ء کے ہزاروں زلزلہ متاثرین 12سال بعد بھی امداد سے محروم ہیں۔ ان کے
ساتھ نا انصافی ہوئی۔ ان متاثرین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جنھیں معاوضوں
کی تیسری قسط نہیں دی گئی۔ وہ ڈاکخانوں ، بینکوں کے چکر لگا لگا کر تھک
گئے۔ لیکن وزیراعظم سکریٹریٹ سے فنڈز کے اجراء کے بجائے ایک ایسا حکم جاری
ہوا۔ جس نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے
نوٹس میں یہبات نہیں لائی گئی ہے کہ اب بھی ہزاروں زلزلہ متاثرہ کنبے
شیلٹرز یا خیموں میں موجود ہیں۔ نیو بالا کوٹ سٹی میں متاثرین کو پلاٹوں کی
الاٹمنٹ کا مسلہ حل طلب ہے۔ مظفر آباد میں ابھی تک متاثرین کے لئے اعلان
کردہ سٹیلائٹ ٹاؤنز تعمیر نہیں کئے جا سکے ہیں۔ لوگ اب بھی چھت اور زمین کے
بغیر ہیں. عالمی ڈونرز کے ساتھ کمٹ منٹ اور آزاد کشمیر کے 55ارب روپے کی
واپسی یقینی بناکروفاق قومی خدمت انجام دے سکتا ہے۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت میں زلزلہ سے شدید تباہی ہوئی اورموقع کا ناجائز
فائدہ اٹھاتے ہوئے دارالحکومت کو منتقل کرنے کی کوشش کی گئی جو اہلیا ن
مظفر آباد نے ناکام بنا دی ۔ حکومت نے ابھی تک مظفر آباد کے ماسٹرپلان پر
عمل نہیں کیا ۔ ماسٹر پلان کو تیار کرنے میں کئی سال لگ گئے لیکن ہنوز دلی
دور است کے مصداق اس پر ماضی قریب میں عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ
کہا جا رہا ہے کہ لین دین اور کمیشن کے حوالے سے معاملہ الجھا ہوا ہے۔چین
کی کمپنیاں بھی کمیشن کے سلسلے میں بھاگ گئیں۔ حقائق جو بھی ہوں یہ سچ ہے
کہ حکام کی بے تدبیری نے متاثرین کو سخت مصائب سے دوچار کر رکھا ہے۔ اور وہ
دھکے کھا رہے ہیں۔ 1990ء کو مقبوضہ کشمیر سے بھارتی مظالم کی وجہ سے ہجرت
کر کے آنے والوں کی بحالی اور آبادکا ری کا مسئلہ مسلسل لٹکا ہوا ہے۔ یہ
لوگ کامسراے ،بی اور سی ،مانکپیاں1,2،پٹہکہ، امبور، راڑہ دومشی، ہیئر
کوٹلی، بسناڑہ میں گزشتہ کئی برسوں سے رہائش پذیر تھے۔ زلزلہ نے ان کے ساتھ
کوئی امتیاز نہیں برتا اور مہاجرین کے بھی تقریباً ایک ہزار لوگ جاں بحق ہو
گئے۔ کامسر کے تمام کیمپ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ راڑہ ، پٹہکہ میں مہاجرین کی
بستیاں ملیا میٹ ہو گئیں۔ اسی طرح تمام مہاجر کیمپوں میں تعمیرات بری طرح
متاثر ہوئیں ۔جن کیمپوں میں مکانات نظر آتے ہیں وہ صرف ڈھانچے ہیں ان کی
اگر چہ مرمت کی گئی ہے تا ہم یہ مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں۔ با امر مجبوری
لوگ ان میں رہائش پذیر ہیں ۔ ورنہ یہاں رہائشی سہولیات نا پید ہیں ۔چند
کیمپوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے جو متعلقہ افسران کی نذر ہو گئے
اور ملی بھگت سے رقومات میں خرد برد کیا گیا۔ اس وقت ضلع مظفر آباد کے راڈو
امبورڈیئری فارم، زیرو پوائینٹ، بشیر شہید کیمپ، نسیم شہید کیمپ، حبیبہ
کیمپ، قاضی حمید کیمپ، اشتیاق شہید کیمپ، رئیس الاحرار کیمپ، نور اﷲ شہید
کیمپ، ڈیری فارم کامسر، الحبیب کیمپ ہیئر کوٹلی، نیو یونیو ورسٹی کیمپ ہیئر
کوٹلی، زیرو پوائینٹ کیمپ کارکہ ریفیوجی، کارکہ پٹہکہ، ڈیری فارم کامسر
ریفیوجی، عابد شہید کیمپ، مانکپیاں 1، مانکپیاں 2،بسناڑہ، باغ میر سمدانی،
ہٹیاں کیمپ موجود ہیں۔جو لوگ خیمہ بستیوں اور عارضی شیلٹرز میں مصائب جھیل
رہے ہیں۔ اسی طرح ضلع باغ میں چھتر، منگ بجری، راولی ہڈہ باڑی ، ضلع کوٹلی
میں گل پور، کوٹلی سوہنیاں، فتح پورمہاجر کیمپ ہیں ، ضلع مظفر آباد ، باغ،
میر پور، راولا کوٹ میں کیمپوں سے باہر کرایہ پر بھی ہزاروں مہاجر خاندان
مقیم ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مظفر آباد میں 19187،باغ میں
5206، کوٹلی میں 6304، میر پور 478، اور راولا کوٹ میں 1990ء کے 96مہاجرین
آباد ہیں ۔سابق کمشنر محکمہ بحالیات حکومت آزاد کشمیر سردار خورشید احمد نے
تصدیق کی کہ جو مہاجر کیمپ مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں ان کے مکینوں کو
دوسرے مقامات پر جگہ دی جائے گی۔مہاجرین کو ٹھوٹھہ میں چند عدد شیلٹر پر
ٹرخا دیا گیا۔ باقی کے لئے چند مرلے زمین کی فراہمی کا اعلان ہوا۔ شہر مین
کرایہ پر رہنے والوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مہاجرین کی آبادکاری کے لئے
بلند و بانگ دعوے کئے گئے لیکن ان کو پورا نہیں کیا گیا۔ زلزلہ سے متاثرہ
مہاجرین کی بحالی اور آباد کاری کے لئے بھی فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت
تھی۔ حکومت پاکستان مہاجرین کے لئے گزارہ الاؤنس میں اضافے کا اعلان کرے۔
اس کے علاوہ مہاجرین کے لئے جدید سہولیات پر مبنی رہائشی کالونیاں تعمیر کی
جائیں، پاکستان کی نئی حکومت نے جموں وکشمیر کے مہاجرین کی آبادکاری کا عزم
ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیاتھا کہ 1988ء کے بعد آزادکشمیر اور پاکستان آنے
والے جموں و کشمیر کے مہاجرین کی آباد کاری کی جائے گی۔یہ بات قابل ذکر ہے
کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے جموں وکشمیر کا دورہ کر کے آزاد کشمیر سے جموں
جاکر آباد ہونے والے مہاجرین کی آبادکاری کے لئے پیکج کا اعلان کیا
تھا۔آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 1947,ء ،1965ء کے مہاجرین
جموں وکشمیر کی کالونیوں کی تکمیل کے لئے فنڈز فراہم کرنے کااعلان کیا۔یہ
کالونیاں پاکستان کے چاروں صوبوں میں زیر تعمیر ہیں ۔ان کی کل تعداد
14ہے۔آزاد کشمیر اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد 42ہے۔ جن میں 12سیٹیں
پاکستان کے چاروں صوبوں میں بسنے والے جموں و کشمیر کے مہاجرین کے لئے مختص
ہیں ۔آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخاب کے ساتھ ہی ان 12سیٹوں پر بھی انتخاب
ہوتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے کشمیری مہاجرین کو دوہری شہریت حاصل ہے۔ وہ
آزادکشمیر اور پاکستان کے انتخابات میں نہ صرف ووٹ ڈالتے ہیں بلکہ امیدوار
بھی بنتے ہیں۔اور جیت کر صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔65 ء
1947 ء کے کشمیری مہاجرین راولپنڈی،لاہور،کراچی،پشاورسمیت پاکستان کے بڑے
شہروں میں قیام پذیر ہیں۔وہ مقامی و قومی سیاست و معاشرت میں رچ بس گئے
ہیں۔1947,65ء کے مہاجرین کے بر عکس 1988ء کے بعد کے کشمیری مہاجرین کی
اکثریت آزاد کشمیر یا راولپنڈی کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے۔شروع میں یہ لوگ
کئی برسوں تک خیموں میں رہے۔آزاد کشمیر کے دارالحکومت کے گرد ونواع میں
راولپنڈی شاہراہ پر راڈہ دومشی اور امبورمیں دو خیمہ بستی کیمپ جبکہ وادی
نیلم شاہراہ پر کامسرمیں چار کیمپ قائم کئے گئے۔مظفر آباد ائر پورٹ شاہراہ
پر مانکپیاں میں بھی تین کیمپ قائم ہوئے۔حکومت اور این جی اوز کے تعاون سے
مہاجرین نے خیموں کی جگہ پختہ گھر تعمیر کر لئے تھے جن پر ٹین کی چادریں
لگا دی گئیں۔ مہاجرین کی تعداد تقریباً 40ہزار ہے۔جنہیں مفت علاج اور تعلیم
کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔2005ء کے تباہ کن زلزلہ میں مہاجرین کے مکانات
بھی تباہ ہو گئے اور سینکڑوں افراد شہید ہوئے۔آزاد کشمیر حکومت دعوے کر رہی
ہے کہ مہاجرین کے لئے قبرستان کا بندوبست کیا گیا ہے اور رہائشی بستیاں بھی
قائم کی جارہی ہیں۔مہاجرین کا حکومت سے مطالبہ رہا ہے کہ ان کی مستقل
آبادکاری کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ان مطالبات کی روشنی میں مہاجرین
کے لئے آزادکشمیر میں چھ فی صد نوکریوں کا کوٹہ بھی مختص کیا گیا ہے۔جس پر
عمل در آمد نہیں کیا جاتا۔ مہاجرین کے کوٹے پر دیگر امیدواروں کو تعینات کر
دیا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر اور سرحد میں آنے والے تباہ کن زلزلہ کے12 سال بعد کامیابیوں یا
ناکامیوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ ہم نے کیا کارکردگی پیش کی ہے۔ کیا اب
بارہواں موسم سرما متاثرین گزشتہ برس کے مقابلے میں قدرے سکون سے گزارسکیں
گے؟۔
جنگ بندی لائن کے دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں صورتحال بد تر ہے جہاں
8اکتوبر2005ء کے زلزلے میں تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ زلزلے
میں ہزاروں رہائشی مکانات تباہ ہوئے۔ ضلع کپواڑہ اور بارہمولہ میں اوڑی اور
کرناہ کی بستیوں میں جانی اور مالی نقصان کے بعد ریسکیو اور ریلیف آپریشن
کے آغاز سے ہی کشمیریوں کو نظر انداز کیا گیا۔ امدادی کاموں کے لئے جنگ
بندی لائن پر پاک افواج اور این جی اوز کو بھارت نے کا م کرنے کی اجازت
نہیں دی۔ کشمیریوں کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ نمایاں تعلق کو اس زلزلہ
نے مزید اجاگر کر دیا کہ کس طرح پاکستانی فوج،سول حکومت اور عوام ، سمندر
پار پاکستانیوں نے زلزلہ متاثرین کے لئے زبردست خدمات انجام دیں ۔ اس کے
برعکس روائتی طور پر بھارتی لوگ اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ جنگ بندی
لائن پر چند انٹری پوائنٹس کھولے گئے لیکن ان پر کشمیریوں کا داخلہ سخت کیا
گیا جس کے باعث لوگ آر پار کا سفر کرنے کے لئے مشکلات سے دوچار ہوئے۔ بھارت
نے میڈ ان پاکستان اشیاء کو ممنوع قرار دے کر ان کے مقبوضہ کشمیر میں داخلے
پر پابندی لگا دی ۔ جس کے خلاف آر پار کے تاجر مظاہرے کررہے تھے۔بھارت اس
سی بی ایم سے بھاگنا چاہتا ہے ۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کا قتل
عام تیز کر دیا ہے۔اب بھارت کے ائر فورس چیف پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر
حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو متحد ہونے
کی ضرروتت ہے۔اب وقت ہے کہ ایرا، سیرا، پیرا جیسے اداروں کی پیشہ ورانہ
صلاحیتوں سے سبق حاصل کیا جائے۔ یہ بات یاد رہے کہ کسی بھی اقدرتی یا
انسانی آفت کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کی طرف ہی نہیں دیکھا جا سکتا ہے
بلکہ عوام کا مکمل تعاون اور وابستگی ہر ایک مسلہ کو آسانی سے حل کر ا سکتی
ہے۔ |